• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جی سی یو میں بھی تبدیلی آ گئی ہے، اولڈ راوین یونین کے الیکشن میں پرانے برج الٹ گئے ہیں، وہاں اب نئی قیادت آ گئی ہے۔ اس الیکشن پر بعد میں بات کرتے ہیں پہلے لاہور میں گزرے دو مصروف ترین دنوں کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ ہفتے کی شام جیو کی نیوز اینکر آمنہ شاہ کی شادی کی تقریب تھی، آمنہ شاہ ہمدمِ دیرینہ ارشاد عارف کی صاحبزادی ہیں۔ اس تقریب میں کئی صحافیوں اور سیاستدانوں سے ملاقات ہوئی، کچھ سول بیورو کریٹس اور فوجی افسران بھی نظر آئے۔ یہاں دانشور ایاز امیر، مجیب الرحمٰن شامی، ضیاء شاہد، خوشنود علی خان اور رحمت علی رازی کے علاوہ کئی اہم سیاسی کتابوں کے خالق سہیل وڑائچ، محسن گورائیہ، اپنے ذوالفقار راحت اور عمر مجیب شامی سمیت کئی صحافیوں سے ملاقات ہوئی۔ منصور آفاق مجھے ڈھونڈتے ہی رہ گئے۔ وفاقی سیکرٹری اطلاعات شفقت جلیل، پیمرا کے چیئرمین محمد سلیم بیگ، رائو تحسین علی خان، میاں جہانگیر اور حمزہ گیلانی سے ملاقات تو تقریب میں داخل ہوتے ہی ہو گئی تھی۔ یہاں میرا زیادہ وقت بریگیڈیئر باسط شجاع کے ساتھ گزرا، جنرل غلام مصطفیٰ اور بریگیڈیئر سائمن سے بھی ملاقات ہوئی۔ خواتین اینکرز میں سے صرف شازیہ اکرام سے ہی سامنا ہو سکا۔ جاوید ہاشمی اور احسن اقبال بھی ملے۔ ڈاکٹر طاہر القادری تو بہت ہی تپاک سے ملے جس پر میں ان کا شکر گزار بھی ہوں۔ اسی طرح خرم نواز گنڈا پور، فیاض الحسن چوہان، منیر احمد خان اور لیاقت بلوچ بڑی محبت سے ملے۔ پنجاب کے ملنسار گورنر چوہدری محمد سرور نے تو صاف ہی کہہ دیا کہ تفصیلی ملاقات کے بغیر اسلام آباد نہیں جانا بلکہ انہوں نے وہیں کھڑے کھڑے اگلے دن کی ملاقات طے بھی کر دی۔ اس تقریب میں ڈاکٹر صغرا صدف اور چوہدری غلام حسین سے لمبی بات تو نہ ہو سکی کہ پوری تقریب میں مجھے اپنے پیارے دوست نوید چوہدری کا قیدی بن کر وقت گزارنا پڑا۔ پیپلز پارٹی کے اس جہاں دیدہ رہنما کی ایک ہی شرط تھی کہ تم کھانا یہاں نہیں کھائو گے بلکہ کھانا ہم کہیں اور کھائیں گے۔ نوید چوہدری میرے وہ دوست ہیں جن کا حکم ٹالنا میرے لئے مشکل ہوتا ہے، میں سارے لاہور کو چکر دے سکتا ہوں مگر نوید چوہدری کو چکر دینا مشکل کام ہے۔ اس لئے میں ان کے سامنے ہار مان جاتا ہوں حالانکہ مجھے جمشید اقبال چیمہ سمیت کئی سیاسی دوستوں کی طرف سے نہ ملنے کا شکوہ ملتا ہے۔ پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اعجاز چوہدری تو بات ہی ختم کر دیتے ہیں کہ اچھا ہم آپ سے ملنے اسلام آباد آ جائیں گے۔

پہلے دن کے آغاز میں ندیم رضا میرے ساتھ تھے، اس تقریب کے بعد قریباً نصف شب تک نوید چوہدری کے ساتھ مستقبل کے سیاسی نقشے پر بات ہوتی رہی، نصف شب کے بعد ایک اور اہم دوست عمار گیلانی سے ملنے کا موقع ملا، شب کے آخری پہر تک مصروف گفتگو رہے۔ دراصل مجھے لاہور میں کم از کم چاروں شعبوں کے افراد سے کسی نہ کسی طور ضرور ملنا پڑتا ہے۔ سیاست اور صحافت سے جڑے افراد سے ہر حال میں ملنا ہوتا ہے پھر ادب اور شوبز کے لوگوں سے بھی میری دوستیاں ہیں، صرف شوبز کے لوگ رات گئے یاد کرتے ہیں باقی تینوں شعبوں کے لوگ دن یا پھر سرشام مجھے کسی نہ کسی محفل میں گھسیٹ لیتے ہیں۔ جن دنوں میں گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتاتھا تو دو شخصیات کو شوق سے ملنے جاتا تھا نوابزادہ نصراللہ خان اور محترمہ ایلس فیض۔ نوابزادہ صاحب بابائے جمہوریت، ان سے بہت سے لوگوں نے بہت کچھ سیکھا، ان کی رہائش گاہ ریلوے اسٹیشن کے قریب تھی، ان کے ہاں ہر وقت ہجوم لگا رہتا تھا۔ وہ اپوزیشن اتحاد کے لئے ایک بڑی پارٹی کو ساتھ ملاتے تھے، باقی آٹھ نو پارٹیاں ان کی جیب میں ہوتی تھیں بس پھر وہ بڑی پریس کانفرنس کرتے اور بڑے مخصوص لہجے میں فرماتے کہ ہمارا گیارہ جماعتی اتحاد بن گیا ہے۔

محترمہ ایلس فیض ماڈل ٹائون میں رہا کرتی تھیں، ان سے میری بڑی لمبی نشستیں ہوا کرتی تھیں۔ ان ملاقاتوں میں کئی موضوعات زیر بحث آتے، ایلس فیض میرے ساتھ ہمیشہ شفقت فرماتی تھیں شاید اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ میرا تعلق فیض صاحب کے علاقے سے تھا، ابھی چند روز پہلے جیو پر شجیعہ نیازی نے فیض صاحب کے حوالے سے ایک شاندار پروگرام کیا تو مجھے ایلس فیض بہت یاد آئیں۔

اتوار کے دن اولڈ راوین یونین کا الیکشن تھا، پورے پاکستان میں شاید یہ واحد الیکشن ہے جو انتہائی خوشگوار ہوتا ہے۔ یہاں عرصہ دراز سے دو گروپ ہی سیاست کا حصہ تھے، دو ڈھائی سال پہلے ہم چند دوستوں نے ایک نیا گروپ تشکیل دیا اور دوسال کی ہماری سیاسی حکمت عملی نے باقیوں کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔ اس مرتبہ ہمارے اشفاق موہلن، رانا شہزاد اقبال، سعدیہ غزنوی، سید طیب رضوی اور چند دوستوں نے پانسہ پلٹ دیا۔ ہمیں اس الیکشن کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کئی پرانے دوستوں سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ اس مرتبہ بھی ڈاکٹر خالد رانجھا، حامد خان، ضیاء رضوی، اصغر ندیم سید اور پروفیسر اشفاق شاہ کے علاوہ کئی دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ پنجاب کے سینئر وزیر علیم خان بھی ووٹ ڈالنے آئے ہوئے تھے، پنجاب اسمبلی کے رکن گلریز گوندل بھی ووٹ ڈالنے والوں میں شامل تھے۔ گلریز گوندل، ندیم افضل چن کے بڑے بھائی ہیں اور ہمارے ساتھ پڑھتے رہے ہیں۔ ایک معروف کردار عابد باکسر بھی ووٹ ڈالنے آئے ہوئے تھے، انہیں دیکھ کر مجھے سیاست کے کئی چہرے یاد آ گئے۔ سہ پہر کو میری گورنر پنجاب سے ملاقات تھی، یہ ملاقات بڑی دلچسپ اور خوشگوار رہی، چوہدری سرور پنجاب کے لئے بہت کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، شام کو ہمارے شوبز کے دوستوں نے ایک محفل سجا رکھی تھی۔

لاہور کی تمام مصروفیات اپنی جگہ مگر وہ جو جی سی کا رومانوی ٹاور ہے، اُسے کون بھول سکتا ہے، اس کی اپنی کشش ہے، اوول گرائونڈ سے اس کا نظارا کون فراموش کر سکتا ہے پھر اس کے دوسری جانب لو گارڈن بھی کوئی بھولنے کی جگہ ہے؟ پتہ نہیں اس رومانوی ٹاور میں کیا کشش ہے، کوئی بھی راوین اسے بھولنے کے لئے تیار نہیں ہوتا، اس عمارت سے لوگوں کو عشق ہو جاتا ہے، شاید اس کی بڑی وجہ یہ ہو کہ گورنمنٹ کالج لاہور کی راہداریوں نے بڑی بڑی ہستیوں کے قدم چوم رکھے ہیں۔ اس لازوال محبت کی سمجھ نہیں آتی، لاہور میں یہ کیا پرکشش مقام ہے کہ اس کے گرد ہجومِ عاشقاں رہتا ہے۔ محبتوں کے لازوال شاعر شعیب بن عزیز کا شعر رہ رہ کر یاد آتا ہے کہ ؎

دوستی کا دعویٰ کیا، عاشق سے کیا مطلب

میں تیرے فقیروں میں، میں تیرے غلاموں میں

تازہ ترین