• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چین کے مسلم اکثریتی صوبہ ژنجیانگ کے جلاوطن الغیور مسلمانوں کی عالمی تنظیم نے وارننگ دی ہے کہ دہشت گردی کو کچلنے کے کام پر ژنجیانگ میں مسلمانوں کے خلاف مذہبی جبر و دباؤ قتل و غارت اور تہذیب کو کچلنے کی چینی مہم نے اس سارے علاقے کو ایک ٹائم بم میں تبدیل کر دیا ہے۔
ترکی زبان بولنے والے لگ بھگ ایک کروڑ مسلمان الغیور نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ جو چین کے شمال مشرقی صوبہ ژنجیانگ میں بستے ہیں۔ اگرچہ یہ صوبہ 1955 سے خودمختار ہے لیکن چینی حکام اس صوبہ کو بار بار اپنی کارروائیوں کا نشانہ بناتے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور بعض این جی اوز چینی حکام پر الغیور مسلمانوں کے خلاف مذہبی مظالم ڈھانے کا الزام عائد کر رہی ہیں۔ ابھی حال ہی میں نئے سال کئے پہلے دن شمال مغربی چین ژنجیانگ کے ایک گاؤں میں سینکڑوں چینی مسلمانوں اور پولیس کے درمیان تصادم میں متعدد افراد ہلاک ہوگئے یہ چینی مسلمان ایک مسجد کے انہدام کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے، حکام کے مطابق یہ مسجد غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی تھی جبکہ مسلمانوں کا موقف تھا کہ گاؤں کے لوگ ایک ایک مذہبی تقریب منعقد کر رہے تھے مگر حکام نے اس کی اجازت نہیں دی اور انہوں نے سرے سے مسجد کو ہی منہدم کر دیا اور اس پر ٹریکٹر چلا کر زمین پر پڑے ہوئے خون کو چھپانے کیلئے اس جگہ کو ڈھک دیا۔ ورلڈ الغیور کانگریس نے یورپ کی ایک نیوز ایجنسی کو بتایا ہے کہ سیاسی جبر، تہذیب کو ملیا میٹ کر دینے، معاشی استحصال، ماحولیاتی تباہ کاری اور نسلی امتیاز کی پالیسی نے مشرقی ترکستان کو رفتہ رفتہ اس سٹیج پر کھڑا کیا ہے کہ وہ ایک ٹائم بم میں تبدیل ہوچکا ہے جو کہ کسی وقت بھی پھٹ سکتاہے۔ چینی حکام کی زیادتیوں کے نتیجہ میں چین کے خلاف مسلمانوں کے جذبات سارے مشرقی ترکستان میں شدید تر ہوتے جارہے ہیں۔
چند سال پہلے ژنجیانگ میں حزب اللہ کے تین رہنماؤں کو پھانسی دے دی گئی تھی ان افراد نے ژنجیانگ میں جدوجہد آزادی میں مصروف حزب اللہ کی بنیاد رکھی تھی۔ چینی حکام کے مطابق حزب الہ نے دہشت گردی کی ٹریننگ پاکستان میں حاصل کی تھی ان سب پر قومی سلامتی کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ژنجیانگ میں حزب اللہ کی بنیاد 1997 میں رکھی گئی تھی جس میں جنرل حمید گل کی سربراہی میں آئی ایس آئی نے بھرپور حصہ لیا تھا۔ حزب اللہ پر ہتھیاروں اور علیحدگی پسندی کے الزامات ثابت ہونے پر چینی حکام نے تین افراد کو پھانسی کی سزا دے دی تھی۔ ژنجیانگ کے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ چین کے بانی ماوٴزے تنگ نے مشرقی ترکستان کے عوام سے انہیں حق خود اختیاری دینے کا وعدہ کرتے ہوئے 1255 میں ژنجیانگ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا لیکن ماؤزے تنگ کی موت کے بععد بھی آج تک مشرقی ترکستان چین کے سابقہ اور موجودہ قائدین مغربی ترکستان جس کی آبادی لگ بھگ ایک کروڑ ہے اور جو انہیں ملک کا سب سے بڑا اقلیتی گروپ بناتی ہے کو مکمل طور پر چین کی نوآبادی بنانے اور الغیور مسلمانوں کی ثقافت کو ختم کرنے اور تیل و قدرتی گیس کے بہت سے ذخائر پر مشتمل قدرتی وسائل کا معاشی استحصال کرنے کا سلسلہ آج بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ترکستان تاریخی طور پر ان علاقوں کو کہا جاتا ہے جو سائبیریا، تبت، برصغیر پاک و ہند اور افغانستان و ایران کے مابین شمال میں واقع ہے۔ ماضی میں اس کی سرحدیں بحیرہٴ کیسپئین، منگولیا اور صحرائے گوبی تک وسعت پذیر تھیں۔ اس وسیع و عریض علاقے کا مشرقی حصہ چینی ترکستان (اب ژنجیانگ) اور مغربی حصہ روسی ترکستان کہلاتا تھا جس میں سابق سوویت یونین کی اکثر مسلم ریاستیں شامل تھیں جو اب روس سے الگ ہوچکی ہیں۔ مشہور مورخ ابن الاثیر نے مشہور سالار قتیبہ بن مسلم اور شاہ چین کے مابین نامہ و پیام کی تفصیل لکھی ہے۔ قتیبہ نے فتح چین کا ارادہ کیا تھا مگر دمشق میں خلیفہ ولید کے انتقال کے بعد اسے یہ حملہ ملتوی کرنا پڑا۔ اس نے ایک وفد چین کے دربار میں بھیجا۔ اس طرح چین میں اسلامی اثرات کی ابتداء ہوئی۔
آج ژنجیانگ کی مجموعی حالت اتنی خراب ہے کہ چینی اسے اپنا ”سائبریا“ کہتے ہیں۔ بالعموم چینی قیدیوں کو سخت سزا بھگتنے کیلئے یہاں کے مشقتی کیمپوں میں بھیجا جاتا ہے۔ جس کا انتظام براہ راست وزارت امن و عامہ کے سپرد ہے اور جہاں ہزاروں قیدی پابندِ سلاسل ہیں اگر ترک مسلمان قیدی اپنی سزا پوری بھی کرلے تو بالعموم انہیں اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ تاوقتیکہ ان کے آبائی شہر یا علاقے کی کمیونسٹ پارٹی کے عہدے دار اس کے حق میں قرارداد منظور کرلیں اور ایسے مواقع کم ہی پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس چینی قیدیوں کو رہائی کے بعد ژنجیانگ کے علاقے ہی میں بمع اہل و عیال آباد کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح وہاں چینی نسل کے ہزار ہا باشندے آباد ہوتے جارہے ہیں اور الغیور مسلمان حسب معمول، حسب روایت اور حسب عادت لڑائی میں کام آرہے ہیں۔
چین کی تاریخ عجیب و غریب واقعات سے پر ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں چین کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا تھا۔ اس سے قبل 1331ء میں جاپان نے مغپوریا پر فتحح حاصل کرکے اپنی حکومت قائم کرلی چین نے اس معاملہ کو لیگ آف نیشن میں اٹھایا تو جاپان نے بات چیت کرنے کی بجائے لیگ آف نیشن سے ہی استعفیٰ دے دیا۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپان نے جرمنی اور اٹلی سے مل کر چین پر حملہ کردیا۔ چین کی تاریخ نسبتاً مختلف رہی ہے چین کا ایک بے حد دشوار اور پریشان کن مسئلہ اپنی طویل سرحدوں کو محفوظ رکھنا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی ژنجیانگ میں الجھتا نظر آتا ہے کبھی بھارت کی سرحدوں سے چھیڑ چھاڑ کرتا ہے اور کبھی تبت کے دلائی لامہ کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتا ہے۔ یہ مسائل نئے چین یا کمیونسٹ چین یا جو بھی آپ سمجھ لیں کے نہیں ہیں بلکہ لگ بھگ دو ہزار سال قبل چن راج گھرانے کے بادشاہوں نے دیوار چین (گریٹ وال) تعمیر کر ڈالی تھی کہ قبائلی حملہ آوروں اور دراندازوں کو داخل ہونے اور لوٹ مار سے روکا جاسکے۔ دوسری جنگ عظیم میں چین کا گھیراؤ کرلیا گیا۔ ویت نام میں فرانس، برما میں انگلستان، منچوریا میں روس اور کوریا میں جاپان، چین نے اپنی حکمت عملی سے نہ تو انگلینڈ کا ساتھ دیا اور نہ ہی جرمنی کا۔ لیکن چین نے تبت پر قبضہ کرکے آدھی دنیا سے زیادہ کو اپنا مخالف بنالیا۔ 1240 سے تبت پر لامہ کا قبضہ چلا آتا تھا کہ یہ علاقہ منگول حکومت کا حصہ تھا مگر والیٴ چین نے 1908 میں تبت پر قبضہ کرلیا۔ بعدازاں 1950 میں دوبارہ کمیونسٹ چین کی حکومت نے اس پر مکمل قبضہ کرلیا اور دلائی لامہ کو بھارت جلا وطن کر دیا گیا۔ یہ سچ ہے کہ چین نے ژنجیانگ کی طرح تبت میں بدھ بھکشووٴں پر مظالم کئے لیکن یہ میرے حساب سے ایک الگ موضوع ہے۔ اس سے چین کا اقتصادی و سیاسی و داخلی مزاج ختم نہیں ہوجاتا۔
میں نے کہیں پڑھا ہے کہ سیاست کو سمجھنا مشکل کام ہے اور چینی سیاستدانوں کو سمجھنا تو اس سے زیادہ مشکل کام ہے۔
تازہ ترین