• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی نوجوانوں اور اُن کے والدین کو مستقبل کے سہانے اور تابناک خواب دکھا کر دوسرے ممالک کے سفر پر راضی کرنے والا ’’ ایجنٹ مافیا ‘‘ پاکستان میں دندناتا پھر رہا ہے، اس مافیا کا اگر کوئی ممبر یا نمائندہ پکڑا بھی جائے تو وہ چند دن بعد ہی آزاد فضاؤں میں گھومتا نظر آتا ہے ۔

ایجنٹ مافیا ہمارے معاشرے کا ایک ایساناسور ہے جس کا قلع قمع کرنے کے لئے کسی حکومت نے کوئی واضح پالیسی نہیں بنائی ۔

پاکستانی نوجوانوں کو دوسرے ممالک جانے اور وہاں اپنے مستقبل کو بہتر بنانے میں کوئی ممانعت نہیں لیکن یہ ایجنٹ مافیا جن راستوں اور طریقوں سے لوگوں کو دوسرے ممالک پہنچاتا ہے وہ غیر انسانی عمل ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے ۔

والدین کو خواب دکھائے جاتے ہیں کہ آپ کا بچہ دوسرے ملک جا کر ترقی کرے گا ، پیسے کمائے گا ، لاکھوں ڈالرز اور یوروز آپ کو ارسال کرے گا ، آپ کے تمام قرضے اُتر جائیں گے ، آپ اپنی برادری میں نمایاں مقام حاصل کر لیں گے ، آپ کی بچیوں کی شادیاں اچھے گھروں میں ہو جائیں گی ، آپ کا بیٹا جب ’’ کماؤ پوت ‘‘ بنے گا تو اُس کو اچھے رشتے آفر کئے جائیں گے ، ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ آپ کا بچہ آپ کو حج کروائے گا اور پھر اپنے ساتھ ہی دوسرے ملک منتقل کر لے گا جس سے آپ کی باقی ماندہ زندگی سکون اور آرام سے گزرے گی ۔

ایجنٹ مافیا والدین کو اس طرح ’’ ٹریپ‘‘ کرتا ہے کہ وہ بیچارے اپنا سب کچھ بیچ کر اور مزید قرض اُٹھا کر اپنے بچوں کو دیارِ غیر بھیجنے کے لئے راضی ہو جاتے ہیں ۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہمارا بیٹا غیر قانونی طور پر مختلف ممالک کی سرحدیں عبور کرے گا تو اُسے سیکیورٹی فورسز کی گولیاں کا نشانہ بن سکتا ہے یا اُس کا کنٹینر میں دم گھٹ جائے گا یا یہ کہ وہ جس کشتی پر ترکی سے یونان کے لئے دریا عبور کرے گا تو وہ کشتی طوفانی لہروں کی لپیٹ میںآکر تباہ بھی ہو سکتی ہے۔

ایسی بیسیوں مثالیں موجود ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان سے ایران ، ترکی، یونان ، اٹلی ، آسٹریا اور وہاں سے دوسرے یورپی ممالک کے غیر قانونی سفر میں کتنی ماؤں کے لخت جگر جان کی بازی ہارے ہیں ۔

ایجنٹ مافیا پاکستانی بے روزگار نوجوانوں کو کوئٹہ کے راستے ایران وہاں سے اپنے دوسرے گروپ کے ہاتھوں ترکی کے بارڈر تک پہنچاتا ہے ، ترکی کی سرحد عبور کرنے کے لئے پھر ایک تیسرا گروپ کام کرتا ہے جو ساری رات پہاڑی راستوں سے گزرتا ہوا ترکی کے سرحدی علاقوں کے قریب کسی گاؤں میں نوجوانوں کی کھیپ پہنچا کر فارغ ہو جاتا ہے ، وہاں سے اسی ایجنٹ مافیا کا چوتھا نمائندہ ترکی سے یونان کی ’’ ڈنکی ‘‘ لگواتے ہوئے پلاسٹک کی کشتی جس میں ہوا بھی مسافر خود بھرتے ہیں دریا کی بپھری لہروں کے سپرد کر دیتا ہے ، زیادہ تر مسافر اس جان لیوا سفر میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور یونان پہنچ کر وہاں سے جرمنی ، آسٹریا ، اٹلی ، اسپین ، بیلجیئم ، ہالینڈ ، پولینڈ اور فرانس کے لئے نئے سرے سے ایجنٹوں کا انتظام کرتے ہیں ۔

حیران کن بات یہ ہے کہ کسی بھی ایجنٹ کا دوسرے ملک کی سرحدپر سیکیورٹی فورسز سے کوئی ’’ مک مکا ‘‘ نہیں ہوتا بلکہ یہ ناسور صرف اُن راستوں سے آشنا ہوتا ہے جہاں کامیابی اور موت دونوں صورتوں میں آنے والوں کا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔

یہ شواہد بھی ملے ہیں کہ پاکستان میں کام کرنے والا ایجنٹ مافیا اُن لوگوں کی خدمات حاصل کرتا ہے جو کبھی خود اِن راستوں سے ہو کر اپنا مستقبل تابناک بنانے کی کوشش میں سفرکر چکے ہوں ، یعنی خود فریب کھانے والے دوسروں کو فریب دے کر اپنی ضائع شدہ رقوم کو واپس حاصل کر لیتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ اپنے پیسے واپس کرنے کے لئے وہ کتنی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔

ایجنٹ مافیا کے گروپس جہلم ، منڈی بہا لدین ، گوجرانوالہ ، وزیر آباد،  فیصل آباد ، آزاد کشمیر ، لالہ موسیٰ ، کھاریاں اور ان شہروں کے گردو نواح میں سر گرم عمل ہیں ،یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ اس مافیا کو سیاسی پشت پناہی بھی حاصل ہوتی ہے ، کچھ بیورو کریٹس اور سرکاری اداروں کے نمائندے بھی ایجنٹ مافیا کو تحفظ فراہم کرتے ہیں ، ایف آئی اے سے بھی ساز باز کرنا اور اُن کی آشیر باد بھی ایجنٹ مافیا کو کام کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے ۔

وہ پاکستانی نوجوان جو ان گروپس کے ہتھے چڑھ کر دوسرے ممالک میں پہنچتے ہیں وہاں پہنچ کر اُن کا اسٹیٹس غیر قانونی ہوتا ہے یا تو وہ اُس ملک میں رہنے کے لئے سیاسی پناہ اختیار کرتے ہیں یا پھر غیر قانونی طریقوں سے رہائش اختیار کرکے رسک لے لیتے ہیں کہ جب پکڑے جائیں گے تو ڈی پورٹ ہونے سے زیادہ کیا سزا ملے گی۔

اِن میں سے زیادہ تر افراد قانونی رہائش یا کام کرنے کے کاغذات نہ ہونے کی وجہ سے جیل کی سزا بھی کاٹتے ہیں ، جب جیل کی سزا پوری ہو جائے تو سفارت خانوں کے نمائندوں کا انتظار کیا جاتا ہے کہ وہ آئیں اور نادرا سے تصدیق کر کے پاکستانی ہونے کا سرٹیفکیٹ دیں اور واپس پاکستان ڈی پورٹ کرنے کے لئے آؤٹ پاس بنا کر جہاز میں سوار کرا دیں، اس کے لئے پاکستانیوں کو کئی کئی ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے ۔

غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والے کچھ پاکستانی جاپان کی جیلوں اور امیگریشن کے حراستی مراکز میں اپنی سزا مکمل کر لینے کے بعد بھی اس لئے قیدہیں کہ ان کے پاسپورٹ اور دیگر کاغذات زائد المیعاد ہو چکے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق اس وقت 8597 پاکستانی افراد دُنیا کی مختلف جیلوں میں مختلف کیسوں کے تحت قید ہیں، ان میں سے 96فیصد غیرقانونی تارکین وطن ہیں جن کا مقدمہ لڑنے اور انہیں بازیاب کرانے کے لئے وکیل دستیاب نہیں ہے۔

حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ ترجیحی بنیادوں پر ایجنٹ مافیا کا صفایا کرے جو پاکستان کی نوجوان نسل کو سہانے خواب دکھا کر دوسرے ممالک میں جانے پر مجبورکرتا ہے ۔

تازہ ترین