• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا کی ہر قوم پر اچھے اور برے وقت پڑتے رہے ہیں اور پڑتے رہیں گے اور عموماً عوام اچھے واقعات کو تو ذوق و شوخ سے مناتے ہیں اور بُرے واقعات کو قالین یا دری کے اندر چھپا کر بھول جانا چاہتے ہیں۔ سمجھدار قومیں اچھی باتوں اور واقعات کو زورشور سے منا کر قوم کا حوصلہ بڑھاتی ہیں ان کو احساس برتری دلاتی ہیں اور ان میں خود اعتمادی پیدا کرتی ہیں اور بُرے واقعات یا حادثات کو یاد کرکے اس سے سبق حاصل کرتی ہیں اور کوشش کرتی ہیں کہ وہ غلطیاں نہ دہرائیں جن کی وجہ سے وہ بُرے حادثات کا شکار ہوئی تھیں۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ حکمرانوں نے قوّت کے نشے میں اور عیش و عشرت کی مستی میں ان بُرے اور تباہ کن حادثات کو بھلا دیا جو پہلے ان کے پیشروؤں کی تباہی و بربادی کا باعث بنے تھے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری بڑی بڑی طاقتور سلطنتیں تباہ ہوگئیں۔ آپ کے سامنے بنواُمیہ، خلافت عباسیہ، سلطنت خوارزم شاہ، منگولوں کی سلطنت، مغلوں کی سلطنت، سلطنت عثمانیہ کا زوال، اسپین میں مسلمانوں کا زوال جیسی مثالیں موجود ہیں۔ یہ تو مسلمان حکومتوں کے زوال کی مثالیں ہیں خود عیسائی حکومتیں بھی انہیں حادثات کا شکار رہی ہیں۔ ہٹلر نے نپولین کی روس پر تباہ کن مہم اور اس کی تباہی کو نظر انداز کرکے دوسری جنگ عظیم میں روس پر حملہ کردیا اور اپنی تباہی کا بیج بو دیا۔ اگر ہٹلر روس پر حملہ نہ کرتا تو جنگ کے مختلف نتائج نکل سکتے تھے اور ممکن ہے کہ انگلستان جلد ہی کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ جب کسی کو تباہ کرنا چاہتا ہے، ان کے ظلم و برُے اعمال کی وجہ سے پہلے تو ان کی عقل سلب کرلیتا ہے اور پھر تباہ کردیتا ہے۔
ہم نے ابھی تک اپنے ملک کو پیش آنے والے تباہ کن واقعات سے کچھ نہیں سیکھا۔ ابھی ہمارے سامنے16 دسمبر1971ء کا شرمناک اور ذلت آمیز واقعہ ہے۔ لاکھوں نہیں کروڑوں افراد اس ملک کے ٹوٹنے اور اس کے اسباب سے واقف ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے حکمراں اور عسکری قیادت اس ذلت آمیز واقعے کو یا تو جانتی نہیں ہے یا ارادتاً بھول گئی ہے۔ یہ اتنا بڑا سانحہ تھا، ایک ملک ٹوٹ گیا، ہزاروں افراد قتل ہوگئے، عورتوں کی عصمت لوٹی گئی، 92 ہزار فوجی قیدی بنا دیئے گئے ان کی جو بے عزتی کی گئی وہ پاکستان میں تو نہ دکھائی گئی مگر مغربی ممالک میں پوری تفصیل سے دکھائی گئی اور زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ میں رودیا تھا، اتنا سنگین اور بڑا حادثہ ہوا اور کسی کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔ بھٹو صاحب نے جسٹس حمودالرحمن کی سربراہی میں ایک کمیشن بنایا جس کا مقصد ان افراد کی نشاندہی کرنا تھا جو اس ذلت آمیز حادثے کے ذمہ دار تھے۔ رپورٹ تیار ہوگئی،دو،دو، تین تین چھوٹی چھوٹی باتیں مختلف ذرائع سے اخبارات میں شائع ہوتی رہیں مگر بھٹو صاحب میں اتنی جرأت نہ ہوئی کہ اس کمیشن کی رپورٹ شائع کرا دیتے اور عوام کو تمام واقعات سے آگاہی حاصل ہوجاتی۔ تقریباً 30 سال بعد یہ رپورٹ ہندوستان میں شائع ہوئی اور اس کو ہمارے اخبارات نے شائع کیا۔ جسٹس حمودالرحمن نے جن لوگوں کو اس سانحے کا مجرم قرار دیا تھا ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔یحییٰ خان کو قومی پرچم میں توپوں کی سلامی کے ساتھ دفن کیا گیا اور باقی ذمہ دار لوگ بھی اعلیٰ عہدوں پر تعینات کئے گئے اور زندگی کے مزے لوٹتے رہے۔ رپورٹ میں چند ان سورماؤں کی بھی پول کھولی گئی تھی جو بعد میں سینہ تانے ہم پر حکمرانی کرتے رہے۔
ہمیں علم ہے کہ مارچ 1971ء میں جنرل یحییٰ خان نے جنرل ٹکاخان سے مشرقی پاکستان میں آرمی ایکشن کرایا تھا اور اپنی ہی فوج کو اپنے ہی شہریوں اور بہن بھائیوں پر بے لگام چھوڑ دیا تھا۔ انسان کی نفسیات میں شامل ہے کہ جب بھی اس کے ہاتھ میں اختیار یا قوت آتی ہے تو نرم سے نرم تاثر دینے والا شخص بھی ظلم و ستم کرنے سے گریز نہیں کرتا اور آہستہ آہستہ اس میں اضافہ کرتا جاتا ہے یہی کیفیت مشرقی پاکستان میں پیش آئی۔ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے عہدیداروں نے دل کھول کر اپنی بھڑاس نکالی اور سخت ظلم و ستم ڈھائے۔ یہ تمام چیزیں مغربی ذرائع ابلاغ پوری طرح اپنے عوام کو دکھا رہے تھے اور ان کو تفصیلات سے آگاہ کررہے تھے۔ ان واقعات کو دیکھ کر خود کو شرم آرہی تھی کہ ہم اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر اس قسم کے ذلیل کاموں میں مشغول تھے۔ تمام پاکستانی جانتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کے باشندوں کے ساتھ مغربی پاکستان کے حکمرانوں کا غیر مساوی رویّہ تھا۔ ان کو اپنی آبادی اور تعلیم کے مطابق نمائندگی نہیں دی گئی تھی، ان کو کمتر اور کمزور سمجھا جاتا تھا۔ مغربی پاکستان کے جو افسران وہاں تعینات کئے جاتے تھے ان کا رویہ وہی تھا جو انگریز کے دور میں انگریز افسران کا ہندوستانیوں کے ساتھ ہوتا تھا۔ اس وقت یعنی جب پاکستانی فوج نے ٹکاخان کی سربراہی میں آرمی ایکشن شروع کیا تھا تو ہمارے نہایت ہی قابل احترام مرحوم حبیب جالب نے اس پر ان الفاظ میں خبردار کیا تھا:
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
اسلامی تاریخ ایسے واقعات سے بھرپور ہے جہاں آپس کی لڑائیوں اور جنگوں نے ہمیں تباہ کردیا۔ بنو امیہ، عباسی، خوارزم شاہی، تیمور اور سلطان بایزید یلدرم کے درمیان جنگوں نے اور آخر میں عربوں اور ترکوں کی جنگ نے مسلمان حکومتوں کی جڑیں کھوکھلی کردیں، ہندوستان میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ اورنگزیب کی بھائیوں کی لڑائی اور قتل و غارتگری نے حکومت کی بنیادیں ہلادیں اور اس کی موت کے بعد اتنی بڑی حکومت چند برسوں میں ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی اور انگریزوں کے قبضہ کی راہ ہموار ہوگئی۔ پہلے بنگال میں سراج الدولہ کا خاتمہ ہوا اور پھر میسور میں ٹیپو سلطان کا خاتمہ ہوا اور دونوں زوالوں میں مسلمان ساتھیوں نے ہی کلیدی رول ادا کیا تھا۔
اس وقت ملک میں جو خطرناک اور نازک حالات ہیں یہ پچھلے تباہ کن حالات سے مختلف نہیں جو1971ء میں مشرقی پاکستان میں تھے۔ اس وقت بھی حکمراں اور عسکری قیادت اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ ملک کے دشمنوں سے نبردآزما ہیں اور جلد یا بدیر ان کو ختم کردیں گے اور ملک کو ”دہشت گردوں“ سے نجات دلا دیں گے۔ اس وقت دونوں ہی شاہ سے زیادہ وفاداری کا ثبوت دینے میں سرگرم ہیں۔ بدقسمتی سے انہوں نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف جنگ کو جس کو ایک جاہل اور ضمیر فروش ڈکٹیٹر نے اپنے مفاد میں اپنا لیا تھا، ایک جہاد سمجھ لیا ہے۔ یہ امریکی جنگ ہے اور ہم امریکیوں سے ڈالر لے کر مرسنری فوج کا کردار ادا کر رہے ہیں اور اپنے ہی عوام کو بے دردی سے قتل کررہے ہیں۔ ہمارے حکمراں اور عسکری قیادت یہ بات نظر انداز کررہے ہیں یہ مخالفین بنگالیوں کی طرح نرم مزاج اور امن پسند نہیں ہیں، یہ لوگ پوری دنیا میں اپنی بہادری اور جنگی صلاحیتوں کی وجہ سے مشہور ہیں۔ یہ اپنے ہتھیار خود بناتے ہیں اور بہت اعلیٰ ہتھیار بناتے ہیں اور یہ یقینا ہماری قومی یکجہتی کا شیرازہ بکھیر سکتے ہیں۔ حکومت اور عسکری قیادت امریکہ کی غیرموثر معاشی اور فوجی امداد کو قبول کرکے اس جنگ میں شامل ہیں اور ہلاک ہونے واالے بے چارے عام شہری اور عام سپاہی ہیں جن کے مرنے پر چند تعریفی کلمے ادا کردیئے جاتے ہیں اور ایک حقیر سی رقم ان کے گھر والوں کو دے دی جاتی ہے۔ یہ وہ رقم ہوتی ہے جس سے تین چار مرلہ کا گھر بھی نہیں بنایا جاسکتا یا یہ رقم بنک میں رکھ کر کفایت سے گھر کا خرچ چلایا جاسکے۔
اس وقت حالات1971ء سے بھی بدتر ہیں۔ معاشی طور پر ہم تباہ ہوچکے ہیں، ہرقسم کی سماجی بُرائی ہماری رگوں میں سرائیت کرچکی ہے۔ رشوت خوری، ملاوٹ، دھوکہ دہی، دروغ گوئی وغیرہ جیسی چیزیں اب سرکاری اور قومی پالیسی بن گئی ہیں۔
اگر ہم نے جلد اپنے حالات ٹھیک نہ کئے تو 1971ء جیسے واقعات دور نہیں۔ جس قدرجلد ہم اس غیر ملکی ایجنڈے کو ترک کردیں اتنا ہی بہتر ہوگا۔ بنگلہ دیش کے واقعے کی صحیح عکاسی اگر محسوس کرنا چاہتے ہیں تو احمد فراز# کی نظم بنگلہ دیش (ڈھاکہ میوزیم کو دیکھ کر) پڑھ لیجئے وہ پوری قوم کے جذبات کی عکاسی ہے۔
تازہ ترین