• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حالات جس جانب بڑھ رہے ہیں اس سے تو لگتا ہے ملک کا نظام ٹوٹ پھوٹ گیا ہے اور اب اس طرح چلانا ممکن نہیں رہے گا۔ ہر ایک ہر ایک کی شکایت کرتا تو نظر آتا ہے لیکن کوئی حالات کو مزید بگڑنے سے روکنے یا ٹھیک کرنے کی طرف مائل نہیں یا ہمت نہیں۔ بڑے بڑے ادارے جو کسی زمانے میں ایسی دھونس اور دبدبہ رکھتے تھے وہ کھوکھلے اور بے بس نظر آ رہے ہیں۔ نیب (NAB) ہی کو لے لیں۔ بحریہ کے سابق سربراہ اور ایڈمرل فصیح بخاری صاحب جن کا کام چوروں اور ڈاکوؤں کو پکڑنا ہے وہ صرف یہ کہہ کر خاموش ہیں کہ 7 یا 12/ارب روپے روز لوٹے جا رہے ہیں۔ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ پچھلے چار پانچ سال میں لوٹ مار کا جو بازار سرکاری اور سیاسی سرپرستی میں لگایا گیا ہے اس کی کوئی مثال نہیں مگر بخاری صاحب کسی بڑے چور کو پکڑ کر عوام اور قوم کے سامنے پیش کرنے کے بجائے دہائی دیتے پھر رہے ہیں کہ لٹ گیا، برباد ہو گیا۔ اگر صرف شور ہی مچانا ہے تو وہ تو پوری کی پوری قوم اور عوام مچا ہی رہے ہیں، آپ کا کیا فائدہ۔ مگر بخاری صاحب کا واویلا کوئی ہوائی تیر نہیں لگتا، وہ کسی نہ کسی بڑے ایجنڈے کے تحت فضا سازگار کرنے کا کام بھی کر رہے ہیں۔ غور کریں بخاری صاحب اور ان کی فیملی کا تعلق پاکستان کے ایک سیاست پر اثر رکھنے والے ایک امیر ترین شخص سے بے حد قریبی رہا ہے گو وہ یہ تعلق ماننے کو تیار نہیں۔ اب بڑا ایجنڈا کیا ہو سکتا ہے۔ حکومت والے جنہوں نے شاید بخاری صاحب کواسی شخصیت کے کہنے پر یا سفارش پر نیب کا سربراہ بنایا ہو، اب یہ شکایت کر رہے ہیں کہ وہ کچھ زیادہ ہی ”آزاد“ ہو گئے ہیں اور خود حکومت پر روزانہ گولے چلانا شروع کر دیئے ہیں۔ بات تو وہ صحیح کر رہے ہیں مگر اب کیوں۔ وہ خود ایک سال سے زیادہ اس عہدے پر قائم ہیں لیکن ایک سال انہوں نے کوئی چوں بھی نہیں کی کسی کے خلاف اور یہاں تک تنقید شروع ہو گئی کہ ان کو حکومت کی دم چھلا نیب کہا جانے لگا۔ یہ سب وہ زمانہ تھا جب مذکورہ بااثر ترین شخصیت زیر عتاب نہیں آئی تھی اور ان کے ذاتی جیٹ میں ہر ایک سواری کا شوق پورا کر رہا تھا۔اب لڑائی ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے جب شعیب سڈل کمیشن نے وہ تمام کوائف اور اعداد و شمار عدالت میں پیش کر دیئے ہیں جن کی بنیاد پر اب حکومتی ادارے اربوں روپے کی ٹیکس چوری اور دوسرے غیر قانونی کاموں کی گرفت کر سکیں گے۔ سو اب بڑا ایجنڈا یہ ہے کہ کیونکہ زرداری صاحب کی حکومت کا خاتمہ قریب ہے تو نئی آنے والی حکومت یا آنے والے حکمران کی خوشنودی حاصل کی جائے اور راستہ صاف کیا جائے۔ غور سے دیکھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں، باریک نکتہ یہ ہے کہ مذکورہ با اثر ترین شخصیت کے ساتھی اب ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں۔ سب کا آخری جملہ یہ ہوتا ہے کہ اگلے انتخابات نہیں ہو رہے۔ کچھ میڈیا کے لوگ تو باقاعدہ صدارتی نظام لانے کی بھرپور کوشش میں لگ گئے ہیں۔ دو بڑے اینکر حضرات اپنے ٹاک شوز میں یا کالموں میں صدارتی نظام کی حمایت کر چکے ہیں۔ ایک نے چڑیاں اڑائیں کہ امریکہ کا نظام لایا جائے۔ دوسرے لکھتے ہیں کہ تین سال کے لئے عبوری حکومت بنائی جائے اور کڑا احتساب کیا جائے۔ خود اس با اثرشخصیت کا اپنا اخبار روز یہ کہہ رہا ہے کہ الیکشن نہیں ہو رہے۔ طاہر القادری صاحب تو اعلان جنگ کرنے آ رہے ہیں۔ اسی بااثر شخص کے دوست اور پرانے جگر اور ن لیگ کے ایک اہم مگر مصالحت پسند رہنما جو میاں نواز شریف کے رشتہ دار بھی ہیں وہ روز زرداری صاحب اور میاں صاحب کی صلح کرانے دبئی میں کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ وہ خود تو مشرف کے وزیراعظم بننے کو بھی تیار ہو گئے تھے اور گواہ موجود ہیں جو یہ شہادت دے سکتے ہیں کہ انہوں نے نواز شریف کو جدہ میں قائل کرنے کی پوری کوشش کی کہ وہ ان کو وزیراعظم بننے دیں اور پھر وہ شریف برادران کا راستہ کھول دیں گے۔ اب وہ زرداری صاحب کے ترجمان کے طور پر میاں صاحبان کو قائل کرتے رہتے ہیں کہ زیادہ لڑائی اچھی نہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ مری میں یہی صاحب سیاست پر اثر رکھنے والے ایک امیر ترین شخص کو نواز شریف، زرداری ملاقاتوں میں لے گئے، جہاں اس شخصیت نے دونوں کے درمیان قرآن شریف رکھ دیا اور وعدے وعید لئے جن سے بعد میں زرداری صاحب مکر گئے۔ سو اب بھی یہ صاحب اس کوشش میں ہیں کہ زرداری صاحب کی خواہش کے مطابق انتخابات آگے بڑھ جائیں یا وہ خود عبوری وزیراعظم بن جائیں اور پھر دونوں پارٹیوں کی خدمت کر سکیں۔ یہ تو کشمکش ہر سیاسی لیڈر کرتا ہے کہ کسی طرح دوسروں کو چھوڑ کا آگے بڑھ جائے۔ یہی کوشش اب متحدہ قومی موومنٹ میں بھی شروع ہو گئی ہے۔ MQM کے گورنر نے تو کہہ دیا ہے کہ وہ اب گورنری سے جب ریٹائر ہوں گے تو گھر چلے جائیں گے، مگر بعض دوسرے اپنے آپ کو جانشین نامزد کروانے کے لئے کوشاں ہیں۔شاید الطاف بھائی اپنی صحت کا خیال رکھتے ہوئے ان میں سے ایک کو نامزد بھی کر دیں مگر حالات تیزی سے یہ تقاضہ کر رہے ہیں کہ متحدہ کو فیصلے جلد کرنے ہوں گے۔ عدالت عالیہ کے ساتھ جو 12 مئی 2007ء کو سلوک ہوا تھا، کراچی میں اس کا حساب چکانے کا وقت لگتا ہے آ گیا ہے۔ بابر اعوان کو جب نوٹس ملا تھا تو انہوں نے شعر پڑھا تھا کہ کچھ نہ ”ہلیا“ لیکن متحدہ کے نوٹس نے کراچی کو ہلانے کی کوشش ضرور کی ہے مگر غور طلب بات یہ ہے کہ کراچی کو مفلوج کر کے متحدہ اور دوسرے عناصر کس کا نقصان کر رہے ہیں، خود اپنے لوگوں اور چاہنے والوں کا۔عدالت کے حکم پر فخرو بھائی نے پہلے ہی فوج اور FC کو بلا لیا ہے۔ گھر گھر جانے کیلئے اور اب اگر توہین عدالت کے نوٹس پر اور گڑ بڑ ہوئی تو کراچی میں انتخابات نا ممکن ہوں گے۔ ایسا ہوا تو یہ کس کے ایجنڈے پر عمل ہو گا۔ رہا صدارتی نظام تو لوگ بڑے زور شور سے نجی محفلوں میں یہ بحث کر رہے ہیں کہ متحدہ کا ہدف تو جاگیردارانہ نظام ہے اور اس کو ایک ہی وار سے ختم کرنے کا آسان نسخہ یہ ہو گا کہ صدارتی نظام لایا جائے اور عوام صدر کا خود انتخاب کریں اور منتخب صدر اپنی کابینہ امریکی صدر کی طرز پر بنائے۔ صوبوں کی آبادی اور برتری کو بیلنس کرنے کیلئے ہر صوبہ کو برابر تعداد میں Delegates دے دیئے جائیں اور جس صدارتی امیدوار کو زیادہ Delegates مل جائیں وہ صدر بن جائے یعنی امریکہ کا نظام جس سے جاگیرداروں کی گرفت ٹوٹ جائے گی اور میرٹ پر لوگ حکومت میں آ کر خدمت کر سکیں گے۔ اس تبدیلی سے نقصان کس کو ہو گا اور فائدہ کسے، یہ تو سوچنا باقی ہے، مگر یہ ظاہر ہے کہ عوام میں مقبول لیڈر جیسے الطاف بھائی یا عمران خان بڑے بڑے جغادری سیاستدانوں کو چت کر دیں گے۔ ہو سکتا ہے اس طرح کی کئی اور تجاویز زیر غور ہوں مگر تبدیلی تو آنی ہے۔ آج کل یہ لطیفہ زیر گردش ہے کہ زرداری صاحب کے دانت کچھ کھٹے ہو گئے تھے تو وہ اتوار کو ڈاکٹر کے پاس پہنچ گئے۔ ایک چڑیا نے یہ بے پر کی اڑا دی کہ صفائی سے پہلے ڈاکٹر نے مسکرا کر کہا، سر جی آپ مسکراتے بہت ہیں اور دانتوں کو باہر کی خراب ہوا لگ گئی ہے۔ پھر ڈاکٹر نے میوزک سسٹم پر یہ گانا لگایا اور صفائی شروع کر دی، تم اتنا جو مسکرا رہے ہو،کیا غم ہے…!
تازہ ترین