• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہائر ایجوکیشن کمیشن، بیورو کریسی اور مظلوم خواتین ا ساتذہ.

یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی تحلیل کے بعد جب ہائر ایجوکیشن کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا تو توقعات یہ تھیں کہ یہ ادارہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لئے بھرپور کردار ادا کرے گا اور ہوا بھی یہی۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے جس سرعت چابکدستی اور لگاتار محنت کے بعد اپنی استعدادِ کار کو اس حد تک بڑھایا کہ دوسرے ممالک کے ماہرین تعلیم بھی اس کی پالیسیوں کے حوالے سے تقلید کے جواز ڈھونڈنے لگے کیونکہ ترقی پذیر ممالک میں اس نوع کا تجربہ ان کے لئے نیا بھی تھا اور دوررس نتائج کا حامل بھی۔
2002ء میں جب یہ کمیشن قائم ہوا تو پاکستان میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کی تعداد بھی بہت کم تھی اور یہ ادارے محض لکیر کے فقیر محسوس ہو رہے تھے جبکہ کمیشن نے اپنا نصب العین ہی یہی رکھا کہ پاکستان کے تمام اعلیٰ تعلیم کے اداروں کو نہ صرف علم کی تخلیق کے قابل بنایا جائے بلکہ اس میں ایسی اعلیٰ مہارتوں کی حامل افرادی قوت بھی پیدا کی جائے جو آنے والے وقتوں میں وطن عزیز کے لئے اثاثہ ثابت ہو۔ لگاتار اور انتھک کاوشوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کمیشن نے ایسے منصوبے تشکیل دیئے جو ترقی یافتہ ممالک کے لئے بھی ترغیب کا باعث تھے۔ کلیدی مقصد یہ تھا کہ پاکستان جیسی ترقی پذیر مملکت میں اعلیٰ تعلیم کی بنیادیں اس قدر مضبوط اور مستحکم کی جائیں کہ ثانوی تعلیم اس کے وسیلے سے ہمہ گیریت کی حامل ہو سکے۔ ڈاکٹر عطا الرحمن نے کمیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے یہ بیڑا اٹھایا کہ اعلیٰ تعلیم کے لئے مختص بجٹ کو مقرر کردہ اہداف کے لئے بہرصورت حاصل کیا جائے اور اسے اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لئے مختلف النوع منصوبوں کے حوالے سے پوری شفافیت کے ساتھ استعمال کیا جائے۔ حکومتی ذرائع سے حاصل شدہ یہ رقوم بین الاقوامی وظائف، ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ، فارن فیکلٹی ہائرنگ، ڈیجیٹل لائبریری، یونیورسٹی فیکلٹی ٹریننگ، اعلیٰ تعلیمی اداروں کی انفراسٹرکچر ویلپمنٹ، فیکلٹی ٹریننگ، نصابی نظرثانی اور لاتعداد تکنیکی منصوبوں وغیرہ کے لئے مختص کر دی گئیں اور دنیا بھر نے دیکھا کہ بہت کم مدت میں پاکستان بھر میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کی صورت ہی بدل گئی ا ور یہ ادارے بین الاقوامی سطح پر بھی اپنا آپ منوانے لگے۔ صرف یہی نہیں بلکہ کمیشن نے اس بات پر بھی زور دیا کہ یونیورسٹی اساتذہ کی عزت اور وقار میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا جائے انہیں اس قدر مراعات دی جائیں کہ وہ معاشرے میں پورے وقار اور قدوقامت کے ساتھ کھڑے ہو سکیں۔ وہ روزمرہ ضروریات سے مطمئن ہو کر دلجمعی کے ساتھ تعلیم و تحقیق کی سرگرمیوں میں مشغول ہوں ان تمام اقدامات کی بدولت چشم روشن نے دیکھا کہ وطن عزیز میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ بھی ہوا اور ملک بھر میں تعلیمی و تحقیقی سرگرمیوں میں بھی بے پناہ بہتری آئی۔ یونیورسٹی میں طلبہ کی تعداد میں بھی قابل ذکر اضافہ ہوا اور اساتذہ کے تحقیقی منصوبوں کو بین الاقوامی پذیرائی بھی حاصل ہوئی۔ اب دنیا بھر کی پانچ سو بہترین یونیورسٹیوں میں ہماری کئی ایک یونیورسٹیاں جگہ بنانے میں کامیاب ہو چکی ہیں۔ اگرچہ نامساعد حالات کی بناء پر کمیشن کا بجٹ کم کیا جا چکا ہے لیکن ہماری یونیورسٹیاں اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے پیش رفت کے اس عمل کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں۔ طے تو یہ پا یا تھا کہ ہر سال اعلیٰ تعلیم کا بجٹ بتدریج دگنا کیا جاتا رہے گا مگر ذیلی ضروریات کے تحت یہ عمل رک گیا اور بجٹ کو بے حد کم کرنا پڑا لیکن ترقی کا یہ سفر رکا نہیں بلکہ اس میں یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے جذبہ عمل کے سبب مزید سرعت ہی آتی گئی۔
اب جبکہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے سبب تعلیم کا شعبہ صوبوں کو تفویض کیا جا چکا ہے اس لئے اب ہائر ایجوکیشن کمیشن بھی نامساعد حالات کا شکار ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب صوبوں کی سطح پر ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم کئے جائیں جو ہر صوبے میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کے نظم و نسق کے ذمہ دار ہوں اور اعلیٰ تعلیمی ترقی کے اس عمل کو جاری و ساری رکھیں اس نوع کے کمیشن اس لئے بھی لازم ہیں کہ صوبائی سطح پر اعلیٰ تعلیمی اداروں کو اپنی صلاحیتوں اور مہارتوں کو اجاگر کرنے کے لئے ایک باوقار پلیٹ فارم میسر ہو۔ یہاں یہ تذکرہ بھی لازم ہے کہ ایسے کمیشن بیورو کریسی کی دست برد سے ذرا دور ہی رہیں۔ انتظامی اور قانونی تقاضوں کے سبب ان میں ضروری حد تک حکومتی اداروں کا عمل دخل ہو تو ہو مگر انہیں سراسر بیورو کریسی کی ذمہ داری قرار نہیں دینا چاہئے جبکہ میرا تاثر یہ ہے کہ بیورو کریسی کے چند افراد اپنے اختیارات میں کمی کی بجائے وائس چانسلرز کے ہاتھ پاؤں باندھنا چاہتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ صوبائی کمیشن اعلیٰ ترین ماہرین تعلیم پر مشتمل ہونا چاہئے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے وائس چانسلرز اس کا لازمی جزو ہونے چاہیں اور ان کے نصاب کار کا چارٹر صد فیصد وہی ہونا چاہئے جو کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کا ہے۔ وہاں وزیراعظم کمیشن کی کنٹرولنگ اتھارٹی ہیں تو یہاں وزیر اعلیٰ ان کی کنٹرولنگ اتھارٹی ہوں لیکن براہ راست عمل دخل ماہرین تعلیم کا ہی ہو۔ یہ بھی تجویز کیا جا سکتا ہے کہ مجوزہ کمیشن میں وائس چانسلرز کمیٹی بھی تشکیل دی جائے جو وقتاً فوقتاً کمیشن کو اپنی تجاویز اور سفارشات سے آگاہ کرتی رہے اور کمیشن ان کی آراء کو اپنی پالیسی کا حصہ بنانے کا پابند ہو۔ یہ صوبائی کمیشن جلد از جلد قائم کرنا لازم ہیں تاکہ اعلیٰ تعلیم کی تعمیر و ترقی کا یہ عمل جو دس سال پہلے شروع ہوا تھا، جاری رہے اور ہمارے اعلیٰ تعلیمی ادارے سکون کے ساتھ اپنی تحقیقی اور تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھیں اور دنیا بھر کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے مقابلے میں فخر کے ساتھ اپنے سر بلند کر سکیں۔ واضح رہے کہ دستور میں 18 ویں ترمیم کے بعض صوبوں مثلاً پنجاب میں ایچ ای ڈی کو اعلیٰ تعلیم کا کام سونپا گیا ہے جہاں اس وقت یونیورسٹیاں، متعلقہ سیکشن آفیسر کے ذریعے چلائی جا رہی ہیں۔ سیکرٹری ایجوکیشن سے وائس چانسلر حضرات بھی فون پر رابطہ نہیں کر سکتے۔ مختلف یونیورسٹیوں کے بے شمار معاملات التواء کا شکار ہیں۔ صرف ایک مثال ہی موجودہ ایچ ای ڈی کی کارکردگی کو سمجھنے کے لئے کافی ہو گی کہ پنجاب کی تقریباً سبھی یونیورسٹیوں میں ڈین حضرات کی تعیناتی کا کام گزشتہ آٹھ نو ماہ سے معرض التواء میں ہے۔ جناب چیف منسٹر پنجاب اس بات کا نوٹس ضرور لیں کہ سیکرٹری ہائر ایجوکیشن کے ہاتھوں پنجاب بھر کے کالجز جس حال کو پہنچ چکے ہیں کیا وہ پنجاب بھر کی جامعات کو بھی اسی حال سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔
وطن عزیز میں سرکاری جامعات ابھی تک پڑھے لکھے لوگوں کی ایک بڑی کھیپ مہیا کر رہی ہیں، ان کی خود مختار حیثیت مخدوش ہونے کے بعد یہ بھی عام سرکاری کالجز کی طرح بے توقیر ہو جائیں گی۔ اور اب آخر میں پبلک سروس کمیشن کے ذریعے پنجاب میں تعینات ہونے والی لکچررز کی بپتا ہی سنیں، جنہیں محکمہ تعلیم کی بدانتظامی سے شدید شکوہ ہے، صوبے کے چیف سیکرٹری جناب ناصر کھوسہ سے درخواست ہے کہ وہ فوری طور پر اس کا نوٹس لیں کہ ان کی اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں اور ان کی نیک نامی کے سبب اپنی حق تلفی کی تلافی کے لئے سبھی ان کی طرف دیکھتے ہیں۔ ان لیکچررز خواتین کا خط ملاحظہ فرمائیں۔ السلام علیکم!
جناب عطاء الحق قاسمی صاحب ہم آپ کی توجہ ایک اہم مسئلے کی طرف دلانا چاہتے ہیں کہ کس طرح ہمارے ہاں تعلیم یافتہ نوجوانوں کا استحصال کیا جاتا ہے۔ اول تو نوکری ملتی نہیں ہے اگر ملتی ہے تو ہمارے اعلیٰ طبقات کس طرح حقدار لوگوں کا استحصال کرتے ہیں۔ قاسمی صاحب ہم لوگ درس و تدریس کے پیشے سے منسلک ہیں اردو، انگلش، سرائیکی، اسلامیات اور سیاسیات کے لیکچررز کے طور پر کالجز میں پڑھا رہے ہیں۔ جناب ہمارے ان مضامین کے رزلٹ اور فائنل آفر (Offer) لیٹرز اپریل اور مئی تک ارسال کر دیئے گئے تھے۔ ہمارے آفر لیٹرز میں یہ درج تھا کہ ایک مہینے کے بعد ہماری جوائنگ ہو جائے گی اور ہمیں آرڈرز مل جائیں گے اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے اپنی سابقہ پرائیویٹ نوکریوں سے ایک ماہ قبل از وقت نوٹس دیتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔ مگر ہم لوگوں کو جوائننگ آرڈرز اگست کی آخری تاریخوں میں دیئے گئے۔ اس طرح سے ہم لوگ تقریباً چار ماہ تک اپنے گھروں میں بے روزگار اپنے آرڈرز کا انتظار کرتے رہے اور اپنی پرانی نوکریوں سے بھی استعفیٰ دے چکے تھے۔ اس طرح سے ہم نے اگست کے آخری ہفتوں میں جوائن کیا جبکہ کچھ مضامین جیسے کیمسٹری، فارسی، عربی وغیرہ کے ا ساتذہ کو موسم گرما کی تعطیلات سے پہلے جوائن کرا دیا گیا اور کچھ کو دوران تعطیلات آرڈرز موصول ہو گئے تھے اس طرح سے ہم سب لوگ جنہوں نے سروس کمیشن کے تحت ایک ہی دفعہ میں امتحان پاس کیا ان میں سے کچھ کو ہم سے سینئر بنا دیا گیا یعنی ان کو Increment بھی لگے گا جبکہ ہمیں ان سے ایک Increment پیچھے کر دیا گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یا تو سب کو ہی موسم گرما کی تعطیلات کے بعد جوائن کرایا جاتا یا تمام مضامین کے اساتذہ کو موسم گرما کی تعطیلات سے پہلے جوائن کرایا جاتا کیونکہ ٹیسٹ اور انٹرویوز تمام مضامین کے یکے بعد دیگرے کئے گئے۔ صرف کچھ ہی دنوں کے وقفے سے تمام مضامین کے لوگوں نے ٹیسٹ اور انٹرویو دیئے تھے جب ٹیسٹ اور انٹرویو ایک ساتھ لئے گئے تو جوائننگ میں اتنا فرق کیوں رکھا گیا کہ ہم ایک انکریمنٹ اور سنیارٹی سے محروم ہو گئے؟ بلکہ اپنی سابقہ نوکریوں سے ملنے والی تنخواہوں سے بھی محروم ہو گئے۔
محترم قاسمی صاحب آپ اپنے قلم کی طاقت سے پنجاب حکومت کی توجہ اس زیادتی کی طرف مبذول کرائیں اس زیادتی کا نوٹس لیں ورنہ ہمارے افسران اسی طرح ہم لوگوں کے ساتھ زیادتی کرتے رہیں گے اور ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ آج ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے کل کسی اور کے ساتھ یہی ناروا سلوک ہو گا جناب ہمارے اس مسئلے کو اپنے قلم کی طاقت سے چیف منسٹر صاحب کے علم میں ضرور لائیں ہم آپ کے مشکور ہوں گے۔
(لیکچررز اردو، انگلش، اسلامیات، سیاسیات)
تازہ ترین