• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند سال پہلے کی بات ہے لاہور میںقیام کے درمیان ایک ادارے کی جانب سے شرمین عبید چنائے کی فلم سیونگ فیس کی ا سکریننگ کی دعوت دی گئی۔ اس فلم نے اس وقت تازہ تازہ آسکر جیتا تھا۔ ہر طرف اس فلم کے بارے میں بات ہو رہی تھی۔ زیادہ تر لوگوں کا رویہ اس بین الاقوامی کامیابی کی طرف منفی تھا۔عمومی خیال یہی تھا کہ شرمین نے وطن کی عزت کو بٹہ لگا دیا ہے۔ پاکستان کے دکھ بیچ کر شہرت حاصل کی ہے ۔ ایک جید نقاد نے حسب روایت یہ کہہ کر قلم توڑ دیا کہ یہ فلم پاکستان کے خلاف امریکہ کی سازش ہے۔ مغرب پاکستان کی ترقی سے جلتا ہے۔ طاغوتی سازشیں اب فلم بنا کر ہمارے سر پر تھوپی جا رہی ہیں۔ سیونگ فیس کے ذریعے ایک بین ا لاقوامی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان کی ایک فلم کو آسکر ایوارڈ مل جائے۔ نہ تو ہمارے پاس پروڈکشن کی سہو لتیں ہیں نہ ہی اس طرح کی بین الاقوامی فلموں پر محنت کرنے والے تکنیک کار میسر ہیں۔ نہ کیمرے ہیں نہ ایڈیٹنگ کی سہولتیںمیسر ہیں۔نہ شرمین عبید کا نام پہلے کسی نے سنا ہے نہ ہی کسی نے اس ملک میں آسکر جیتنے کا خواب دیکھا ہے۔ نہ سرمایہ دستیاب ہے جو ہالی وڈ کی ملین ڈالرز بجٹ والی فلموں کا مقابلہ کر سکے نہ موضوعات میسر ہیں جو کوئی تنوع پیدا کر سکیں۔ ہماری فلمیں تو گجروں کی من مانیوں تک محدود ہیں۔ بے ہودہ کہانیوں ، احمقانہ ایکشن، ذو معنی مکالمے اور ہیجان انگیز رقص کو ہمارے ہاں ایک مدت سے فلم کہا جارہا ہے۔اس ماحول میں کیسے ممکن ہے کہ پاکستان کی ایک غیر معروف لڑکی کو نہ صرف آسکر کے لئے نامزد کیا جائے بلکہ وہ آسکر جیت بھی لے۔ یہ ایک بین الا قوامی سازش ہے، پاکستان کی تضحیک ہے، ہمارے دکھوں کی سستے داموں فروخت ہے۔
اسکریننگ کا آغاز ہوا تو ماحول فلم کے شروع ہونے سے پہلے منفی خیالات سے بھرا ہو ا تھا۔ ہر جید ناقد سنبھل کر بیٹھ گیا کہ اب اس فلم میں سے گن گن کر کیڑے نکالنے کا آغاز کیا جائے۔ سیونگ فیس کے ابتدائی چند مناظر گزرنے کے بعد دیکھنے والےکچھ چپ سے ہو گئے۔ موضوع اس قدر تکلیف دہ تھا کہ مذاق اور ٹھٹھے کی گنجائش ہی نہیں رہی۔ فلم کے مناظر آگے بڑھتے رہے اور ہال میں سناٹا بڑھتا گیا۔پھر وہ وقت بھی آیا کہ جب تیزاب سے جلی عورتوں پر ہونے والے ظلم مزید واضح ہوئے۔ دیکھنے والے ناقدین کی چیخیں نکل گئیں۔ ہال سسکیوں اور غم سے بھر گیا ۔ طاغوتی قوتوں کی سازش کے بیان دینے والوں کو چپ سی لگ گئی۔ ایک ایک منظر اس قدر تکلیف دہ تھاکہ دیکھنا دشوار ہو رہا تھا۔ فلم کی پروڈکشن نہ حیران کن تھی نہ ہی کوئی کمال کے ایکٹر اس میں موجود تھے، نہ کیمرہ ورک بہت شاندار تھا نہ ہی ایڈیٹنگ بین الاقوامی معیار کی تھی۔نہ ہی پس پردہ آواز نے کوئی جادو جگایا نہ ہی پائیں باغ میں کسی نے کوئی محبت کا گیت گایا۔سیونگ فیس کا اصل کمال اسکی سچی، سیدھی سادی کہانی تھی۔ یہ کہانی اس قدر مکمل ، حقیقی اور تکلیف دہ تھی کہ دنیا کو ششدر کرنے کے لئے کافی تھی۔انتقام کی آگ میں تیزاب سے جلی عورتیں اپنی باقی ماندہ زندگی کس طرح گزارتی ہیں اس کے بارے میں دنیا نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا۔ کس طرح ایک فرشتہ صفت پلاسٹک سرجن ڈاکٹر اپنی پوری صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ان مسخ شدہ چہروں کو کچھ شکل دینے کی کوشش کرتا ہے۔ کئی تکلیف دہ آپریشنز کے باوجود بھی وہ چہرے اس قدر اذیت ناک ہوتے ہیں کہ ان پر نظر پڑتے ہی روح کانپ جاتی ہے۔ خوف سے بدن میں لہو جمنے لگتا ہے۔ سفاک سے سفاک دلوں والے ناقدین کی آنکھوں سے اشک رواں ہو جاتے ہیں۔ امریکی سازشوں والے خیالات دم توڑ جاتے ہیں۔ فلم کی اسکریننگ ختم ہوئی تو سب چپ تھے۔ زبانوں کو تالے لگ گئے تھے۔ تنقید کے لفظ کہیں گم ہو گئے تھے۔
اس ساری داستان کے بیان سے یہ کہنا قطعی مقصود نہیں ہے کہ دنیا میں پروپیگنڈا فلمیں نہیں بنتیں۔ فلم میڈیا کا ایک بہت بڑا ہتھیار ہے اور مغرب کو اس ہتھیار کو استعمال کرنا بہت خوبی سے آتا ہے۔ اس کی اہمیت کو ہالی وڈ سے بہتر کون جانتا ہے۔ ایسی مثالوں سے فلمی تاریخ بھری پڑی ہے۔بہت تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں سن دو ہزار دس کے آسکر آیوارڈیاد کیجئے۔ ایوٹار جیسی لاجواب فلم کے مقابلے میں جب ہرٹ لاکر جیسی فلم آسکر جیتتی ہے تو شکایت بہرحال فلم بینوں کا حق بنتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ فلموں کو استعمال کیا جاتا ہے ۔ لیکن ہر فلم ایسی نہیں ہوتی، ہر ایوارڈپروپیگنڈا نہیں ہوتا۔ ہر چیز سازش نہیں ہوتی۔ دنیا اپنے دکھوں پر بھی فلمیں بناتی ہے۔ اپنے غم میں بھی فلم کے ذریعے ناظرین کو شریک کرتی ہے۔امریکہ میں رنگ و نسل کی بناء پر جو سیاہ فام لوگوں کے ساتھ صدیوں سلوک ہوا اس پر درجنوں فلمیں بنی ہیں۔ سفید فام باشندوں کے مظالم کی سینکڑوں کہانیوں پر فلمیں بنی ہیں۔ وہاں تو کسی نے نہیں کہا کہ ہمارے نام کو بٹہ لگ رہا ہے۔ ہماری عزت کو بیچا جا رہا ہے۔ ہمارے غموں کا سودا کیا جا رہا ہے۔
شرمین عبید کی تازہ ترین فلم کے بارے میں بھی لوگ حسب روایت مشکوک ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل کی قبیح رسم ہمارے ہاں پرانی ہے۔یہ وہ معاملہ ہے جس میں نہ پولیس ہاتھ ڈالتی ہے نہ عدلیہ کی طرف سے واضح فیصلہ آتا ہے۔ قوانین سب موجود ہیں مگر اس پر عمل پیرا ہونے کی جرات کسی میں نہیں ہوتی۔پسند کی شادی کے معاملے پر عورت کو ختم کر کے ہی ہماری مصنوعی عزت ، غیرت کچھ بحال ہوتی ہے۔ پسند کی شادی اس معاشرے میںاتنا بڑا جرم ہو گئی ہے کہ لڑکی کو قتل کرنا ہی خاندانوں کی نام نہاد عزت کو بچا تا ہے۔ ہم ہر روز اس طرح کے ظلم کی داستان سنتے ہیں اس لئے ہماری سوچ مفلوج اور حسیات مفقود ہو چکی ہیں۔ لیکن دنیا میں اس بات کا تصور بھی ممکن نہیںہے۔ یہ کہانی ان کے لئے نئی ہے۔ ظلم کی یہ روایت انکے تصور سے کہیں باہر ہے۔ شرمین عبید نے جو اب اس موضوع پر کیمرہ اٹھایا ہے تو وہ شاباش کی مستحق ہیں۔ سیدھا، سچا اور کھرا سچ ہم سب کو برا لگتا ہے۔ لیکن بہت بہادر لوگ ہوتے ہیں جن میں اس سچ کو کہہ دینے کی جرات ہوتی ہے۔ اٹھائیس فروری کو ہونے وا لی آسکر ایوارڈ کی تقریب میں شرمین کو ان کی فلم ’’گرل ان دی ریور‘‘ کو ایوارڈ سے نوازا گیا جو بہت کمال کی بات ہے اور پاکستان کے لئے بہت بڑا اعزاز ہے۔ یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ شرمین نے آسکر ایوارڈ چار سال میں دو دفعہ حاصل کیا ہے ۔شرمین ہم سب کو ہمارے چہروں پر سچ بولنے کے اعتراف میں مبارک باد اور نیک تمنائوں کی مستحق ہیں۔ شاباش ۔ شرمین۔
تازہ ترین