• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدر پاکستان کے ساتھ ان کے خصوصی طیارے میں کوریا جانے کیلئے میں چکلالہ ایئرپورٹ پہنچا تو لاؤنج میں میری ملاقات میرے دوست اور وفاقی وزیر پانی و بجلی چوہدری احمد مختار، وفاقی وزیر تجارت مخدوم امین فہیم اور چوہدری شجاعت حسین سے ہوئی اور اس موقع پر مجھے 16 سال پہلے اسی چکلالہ ایئرپورٹ پر اس وقت کے وزیر سرمایہ کاری آصف علی زرداری کے ساتھ پاکستان کے ممتاز صنعت کاروں اور بزنس مینوں کے ساتھ دورہ کوریا یاد آگیا جس میں ہمارے گروپ نے کوریا کے سب سے بڑے گروپ ہنڈائی کارپوریشن کے ساتھ پاکستان میں کارگو کنٹینرز بنانے کے30 ملین ڈالر کے ایک مشترکہ منصوبے پر دستخط کئے تھے لیکن بعد میں ہنڈائی کارپوریشن کنٹینرز بنانے کے کاروبار سے نکل گئی جس کی وجہ سے ہمارا کراچی ایکسپورٹ پروسیسنگ زون میں لگایا جانے والا یہ منصوبہ پایہٴ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ صدر پاکستان کے حالیہ دورے میں ان کے ساتھ جانے والے مختصر وفد میں میرے علاوہ وفاقی وزیر تجارت، پانی و بجلی، وزیر مملکت خارجہ، وفاقی سیکریٹریز صنعت، ریلوے، سرمایہ کاری، ملک کے ممتاز صنعت کار اور بزنس مین شامل تھے۔
ساؤتھ کوریا اس وقت دنیا کی بارہویں بڑی معیشت ہے جس کی مجموعی جی ڈی پی 1.5 ٹریلین ڈالر اور گزشتہ سال جی ڈی پی گروتھ 3.9% تھی۔ معیشت کے اہم شعبوں میں 39% صنعت اور 58% سروس سیکٹر ہیں۔ اہم صنعتوں میں الیکٹرونکس، ٹیلی کمیونی کیشن، آٹو موبائل، کیمیکلز اور شپ بلڈنگ ہیں۔ ساؤتھ کوریا کے اہم ٹریڈنگ پارٹنرز چائنا، جاپان اور امریکہ ہیں۔ 99 ہزار اسکوائر میٹر رقبے پر مشتمل ملک ساؤتھ کوریا کی آبادی تقریباً 49 ملین اور فی کس آمدنی 31,220 ڈالر ہے۔ پاکستان اور ساؤتھ کوریا کے درمیان سفارتی تعلقات 1980ء سے قائم ہیں۔ پاکستان سے کوریا ٹیکسٹائل، خام چمڑا اور مشروبات جبکہ کوریا سے آئرن اینڈ اسٹیل، ٹیلی کام، آٹو موبائل، بحری جہاز، پولیسٹر یارن، الیکٹرونکس آلات اور مشینیں امپورٹ کی جاتی ہیں۔کوریا کی مجموعی ایکسپورٹ 556.5 بلین ڈالر اور امپورٹ 524 بلین ڈالر ہے۔ کوریا میں 10 ہزار سے زائد پاکستانی روزگار سے وابستہ ہیں جس میں تقریباً ایک ہزار طالبعلم اسکالر شپ پر اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
گزشتہ دورہ کوریا میں طیارے میں میرے ساتھ والی نشست پر پاکستان میں کوریا کے سفیر بیٹھے تھے۔ گفتگو کے دوران میں نے انہیں بتایا کہ کوریا نے نہایت کم وقت میں حیرت انگیز ترقی کی ہے اور ہم کورین بزنس مینوں سے ملاقات کے علاوہ آپ کی ترقی کے اس کامیاب ماڈل کی اسٹیڈی بھی کرنے جارہے ہیں۔ کوریا کے سفیر نے مسکراتے ہوئے میرے قریب آکر گرمجوشی سے میرا ہاتھ دباتے ہوئے کہا کہ ہم نے آپ کے ملک کے معیشت دان ڈاکٹر محبوب الحق کے 5 سالہ ترقیاتی پلان پر عمل کرکے یہ ترقی حاصل کی ہے جس سے آپ نے فائدہ نہیں اٹھایا۔ طیارے میں ظہرانے کے بعد صدر پاکستان نے وفد میں شامل تمام بزنس مینوں سے فرداً فرداً ملاقات کی اور ان کے مسائل حل کرنے کیلئے احکامات دیئے۔ صدر پاکستان سے میری زیادہ تر گفتگو آنے والے عام انتخابات اور میرے کراچی کے حلقہ NA-250کے بارے میں تھی۔ صدر کا خصوصی طیارہ ہمالیہ کی برف پوش پہاڑیوں سے ہوتا ہوا مختصر ترین راستے سے 7 گھنٹے میں سیول کے ایئر بیس پر پہنچا۔ سیول میں سخت سردی اور بارش ہورہی تھی اور ہمارا قافلہ خصوصی پروٹوکول میں کوریا کے سب سے بڑے ہوٹل Lotte پہنچا۔ یہ وہی ہوٹل ہے جہاں 16 سال قبل ہم اس وقت کے وزیر سرمایہ کاری آصف زرداری کے ساتھ ٹھہرے تھے۔ رات کو چوہدری شجاعت حسین جو لاہور میں کوریا کے اعزازی قونصل جنرل بھی ہیں نے اپنے ریسٹورنٹ ”مغل“ میں وفد میں شریک بزنس مینوں کو ڈنر پر مدعو کیا تھا حالانکہ چوہدری شجاعت حسین سے میری پرانی ملاقات ہے اور میں لندن میں ان کے گھر پر بھی ملاقات کرچکا ہوں لیکن اس دورے میں ان کے اخلاق اور مہمان نوازی سے میں متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔
دوسرے دن صبح کوریا کے اخبارات نے صدر پاکستان کے دورہ کوریا پر خصوصی سپلیمنٹ شائع کئے تھے۔ ہمارے وفد کی ملاقات کوریا کے صدر لی میونگ سے ایوان صدر ”بلیو ہاؤس“ میں ہوئی۔ دونوں ممالک کے ممتاز بزنس مینوں اور اعلیٰ سرکاری حکام سے ملاقات کے بعد کوریا کے صدر کی جانب سے نہایت پرتپاک ظہرانے کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں دونوں صدور نے اپنی تقریر میں پاکستان اور کوریا کے مابین تجارت اور سرمایہ کاری بڑھانے اور دونوں ممالک کے درمیان موجودہ 1.5/ارب ڈالر کی ٹریڈ کو آئندہ 3 سالوں میں بڑھاکر 2 بلین ڈالر تک لے جانے کا ہدف رکھا۔ صدر پاکستان نے اپنی تقریر میں کہا کہ پاکستان کو درپیش دہشت گردی دنیا کیلئے ایک خطرہ بن سکتی ہے جسے پاکستان میں معاشی ترقی کے ذریعے روکا جاسکتا ہے۔ اس موقع پر کوریا نے پاکستان ریلوے کیلئے استعمال شدہ 100/انجن دینے اور پاکستان اور کوریا کے مرکزی بینکوں نے یادداشتوں پر بھی دستخط کئے جس کیلئے اسٹیٹ بینک کے گورنر یاسین انور خصوصی طور پر واشنگٹن سے سیول پہنچے تھے۔ ظہرانے کے بعد وزیر تجارت مخدوم امین فہیم کے ساتھ ہمارے بزنس مینوں کی کوریا کے بزنس مینوں کے ساتھ B2B میٹنگز ہوئیں جس کا اہتمام کورین امپورٹرز ایسوسی ایشن (KOIMA) نے کیا تھا۔
رات میں کوریا کی فیڈریشن آف انڈسٹریز اور دیگر تین بڑی ایسوسی ایشنز نے صدر آصف علی زرداری اور وفد کے ارکان کے اعزاز میں عشائیہ دیا تھا جس میں دونوں ممالک کے سفیر، کوریا کے اعلیٰ سرکاری عہدیداران اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سربراہان نے شرکت کی۔ اس موقع پر صدر پاکستان نے کراچی میں کورین سرمایہ کاروں کو اسپیشل اکنامک زون میں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔ عشایئے میں بورڈ آف انویسٹمنٹ کے سیکریٹری انجم بشیر نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے موقعوں پر ایک پریذنٹیشن بھی دی۔ دورے کے آخری دن صبح میری ملاقات کوریا کی ٹیکسٹائل سیکٹر کے اعلیٰ عہدیداروں سے ہوئی۔ اس دوران میں نے صدر پاکستان کے ساتھ ایگزم بینک کوریا کے صدر کے ساتھ ایک اہم میٹنگ میں بھی شرکت کی جس میں ایگزم بینک کے صدر نے پاکستان میں سرمایہ کاری کی ایک یادداشت پر دستخط کئے۔
اس میٹنگ میں صدر پاکستان نے ایگزم بینک کو پاکستان میں ٹیکسٹائل کی صنعتوں کے فروغ اور پاکستان میں انفرااسٹرکچر کی ترقی کے منصوبوں میں BOT کی بنیاد پر سرمایہ کاری کرنے کی تجویز دی۔ کوریا کے ایگزم بینک نے پاکستان کو نرم شرائط پر 200 ملین ڈالر کے قرضے 20 ملین ڈالر گرانٹ کے ساتھ دیئے جس میں سے 78 ملین ڈالر پاکستان میں مالاکنڈ سرنگ کی تعمیر پر خرچ کئے جائیں گے۔ اس کے علاوہ صدر پاکستان سے سام سنگ، Lotte، ہنڈائی اور K-Water کارپوریشن کے سربراہان نے ملاقاتیں کیں اور پاکستان میں بجلی کی پیداوار کیلئے ہائیڈرو پروجیکٹس، انفرااسٹرکچر اور LNG ٹرمینل کے منصوبوں میں سرمایہ کاری میں دلچسپی کا اظہار کیا۔ میں نے پاکستانی سفیر اور وزیر تجارت کو بتایا کہ CIPA کے تحت انڈیا اور ویتنام سے کوریا میں فیبرک امپورٹ پر کوئی کسٹم ڈیوٹی نہیں لیکن پاکستان سے امپورٹ پر 10% ڈیوٹی ہے، باہمی تجارت میں فروغ کیلئے ہمیں پاکستان کو یکساں مراعات دینا ہوں گی۔ دورے کے تیسرے دن وطن واپسی پر سیول میں سخت برف باری ہورہی تھی جس کے باعث صدر کا خصوصی طیارہ برف سے ڈھک چکا تھا، برف کو خصوصی کیمیکلز اور مشینوں کے ذریعے اتارنے میں تقریباً 4 گھنٹے لگے اور ہم 7 گھنٹے کی مسافت کے بعد رات گئے چکلالہ ایئر پورٹ پہنچے جہاں سے مجھ سمیت وفد میں شریک 5 بزنس مینوں کو صدر کے خصوصی طیارے نے علی الصبح کراچی پہنچایا۔ دوران سفر پانی و بجلی کے وزیر چوہدری احمد مختار نے صنعت کاروں کا اعتماد بحال کرنے کیلئے پاکستان میں بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی کیلئے کئے گئے اقدامات کے بارے میں انہیں آگاہ کیا لیکن صدر زرداری کی پاکستان میں بیرونی سر مایہ کاری لانے کی کوششوں کے ثمرات اسی وقت حاصل ہوسکتے ہیں جب ملک میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری اور ملک میں توانائی کے بحران پر جلد از جلد قابو پایا جائے۔
تازہ ترین