• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

People blind to past enter the future blindly

غور کیجئے ۔ لوگ جو اپنے ماضی کیلئے آنکھیں بند رکھتے ہیں۔ وہ مستقبل میں بھی بند آنکھوں کے ساتھ داخل ہوتے ہیں۔ کسی مغربی اسکالر کا یہ جملہ کوئٹہ سے ممتاز مصنّف ایوب بلوچ نے وٹس ایپ کیا ہے۔ میں اسے ہر محفل میں دہرارہا ہوں۔ ہم اکیسویں صدی میں بند آنکھوں کیساتھ ہی داخل ہوئے ہیں۔ سندھ پبلک لائبریری کراچی میں پروفیسر اعجاز قریشی کی بہت ہی اہم تصنیف ’’ون یونٹ اور سندھ‘‘ کی رونمائی ہوئی۔ وہاں بھی میں نے اپنے مضمون کا آغاز اسی قول زریں سے کیا۔ یہ کتاب ون یونٹ کے خلاف سندھ کے عوام دانشوروں اور بالخصوص طلبہ کی پُر جوش اور نتیجہ خیز جدو جہد کی دستاویز ہے۔سندھی میں لکھی گئی اس کتاب کے اُردو ترجمے کی رُونمائی تھی جو اسلم کھٹیان نے کیا ہے۔ اس جدوجہد کے نوجوان۔ اعجاز قریشی۔ امان اللہ شیخ۔ ڈاکٹر سلمان شیخ۔ اقبال ترین۔اب سفید بالوں کے ساتھ یہاں موجود تھے۔ بزرگی طاری ہورہی ہے۔ مگر جذبات اورعزائم اسی طرح جوان ہیں۔ اور سندھ کے مسائل بھی اسی طرح جوان ہیں۔ صوبائی خود مختاری اور سندھی حکمرانوں کے کئی برسوں کے باوجود سندھ اسی طرح محرومیوں اور نا انصافیوں کا شکار ہے۔

گزشتہ تحریر میں ہم نے شاندار اُردو کانفرنسوں اور شہر شہرہونے والے ادبی میلوں کے حوالے سے اپنا دُکھ بیان کیا تھا کہ بھرپور محنت۔ کثیر سرمائے کے باوجود یہ تقریبات ادبی تحریکوں کا سر آغاز کیوں نہیں بنتیں۔ ان کی بدولت ادبی رسائل کے مسائل کیوں حل نہیں ہوتے۔ کتابوں کی اشاعت میں اضافہ کیوں نہیں ہوتا۔ معاشرے میں ابتری تذبذب اور بے یقینی کیوں ہے۔ بعض احباب نے توجہ دلائی کہ صرف ادبی اجتماعات کو ہی پیش نظر نہ رکھیں۔ مذہبی کانفرنسیں بھی بہت ہورہی ہیں۔ اقتصادی سیمینار بھی۔ آج کل تربیت کے نام پر بے شُمار ورکشاپس ہوتی ہیں۔ ٹرینر حضرات و خواتین بہت پیسے کمارہے ہیں۔ ان کے بھی تو معاشرے پر کوئی اثرات مرتب ہوتے نظر نہیں آتے۔ یونیورسٹیاں ہر سال ہزاروں پوسٹ گریجویٹ عملی زندگی میں داخل کررہی ہیں۔ میڈیا پر ہر روز سینکڑوں ماہرین مباحث میں حصّہ لے رہے ہیں ۔ پھر بھی ہر روز ایسے ایسے واقعات رُونما ہوتے ہیں۔ جن سے لگتا ہی نہیں ہے کہ ہم اکیسویں صدی کی کسی مہذب سوسائٹی میں رہ رہے ہیں۔ اس ادباراور انتشار کے آخر کیا اسباب ہیں۔ پہلے ہمارے احباب کی آراء ملاحظہ کریں۔ اُردو کی ممتاز افسانہ نگار شمع خالد کا تبصرہ ہے۔ بعض ادیب شاعر یہاں صرف پبلک ریلیشنگ کیلئے آتے ہیں۔ بڑے لکھاریوں کے ساتھ نئے افسانہ نگار شاعر اپنی تصویریں بنواتے ہیں اور بس۔ ماہر تعمیرات شاعر افسانہ نگار غافر شہزاد کہتے ہیں سنجیدگی سے لکھا ہوا ایک اہم تجزیہ جو کئی سوال اٹھاتا ہے۔ اور کئی نکتے سمجھاتا ہے۔ ادب کی زوال پذیری کے کئی اسباب پر روشنی ڈالتا ہے۔ احسن بٹ کا پیغام ہے۔ بڑے اہم موضوع پر لکھا ہے۔ ایسے موضوعات پر مرکزی دھارے کے کالم نویس نہیں لکھتے۔ اور نہ ہی ٹی وی اینکر تجزیہ کار بات کرتے ہیں حالانکہ سماجی زندگی میں ایسے موضوعات بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔سید افتخار حیدر کا کہنا ہے ۔ بڑی درد ناک سچی تصویر ہے۔ ذرا گھوم کر دیکھیں تو گزارے ہوئے کئی علمی سال اسی طرح شو بز کی نذر ہوگئے ہیں۔ قائم نقوی صاحب کہہ رہے ہیں۔ بہت صحیح کہا آپ نے ان میلوں سے ادب کو کیا فائدہ پہنچ رہا ہے ادبی رسائل بک اسٹالوں پر نظر نہیں آتے اگر آتے ہیں تو ان کو خریدنے والا کوئی نہیں۔ جو کانفرنسوں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے ہیں وہ بھی نہیں پڑھتے۔ صرف نمائش ہے ۔ کینیڈا سے جناب ولی عالم شاہین کا تبصرہ مزید جہتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ آپکا کالم ایک درد بھرے دل کی پکار ہے ۔ کانفرنس اور جشن ادب کی تقریب نئی تحریک کے آغاز کا براہ راست سبب بنے یا نہ بنے۔ ذہن سازی میں اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن ان کے طریقہ کار اور ساخت پر مستقبل کو نگاہ میں رکھتے ہوئے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ امریکہ سے فیض رحمان کا بہت معروضی تبصرہ۔یہ سوال صرف ادبی تحریک اور تربیت سے متعلق ہی نہیں بلکہ اسے مزید آگے بڑھاکر یہ بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ سڑکوں پر مذاہب سے التفات اور لگائو کا اظہار۔ کیا معاشرے میں کوئی اصلاحی اور خوشگوار تبدیلی بھی لارہا ہے کہ نہیں۔ بریگیڈیئر(ر) صولت رضا اپنا اظہار یوں کررہے ہیں۔ میرے خیال میں درسگاہیں اور دانش گاہیں صاحب قلم اساتذہ سے خالی ہوگئی ہیں۔ اسکول کالج میں بزم ادب اور یونیورسٹی میں ہفتہ ادب اب مفقود ہوتے جارہے ہیں۔ اردو اور سندھی کے محترم شاعر امداد حسینی نے بھی کرم کیا۔اور کہا ہے کہ آپ نے جس سنہری دَور کو یاد کیا ہے اور اس حوالے سے جن ہستیوں کے نام لئے ہیں اور اس کے بعد عصرِ حاضر کی قحط الرجال کی بات کی ہے وہ سب سچ ہے۔ اب کیوں ہوا۔ آدھا ملک ہم نے کیوں کھویا۔ ایسے سوالات ہیں جن کے جواب ہمیں معلوم ہیں۔ لیکن کہہ نہیں پاتے۔ سب سے بڑا مسئلہ تعلیمی نظام ہے۔ جسکو سیاستدانوں نے تباہ کرکے چھوڑا ہے۔ نصاب کا ستیا ناس کردیا گیا ہے۔ ضیا کے دَور میں ایک نوٹیفکیشن آیا کہ درسی کتب میں سے ’سرخ‘ رنگ نکال دو۔ کسی نے اس سے یہ نہیں پوچھا کہ آپ کے خون کا رنگ کیا ہے۔ ہر دَور حکومت میں حکمرانوں نے اپنے نام نہاد کارنامے درسی کتب میں ٹھونسے ۔ ہمارے نوجوان بڑے ذہین ہیں وہ شعر و ادب کے بارے میں بڑے چبھتے سوالات کرتے ہیں۔شعرا کی حالت یہ ہے کہ اگر ان سے کہا جائے کہ آپ نے شاہ لطیف کو پڑھا ہے تو جواب آتا ہے ’نہیں‘۔ اگر ان سے پوچھیں کہ کیوں نہیں پڑھا تو جواب ملتا ہے کہ ’وہ مشکل ہیں‘۔

میں جذبات سے مغلوب ہوں کہ میرے دلی تاثرات ان صاحبان علم و دانش سے مختلف نہیں تھے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں سے ہی نہیں سمندر پار پاکستانیوں کو بھی تشویش ہے کہ ہمارا معاشرہ کس سمت جارہا ہے۔ کوششیں جو کی جاتی ہیں یہ نتیجہ خیز کیوں نہیں ہیں۔ کسی کی نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا۔ سب کے مقاصد یقینا نیک ہوں گے اور قومی مفاد میں ہوں گے۔ لیکن اس کوشش کا مثبت نتیجہ کیوں نہیں نکلتا۔ صرف ادبی کانفرنسیں ہی نہیں رائے ونڈ کے تبلیغی اجتماعات میں اب بیس لاکھ سے زیادہ لوگ آتے ہیں۔ دوسرے مسالک کے بھی بڑے اجتماعات ہوتے ہیں انہیں تو ہم نمائشی نہیں کہہ سکتے۔ آج کل تربیت ہی ایک نفع بخش پیشہ بن گیا ہے۔ بے شُمار ادارے نوجوانوں کی تربیت کیلئے میدان میں اُترے ہوئے ہیں۔ اس پر تفصیل سے بات کسی وقت کریں گے۔ میڈیا نیوز میں بھی ہے اور انٹرٹینمنٹ بھی۔ ہزاروں لاکھوں لوگ دیکھتے ہیں۔ قومی سیاسی جماعتوں کا دائرہ اثر بھی پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے۔ہر جگہ نعرے لگتے ہیں۔ ’تیرے جاں نثار۔ بے شُمار‘۔ ترقی یافتہ مہذّب ملکوں کی طرح ہمارے ہاں زندگی آسان کیوں نہیں ہورہی ہے۔ جھوٹ بولنا کیوں ضروری ہوگیا ہے۔ منافقت ہماری عادت کیوں بن گئی ہے۔ اب جب عدلیہ۔ اسٹیبلشمنٹ اور منتخب حکومت ایک ہی صفحے پر ہیں تو کیا ہماری سمت درست ہوجائیگی۔ نمائش اور تجارت سے ہٹ کر ہم واقعی قوم کو آگے کی طرف لے جائینگے۔ ماضی کیلئے بھی آنکھیں کھلی رہیں گی اور مستقبل میں بھی کھلی آنکھوں ، کھلے بازوئوں اور کھلے ذہن کیساتھ داخل ہوں گے۔

تازہ ترین