• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر ِاعظم عمران خان نے حال ہی میں کہا ہے کہ یوٹرن لینا عظیم رہنمائوں کی معیاری صفات میں شامل ہے ۔ تب سے اُن کے پارٹی رہنما نہایت مضحکہ خیز انداز میں وہ مثالیں تلاش کرتے کرتے بے حال ہوچکے ہیں جن میں کچھ دیگر رہنمائوں نے اپنے موقف میں تبدیلی کی، یا اپنے الفاظ سے پیچھے ہٹ گئے ۔

وزیر ِاعظم عمران خان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ عظیم رہنما تبدیل ہوتے ہوئے حالات کو دیکھ کر، موقع کی مناسبت سے اپنی حکمت ِ عملی میں تبدیلی لاتے ہیںااور اس میں کوئی حرج نہیں۔بلکہ ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہئے کہ بعض اوقات عظیم رہنما بھی نامعلوم یا ناموافق حالات کی وجہ سے اپنے وعدے پورے نہیں کرپاتے ۔

لیکن ٹھہریں۔ مسئلہ کچھ اور ہے ۔ ایسا نہیں کہ عظیم رہنما ، یا موجودہ وزیر ِاعظم پاکستان کو اپنے خیالات میں تبدیلی کی اجازت نہیں۔ ۔یقیناً ہر کوئی اپنا ذہن بدلنے میں آزاد ہوتا ہے ۔ تاہم جتنی برق رفتاری سے عمران خان اپنے طرز عمل ، حکمت ِعملی، پالیسی ، پلاننگ اور بیانات میں تبدیلی لارہے ہیں، وہ انتہائی تشویش ناک ہے مگرستم یہ ہے کہ اُنہیں اس پر کوئی تشویش یا ندامت نہیں ہے۔

موجودہ وزیر ِاعظم کے حامی، جو دیگر رہنمائوںکے حامیوں سے کہیں زیادہ جذباتی ہیں، کے نزدیک وہ غلطی کر ہی نہیں سکتے ۔ وزیر ِاعظم عمران خان کے بارے میں اُن کا بیانیہ اُن کے سیاسی مخالفین کے بیانیے سے بالکل مختلف ہے، جو سمجھتے ہیں کہ غیر مستقل مزاج شعلہ بیانی کسی طور ایک کامیاب حکومت نہیں چلا سکتی ۔

اُن کے حامی اُنہیں ایک پُرعزم رہنما سمجھتے ہیں۔ اُن کے نزدیک عمران خان ایک درست سوچ رکھنے والے ایماندار اورسنجیدہ رہنما ہیں، اور اُن کے پاس پاکستان کو عظمت کی بلندیوں تک پہنچانے کے لئے ایک حقیقت پسندانہ منصوبہ موجود ہے ۔ مخالفین کا موقف یہ ہے کہ عمران خان پرکشش شخصیت کے مالک ضرور ہیں، لیکن وہ حکمرانی کی واجبی سی فہم رکھتے ہیں ۔ وہ دوسروں کی جانچ پرکھ کے لئے ناممکن معیار طے کرتے ہیں، لیکن اپنے اور اپنے دوستوں کے لئے ہر راستہ کھلا رکھتے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان میں کچھ ذی شعور اور صاحب الرائے افراد بھی ہیں۔ اُن کے ووٹوں سے ہی عمران خان اقتدار کی منزل تک پہنچے اوروہ پی ٹی آئی سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرچکے تھے ۔ اب یہی لوگ پی ٹی آئی کی کارکردگی کا جائزہ لے رہے ہی۔اب جبکہ ہم پی ٹی آئی حکومت کے پہلے سو دن دیکھ چکے ، پی ٹی آئی کا حامی باشعور افراد پر مشتمل گروہ وزیر ِاعظم اور اُن کی حکومت کی اختیار کردہ سمت کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہورہا ہے ۔ ووٹرز دیکھ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی ملک کو کس سمت لے جارہی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ کئے گئے وعدوں کی دھجیاں بھی بکھرتے دیکھ رہے ہیں۔ میں یقیناًاُنہیں غلط ترجیحات کی علامت کے طور پر بیان کرنا پسند نہیں کرتا ، لیکن پی ٹی آئی کی ٹیم پر کوئی بحث بھی وزیر اعظم عمران خان کے سب سے اہم انتخاب کے بغیر ادھوری ہے اور یہ پنجاب کے وزیر ِاعلیٰ سردار عثمان بزدار کا انتخاب ہے ۔ وزیر ِاعلیٰ پنجاب کو ملک میں دوسری اہم ترین سیاسی شخصیت سمجھا جاتا ہے ۔ کیا وہ واقعی پنجاب کے لوگوں کی خواہشات اور توقعات پر پورا اترنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟

اگر چہ یہ بات درست ہے کہ پی پی پی اور مسلم لیگ کی حکومتوں میں اہم ترین پوزیشنز زیادہ تر قریبی عزیز و اقارب کے پاس ہوتی تھیں، اورجیسا کہ وزیر ِاعظم خان ہمیں بتایا کرتے تھے، مغربی جمہوریتوں میں ایسا بہت کم ہوتا ہے ۔ اس ضمن میںپی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کا طائرانہ جائزہ بہت سے دلچسپ حقائق منکشف کرتا ہے ۔ یقینا وزیر ِاعظم کے بچے ملک سے باہر ہیں، اور اُن کے دیگر اہل ِخانہ بھی اُن کےآس پاس دکھائی نہیں دیتے۔ لیکن اُن کی سیاسی حمایت کا مرکزی ستون اُن کے اہم دوست ہیں۔ اس دائرے میں داخل ہوتے ہی اقربا پروری کی مخالفت، اور اسے جمہوریت مخالف قرار دینے کے دعوے دم توڑ جاتے ہیں۔ جہانگیر ترین کے گریجویٹ بیٹے کوسمندر پار سرمایہ کاری(اوور سیز انویسٹمنٹ ) پر وزیراعظم کا خصوصی مشیر بنایا جارہا تھا، لیکن پھر میڈیا میں شور اٹھنے کے بعد اٹھتے قدم پیچھے ہٹ گئے۔ لیکن یہی ایک مثال نہیں۔ زلفی بخاری سے لے کر عون چوہدری تک وزیراعظم کے بہت سے دوست اہم عہدوں پر براجمان ہیں۔اُن کی واحد اہلیت وزیر ِاعظم سے دوستی ہے ، یہی میرٹ ہے ۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ اقربا پروری کے خلاف بیانات کہاں گئے؟ کیا اپنے ذاتی دوستوں کو اہم عہدوں پر تعینات کرنا اقرباپروری کے زمرے میں نہیں آتا؟ شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک اور دیگر اہم رہنمائوں کے رشتے دار بھی اسی گنگا کے کنارے دکھائی دیتے ہیں۔

پی ٹی آئی نے سب سے بڑی مہم بدعنوانی کے خلاف چلائی تھی۔ کہا گیا کہ وہ کسی طور بدعنوانی کو برداشت نہیں کرے گی۔ ہم سنتے رہے، اور ابھی تک سن رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کے قائد بدعنوانی اور ناجائز طریقوں سے مال بنانے سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ہم جہانگیر ترین، جنہیں سپریم کورٹ آف پاکستا ن نے نااہل قرار دیا ، پنجاب میں اہم معاملات کو کنٹرول کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم دیگر افراد کو دیکھتے ہیں کہ ان پر بدعنوانی کے سنگین الزامات ہیں لیکن وہ پارٹی کے اہم عہدوں پر براجمان ہیں۔ تو اگر پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بدعنوانی ہی ہے، اور آپ اس سے نفرت کرتے ہیں تو پھر یہ لوگ آپ کے ارد گرد کیوں ہیں؟کیا یہ دہرا معیار نہیں؟ یا پھر صرف اقتدار میں آنے کے لئے بدعنوانی کے نعرے لگائے تھے؟کفایت شعاری اور سادگی بھی پی ٹی آئی کے بیانیے کے اہم ستون تھے ۔ انتخابات سے قبل وزیر ِاعظم عمران خان نے اپنی وسیع و عریض جائیداد بنی گالہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُنہیں شرم آئے گی کہ ایک غریب ملک کا وزیر اعظم ایک محل نما گھر میں رہے ۔ ہم نے بھی اُن کی اس بات کو سراہا تھا۔ لیکن پھر ہم نے اُنہیں وزیر ِاعظم ہائوس میں ہی رہتے دیکھا، اگرچہ اُنھوںنے اس کے اندر ایک چھوٹے گھر کا انتخاب کیا ہے ۔ وہ ہفتے میں کئی مرتبہ اپنے گھر بنی گالہ سے وزیر ِاعظم ہائوس تک ہیلی کاپٹر میں سفر کرتے ہیں، آج پی ٹی آئی کے حامیوں کی جبین شکن آلود نہیں ہوتی ۔

پی ٹی آئی نے گزشتہ پانچ برسوں سے دہائی دی ہوئی تھی کہ وہ قوم کے لوٹے ہوئے 200بلین ڈالر واپس لائے گی۔ وہ تنقید کرتی تھی کہ مسلم لیگ (ن) قومی دولت لوٹنے والوں کے لئے نرم گوشہ رکھتی ہے ، بلکہ شریک ِ جرم ہے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد اُن کا کہنا تھا کہ بیرونی ممالک میں مبینہ طور پر چھپائی گئی دولت دکھائی نہیں دے رہی ۔ کیا اُنھوںنے مسلم لیگ (ن) سے معافی مانگنے کی زحمت کی ؟ کیا اُنھوںنے قوم کو گمراہ کرنے پر معذرت کی ؟ اگر معذرت کا حوصلہ نہیں تو کیا پی ٹی آئی کے دل میں اس دروغ گوئی پر کوئی ندامت بھی نہیں؟اور پھر ہر ماہ دس بلین ڈالر مبینہ منی لانڈرنگ کا کیا بنا؟ پی ٹی آئی کا دعویٰ رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی غفلت کی وجہ سے ملک سے دولت باہر جاتی رہی ہے؟ کیا نئی حکومت نے ان مہینوں میں اس پر قابو پالیا ہے ؟ یا پھر یہ دعویٰ بھی جھوٹا تھا؟میرا خیال ہے کہ ان ایک سو دنوں نے شہریوں کو ایک سوچ عطا کی ہے ۔ ملک کے ہر ذی شعور ذہن میں ابھرنے والی سوچ یہ ہے کہ اگلے پانچ سال تک ملک کا سب سے بڑا مسئلہ موجودہ حکومت کی غلط بیانی اور دروغ گوئی ہوگی۔ 

(صاحب ِ مضمون سابق وفاقی وزیر برائے مالیاتی امور ہیں)

تازہ ترین