• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

پختونخوا حکومت تمام اقدامات ایک ماہ میں مکمل کرنے کیلئے کوشاں

گلزار محمد خان، پشاور

ایک طرف حکمرانوںکی جانب سے ملک میں امن و امان کے حالات بہتر ہونے ، دہشت گردوں کی کمر توڑنے اور صورتحال کنٹرول میں آنے کے دعوے کئے جاتے ہیں مگر دوسری جانب لوئر اورکزئی کے علاقہ کلایہ میں دھماکہ اور قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ وفاقی دارالحکومت سے ایس پی لیول کا افسر اغواء ہوکر سرحد پار پہنچا دیا جاتا ہے اور اس کے بعد اس کی لاش ملتی ہے جس سے یقینی طور پر قوم میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، ایس پی طاہر داوڑ کی شہادت پر پوری قوم اضطراب میں ہے لیکن سب سے زیادہ قابل افسوس بات یہ ہے کہ پڑوسی ملک افغانستان نے جس طریقہ سے اس کی میت پر سیاست چمکانے کی کوشش کی اس نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا ہے کہ افغانستان آج بھی بیرونی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے جس نے سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شہید ایس پی کا جسد خاکی حکومت پاکستان کی بجائے پختون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں کے حوالے کیا اس نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے اور اس پر بجا طور پر حکومت پاکستان کی جانب سے افغان ناظم الامور سے احتجاج بھی کیا گیا ، طاہر داوڑ کی شہادت ایک بڑا سانحہ ہے جس سے آج مخصوص عناصر سیاسی فائدہ اٹھانے کے چکر میں ہیں اگر ان لوگوں کوکنٹرول نہ کیا گیا تو مستقبل میں یہ اپنے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں اور غالباً یہی وجہ ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی نے یہ معاملہ دیگر لوگوں کے پاس جانے کی بجائے ہفتہ کو پورے صوبے میں یوم احتجاج منایا اس سلسلے میں پشاور سمیت تمام بڑے شہروں میں مظاہرے ہوئے اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ طاہر داوڑ کی اغواء اور قتل کے تمام محرکات سامنے لائے جائیں اور ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے، ان حالات میں وفاقی اور صوبائی حکومت کو یقیناً اب نئے خطوط پر سوچنا ہوگا کیونکہ وزیر اعظم نے افغان مہاجرین کو شہریت دینے کی جو بات کی تھی اب اس حوالے سے بھی بہت سی چیزوں پر غور کرنا ضروری ہوگیا ہے، پاکستان ایک عرصہ سے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کرتا آرہا ہے اور اس وقت بھی 20سے30لاکھ تک رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین یہاں موجود ہیں جو مکمل آزادی کیساتھ اپنی مرضی کی رہائش رکھے ہوئے ہیں بلکہ اربوں روپے کے کاروبار بھی کررہے ہیں جبکہ پاکستان کچھ عرصہ قبل افغانستان کو ہزاروں ٹن گندم بھی بطور تحفہ بھجواچکا ہے اس کے باوجود افغان حکومت نے جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا وہ قابل مذمت ہونے کیساتھ قابل غور بھی ہے جس پر تمام قومی قیادت کو سر جوڑ کر سوچنا ہوگا کیونکہ اس قسم کا طرز عمل مستقبل میں خطے کے مسائل میں اضافہ کا سبب بن سکتے ہیں،لوئر اورکزئی کے علاقہ کلایہ میں جمعہ بازار کے دوران زور دار دھماکے کے نتیجے میں 34سے زائد افراد دم توڑ گئے اس دھماکے کے کے بعد صوبے میں بھی امن وامان کی صورتحال پر سوالات اٹھ گئے ہیں ‘ اگر اے این پی کی بات کی جائے تو تنظیم سازی اور رکنیت سازی مہم کے اہم مرحلہ پر اس نے مرکزی رہنما افراسیاب خٹک اور مرکزی نائب صدر بشریٰ گوہر کی پارٹی رکنیت معطل کردی ، پارٹی کا کہنا ہے کہ دونوں رہنما ایک عرصہ سے جماعتی پالیسی کی خلاف ورزی کرتے آرہے تھے اور اس دوران ان کو بار بار متنبہ بھی کیا گیا مگر ان کی سرگرمیاں جاری رہیں جس کے بعد ان کو شوکاز نوٹس بھی دیا گیا جس کا ان کی جانب سے کوئی تسلی بخش جواب نہ آسکا، پارٹی قیادت کا کہنا ہے کہ ان کی ان قسم کی سرگرمیوں سے پارٹی کارکنوں میں بے چینی اور بے اعتمادی بڑھ رہی تھی گویا پارٹی حلقوں کے مطابق دونوں رہنماؤں کی جانب سے جس طریقہ سے پی ٹی ایم کی سپورٹ کی جارہی تھی اور اس کیلئے پارٹی کا نام استعمال کیا جارہا تھا اس سے پارٹی قیادت میں تشویش بڑھتی جارہی تھی کیونکہ خدشہ یہ تھا کہ اگر سلسلہ اسی طرح جاری رہتا تو مستقبل میں پارٹی کیلئے سیاسی خطرہ اور مشکلات میں اضافہ ہوسکتا تھا، اے این پی کی جانب سے دونوں رہنمائوں کو جلد فارغ کئے جانے کا بھی امکان ہے۔دوسری جانب خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف بھی اندرونی کشمکش سے دوچار ہے ، وزیر اعلیٰ محمود خان کیخلاف اندرونی محاذ بدستور موجود ہے اگرچہ ایک بڑی حد تک اس محاذ کی سرگرمیاں مسدود کی جاچکی ہیںاور محمود خان وزیر اعظم عمران خان سے توثیق کی سند بھی لا چکے ہیں مگر سب کو پتہ ہے کہ مخالف حلقے بھی چین سے بیٹھنے والے نہیں ابھی یہ کشمکش برقرار ہی تھی کہ پارٹی نے ایک اور بڑا فیصلہ کرتے ہوئے صوبائی کابینہ میں شمولیت کیلئے بنیادی اصول وضع کرلیا جس کے مطابق مرکزی حکومت میں شامل کسی بھی رہنما کے کسی رشتہ دار کو صوبائی کابینہ کا حصہ نہیں بنایا جائیگا اس فیصلہ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں کوئی اور نہیں بلکہ خود سابق وزیر اعلیٰ اور موجودہ وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک،ا سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور وفاقی وزیر برائے امور کشمیر علی امین گنڈا پور ہی ہیں، پرویز خٹک کے برادر اور ان کے فرزند جبکہ اسد قیصراور علی امین گنڈا پور کے برادران صوبائی اسمبلی کے اراکین منتخب ہوچکے ہیں اور تینوں کی یہ کوشش نظر آرہی تھی کہ اپنے بھائیوں کو صوبائی کابینہ کا حصہ بنائیں اور اسی وجہ سے صوبائی کابینہ میں اضافہ کا مرحلہ تاخیر کا شکار ہوتا رہا اب کم از کم اس اصول کے بعد عمران خان اور وزیر اعلیٰ پر بڑی حد تک دباؤ کم ہونے کا امکان ہے۔موجودہ صوبائی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے فاٹا انضمام کی رفتار کافی سست پڑ چکی تھی جس کی وجہ سے انضمام مخالف حلقوں کے حوصلے بڑھتے جارہے تھے اور یہ حلقے دوبارہ انضمام مخالف جرگوں میں مصروف ہوچکے تھے جس کا آغاز ضلع مہمند سے ہوا جہاںپہلے مخالف جرگہ کا اہتمام ہوا اور ساتھ ہی پولیس کیخلاف مظاہرہ بھی کیا گیا جس کے بعد باجوڑ اور خیبر کے اضلاع بھی اس کی لپیٹ میں آگئے، صوبائی حکومت نے ایک اقدام تو یہ کیا کہ ڈی سی مہمند کو او ایس ڈی کرکے پیغام دیا کہ انضمام مخالفت برداشت نہیں کی جائیگی، ساتھ ہی وزیر اعلیٰ نے واضح اعلان کیا کہ فاٹا انضمام کا عمل ایک ماہ میں مکمل کیا جائیگا جس کیلئے اقدامات تیز کردئیے گئے اور جمعہ کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے مزید کئی محکمے فاٹا سیکرٹریٹ سے لیکر وزراء کے حوالے کئے گئے ،ساتھ ہی اب وزیر اعلیٰ جلد ہی قبائلی اضلاع کا دورہ شروع کرنیوالے ہیں جس کی ہدایت عمران خان نے دیدی۔

تازہ ترین
تازہ ترین