• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

100 دن: حکومت عوام سے کئے وعدوں پر عملدرآمد کرانے پر کتنی کامیاب ہوئی؟

مقصود اعوان، لاہور

وفاق اور پنجاب میں پہلی بار پاکستان تحریک انصاف کی حکومتوں کو قائم ہوئے 100دن پورے ہونے کوہیں۔ نیا پاکستان بنانے، موجودہ نظام میں سٹیٹس کو کوتوڑ کر تبدیلی لانے کے وزیر اعظم عمران خان کے وعدوںاور دعوئوں پر کس حد تک عملدرآمد ہوا یہ سب وزیراعظم خود قوم کو بتائیں گے کہ ان کی حکومت نے ملک کو اقتصادی معاشی بحران سے نکالنے ، جہالت، غربت، مہنگائی، بیروزگاری کے خاتمے، عوام کو صاف پانی، صحت، تعلیم، جان ومال کے تحفظ اور فوری سستا انصاف کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لئے کیا فوری اقدامات کئے جن کا وعدہ عام انتخابات میں عوام سے کیاگیا تھا۔ اس حوالے سے ان کی حکومت نے ملک کوترقی کی راہ پرگامزن کرنے کے لئے کون سا روڈ میپ تیار کیا ہے جو عوام کو مطمئن کرسکے کہ مستقبل قریب میں عوام کو ریلیف ملے گا۔ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی سو دنوںکی کارکردگی کا پردہ چاک کرنے کے لئے مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، جے یو آئی، جماعت اسلامی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے اپنے اپنے پلیٹ فارم سے حکمت عملی طے کرلی ہے جس سے آئندہ چند ہفتوں میںحکومت اور اپوزیشن جماعتوں کےدرمیان نئی محاذ آرائی کھل کر سامنے آئے گی جس کے آثار اپوزیشن لیڈروں اور وزرا کے بیانات سے ابھی سے ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے سو دن کے پروگرام میں 6نکات بیروزگاری کے خاتمے کے لئے ایک کروڑ نوکریاں، بے گھر افراد کےلئے 50لاکھ گھروں کی تعمیر، گرین پاکستان منصوبے کے لئے ایک ارب درخت لگانا، معیشت کی بحالی، زرعی ترقی، خودمختار نیب، غیرسیاسی پولیس اور لوٹی ہوئی دولت واپس لانا بڑی اہمیت کے حامل ہیں ۔ اس پر موجودہ حکومت نے کیا اقدامات کئے ؟ وفاقی اور صوبائی وزرا نے اپنے اپنے محکموںمیں کیا انقلابی تبدیلیاںلانے کے لئے وزیر اعظم کے وژن پر کس حد تک عمل کیا؟ سب اگلے چند دنوں تک سامنے آجائےگا مگر ظاہر ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کو انتخابات میں عوام سے کئے وعدوں پر عملدرآمد میں بڑی مشکلات کا سامنا ہے۔ پی ٹی آئی کے برسراقتدار آنے کے بعد ڈالر میں اضافے سے مہنگائی کا طوفان آیا ہے۔ جس نے غریب آدمی کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کا یہ ہے نیا پاکستان 10روپے کے روٹی 15روپے کا نان کا نعرہ مقبول ہو رہا ہے۔ کاروباری اور سیاسی حلقو ں کے مطابق جب بھی کوئی حکومت برسراقتدار آتی ہے تو سب سے پہلے اسے عوام کا اعتماد حاصل کرنا ہوتا ہے۔ حکومت بیوروکریسی کے ساتھ اپنی پانچ سالہ مدت کے لئے ایسی معاشی پالیسیاں تشکیل دینا ہوتی ہیں جس سے فوری طور پر مہنگائی میں کمی اور ملک میں نئی سرمایہ کاری آئے، خاص طور پر رئیل اسٹیٹ، تعمیرات، جائیداد کی خریدوفروخت، ٹیکسٹائل، انجینئرنگ، زراعت سمیت پاورسیکٹر اور دیگرشعبوں سے مل کر ایسی آسان پالیسیاں متعارف کروائی جائیں جس سے روز مرہ کے کاروبار کو مزید وسعت ملے اورمارکیٹ میں پیسے کی ریل پیل نظرآئے لیکن پی ٹی آئی کی حکومت کے سرسراقتدار آتے ہی سیاستدانوں، بیوروکریٹس، تاجروں اور صنعتکاروں کے خلاف نیب کی انکوائریوں اور پکڑ دھکڑ سے نئی سرمایہ کاری کا عمل نہ صرف جمود کا شکار ہوگیا ہے بلکہ سرمایہ کاری کرنے والے لوگوں کے زیرزمین چلے جانے سے ملک معاشی پہیہ رک سا گیا ہے۔ وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ اپنے سو دن کی کارکردگی کے پلان پر قوم سے خطاب میں سرمایہ کاروںاوربیوروکریسی کے تحفظات کودور کرنےکا بھی اعلان کریں اوراپوزیشن جماعتوںکو ملک کی ترقی میں اپنے ساتھ شامل کرنے کےلئے تعاون کا ہاتھ آگے بڑھائیں۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ قومی اداروں میں عدم اعتماد ختم ہونے سے ہم آہنگی آگئی ہے اور تمام ریاستی اسٹیک ہولڈرز کے دفاع شہریوں کےتحفظ کے لئے اکٹھے ہوگئے ہیں۔وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی صدارت میں صوبائی کابینہ کے اجلاس نے صوبے کے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے سو روزہ اصلاحاتی ایجنڈے کے تحت متعدد قوانین میں ترامیم اور نئی پالیسیوں کی منظوری دی ہے۔ پنجاب میں وزیراعظم کے وژن کےمطابق نیا بلدیاتی نظام لاکر بلدیاتی اداروں کو مالی، سیاسی، انتظامی طورپر خودمختار بنایا جارہا ہے تاکہ شہریوں کو بنیادی شہری سہولتیں ان کی دہلیز پر میسر ہوں۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وزیراعلیٰ سردار عثمان بزردار اپنے قائد وزیراعظم عمران خان کی امیدوں پر پورا اترنے کے لئے دن رات کوشاں ہیں۔ انہیں گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور اورا سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کا مکمل تعاون حاصل ہے۔یہ پہلی بار ہوا کہ ایوان وزیراعلیٰ ، گورنر ہائوس اور پنجاب اسمبلی کے دروازے بلاامتیاز تمام اراکین اسمبلی کےلئے ہمہ وقت کھلے ہیں۔ جہاں اراکین اسمبلی اور افسران گورنر چوہدری محمد سرور، وزیراعلیٰ عثمان بزدار اورا سپیکر چوہدری پرویز الٰہی سے کسی رکاوٹ کے بغیر مل کر بلاجھجک دل کی بات کرنے اور اپنے علاقے کے مسائل حل کرانے میں مصروف نظرآتے ہیں۔بڑی مدت کے بعد اقتدار کے ایوانوں میں عزت افزائی کلچر کی بحالی سے اراکین اسمبلی اور بیوروکریٹس کے اندر عوام کی بے لوث خدمت کا نیا جذبہ پیدا ہوا جس سے ہر حلقے میں عوام کے مسائل حل ہونے میں مدد ملے گی جو پنجاب کے عوام کے لئے بڑی خوش آئند بات ہے۔ وزیراعظم کی ہدایت پر جنوبی پنجاب کے عوام کو نئے صوبے کے قیام تک بنیادی سہولتوںکی فراہمی کے لئے ملتان میں الگ منی سیکرٹریٹ کے قیام کا کام آخری مراحل میں ہے۔ وزیراعظم نے عام انتخابات میں جنوبی پنجاب کا الگ صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن نئے صوبے کے قیام کےلئےآئین میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ پارلیمنٹ میں اس وقت پاکستان تحریک انصاف کو آئینی ترمیم کے لئے دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہے تاہم وزیراعلیٰ پنجاب نے جنوبی پنجاب کے تین ڈویژنوں ملتان، ڈیرہ غازی خان، بہاولپور کے 11اضلاع پرمشتمل ملتان میں نئے منی سول سیکرٹریٹ کے قیام کی منظوری دے دی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے دور میں ملتان میں الگ منی سول سیکرٹریٹ کے قیام کے منصوبے پرسابق گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ نے عمل شروع کرا دیا تھا لیکن بیوروکریسی کی مخالفت کے باعث مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے اس منصوبے پر عملدرآمد روک دیا جس کاخمیازہ مسلم لیگ (ن) کو انتخابات 2018میں بھگتنا پڑا کہ جنوبی پنجاب کے متعدداضلاع سے ملک کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کو امیدوار نہ مل سکے اور پاکستان تحریک انصاف کو جنوبی پنجاب سے عام انتخابات میں بھرپور کامیابی ملی جو وفاق اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت بنانے کا موجب بنی۔ اب پی ٹی آئی کی حلیف جماعت مسلم لیگ (ق) کے رکن وفاقی وزیر چوہدری طارق بشیر چیمہ نے صوبہ بہاولپور بحالی کا معاملہ اٹھاکر جنوبی پنجاب صوبے کی مخالفت شروع کردی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پی ٹی آئی جنوبی پنجاب الگ صوبے کے قیام کا مسئلہ کیسے اور کب حل کرتی ہے؟ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار، چیف سیکرٹری یوسف نسیم کھوکھر اور وزیر اعلیٰ کےپرنسپل سیکرٹری راحیل صدیقی تینوں اعلیٰ ترین حکومتی عہدیداروں کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے، امید ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے جنوبی پنجاب صوبہ بنانے میںپیش رفت ضرور ہوگی۔

تازہ ترین
تازہ ترین