• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت ن لیگ کے تعاون اور طاقتور حلقوں کی شفقت کی وجہ سے اپنے پانچ برس مکمل کرنے کی طرف گامزن ہے۔ اس عرصہ کے دوران ہر ادارے میں نہ صرف لوٹ مار کی گئی بلکہ اداروں کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ قانون اور انصاف کا مذاق بھی اڑایا گیا، نیب کے چیئرمین نے مہرثبت کر دی ہے کہ روزانہ 15/ارب روپے تک کی کرپشن ہو رہی ہے۔ جب انہیں خیال آیا کہ عوام کے پاس کس منہ سے ووٹ مانگنے کیلئے جائیں گے تو اس حکومت نے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے گندم کی امدادی قیمتیں بڑھا دیں۔ انہیں یہ یقین ہے کہ شہری لوگ تو پیپلز پارٹی کو ووٹ نہیں دیں گے کم از کم کسانوں اور دیہاتیوں کو تو خوش کیا جائے لیکن افسوس کہ انہیں کیا معلوم کہ آخر کار یہ سارا بوجھ غریب عوام پر ہی پڑنا ہے۔ اس حوالے سے فلور ملز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر بلال صوفی نے ایک تحقیق کی ہے ۔ آج کے کالم میں ان کی اس تحقیق سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وفاقی حکومت کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے آنے والے نتائج اور نقصان کو پرکھے بغیر آئندہ فصل کے لئے گندم کی امدادی قیمت میں150روپے فی من اور 375روپے فی بوری خطیر اضافہ کر دیا ہے۔ ایک چیز بڑی غورطلب ہے کہ اس حکومت نے چار برسوں میں تیسری بار یہ اضافہ کیا ہے ۔ گندم جو چار سال پہلے 625روپے فی من تھی اب 12سو روپے یعنی دگنی ہو گئی ہے۔ اضافے کے پیچھے جو دلیل دی گئی وہ یہ تھی کہ جب کسان کو بہتر قیمت ملے گی تو وہ پیداوار میں اضافہ کرے گا اور پاکستان دوسرے ممالک کو گندم برآمد کر سکے گا۔ دوسرے ممالک کو گندم ایکسپورٹ کرنے میں پاکستان کو فائدہ ہوگا یا نقصان، اس پہلو پہ بعد میں بات کرتے ہیں ۔ پہلے دیکھنے والی چیز یہ ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستان میں گندم کی پیداوار جمود کا شکار ہے۔ 1999ء کی فصل اور2011ء کی فصل کا موازنہ کیا جائے تو فی ایکڑ پیداوار میں قطعاً کوئی اضافہ نہیں ہوا اور ادھر حکمران یا اسمبلیاں ہیں کہ جو اس پر بات کرنے کیلئے تیار نہیں کہ عام آدمی پر گندم کی امدادی قیمت بڑھانے سے کیا اثرات ہوں گے، مہنگائی کس قدر بڑھ جائے گی۔ اس حوالے سے تو کسی صوبے یا اسٹیک ہولڈر سے کوئی بات نہیں کی گئی صوبہ پنجاب اور سندھ کے وزرائے اعلیٰ تو سخت پریشان ہیں کہ انہیں آئندہ برس گندم کی خریداری کیلئے کم ازکم 150/ارب روپے اضافی درکار ہوں گے ۔ گو پی پی کی حکومت نے گندم کی قیمت بڑھا کر لوگوں کے پاس جاکر ووٹ لینے کا جواز بنایا ہے مگر یہ ایک طرف تو پری پول دھاندلی اور دوسرا یہ کہ غریب عوام کو مزید پاتال میں دھکیلنے کی کوشش ہے ۔ اگر فلور ملز کے مالکان گندم 12سو روپے لیں گے تو یہ انہیں 1350روپے فی من پڑے گی اس حساب سے عوام کو 2013ء میں آٹے کا 20کلو کا تھیلا 640 روپے کی بجائے 800 روپے میں ملے گا ۔ اس سے دوسری اجناس ، بیکری آئٹم اور روٹی مزید مہنگی ہوجائیں گی ۔ عالمی ادارہ خوراک کا پہلے ہی کہنا ہے کہ پاکستان میں غذائی تحفظ کی صورتحال مخدوش ہے اور عوام گندم کی پہلے ہی بہت زیادہ قیمت دے رہے ہیں۔ حکومت کے اس فیصلے سے پہلے بلوچستان میں آٹا 37روپے کلو ، سندھ میں 35روپے اور پنجاب و خبیر پختونخوا میں 35سے36روپے فی کلو گرام فروخت ہو رہا ہے جبکہ ہمسایہ ملک بھارت میں پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم کے تحت آٹا 3سے4روپے فی کلو گرام اور کھلی مارکیٹ میں 16روپے کلو مل رہا ہے۔ وہاں لوگوں کو خوراک کا تحفظ دینے کیلئے حکومت اقدامات کرتی ہے مگر ہماری حکومت نے یہ جو قیمت طے کی ہے اس کے بعد آٹا 40سے 42روپے فی کلو گرام ملے گا اور روٹی بھی آٹھ روپے تک پہنچ جائے گی۔ عوام کی قوت خرید پہلے ہی کم ہوگئی ہے اور عالمی ادارہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 44فیصد افراد نے مہنگائی کے ہاتھوں اپنی خوراک میں تبدیلی کر لی ہے۔ گندم کی امدادی قیمت بڑھنے سے دوسرا بڑا نقصان برآمد کا ہوگاجو صفر کی حد تک چلی جائے گی کیونکہ کسانوں کا مطالبہ تھا کہ عالمی مارکیٹ میں گندم کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں اس لئے یہاں بھی امدادی قیمت بڑھائی جائے۔ پاکستان نے حال ہی میں ایران کو 10لاکھ ٹن گندم 300ڈالر فی ٹن فروخت کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔ جب بھارت میں فی ٹن گندم 20ہزار روپے اور پاکستان میں 30ہزار روپے ہوگی تو پاکستان سے کون گندم لے گا اور پھر بھارت کو یہ موقع مل جائے گا کہ وہ پاکستان میں اپنی گندم اور آٹا اسمگل کر کے ہماری زراعت کو تباہ کرنے کی کوشش کرے کیونکہ فی ٹن دس ہزار روپے کا فرق ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر بھارت اتنی سستی گندم فروخت کر کے کیسے کام چلا رہا ہے کیا ہماری حکومت ایسا نہیں کر سکتی، کر تو سکتی ہے مگر بدانتظامی اور کرپشن کو ختم کر کے ایک شفاف نظام بنانا ہوگا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ کسانوں کو سستی کھاد فراہم کی جائے مگر حکومت تو مقامی کھاد بنانے والی فیکٹریوں کی بجلی اور گیس کاٹ رہی ہے اور اسی چیز کا جواز بنا کر بعض اعلیٰ شخصیات اور مافیا کھاد درآمد کر رہی ہیں اور سارا بوجھ آخر کار عوام پر پڑ رہا ہے۔ اسی طرح بیج ، ٹریکٹر اور ڈیزل کی فراہمی کو آسان اور سستا بنا دیا جائے اور ان کی تقسیم براہ راست کا شتکاروں کوکی جائے تو مہنگائی کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ گندم کے اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل ” پاکستان ویٹ بورڈ “ کے نام سے ایک ادارہ بنائے جو اس حوالے سے مشاورت فراہم کرے اسی سے پاکستان کو فائدہ پہنچ سکتا ہے کیونکہ 2007ء کی وفاقی اور ایک صوبائی حکومت نے کاغذوں میں گندم کی پیداوار زیادہ دکھا کر گندم کو ایکسپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا جس سے نہ صرف ملک کو 82/ارب روپے کا نقصان ہوا بلکہ ملک میں آٹے کی قلت پیدا ہوگئی اور پھر اس قلت کو دور کرنے کے لئے مزید ایک سو ارب روپے کا نقصان کیا گیا۔ لوگوں نے ہائے آٹا اور آٹا چور حکومت کے نعرے لگائے۔ پی پی اور اس کی اتحادی حکومت ایک بار پھر بہت بڑی معاشی غلطی کر کے عوام سے دوستی کا ثبوت فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اب عوام اس عذاب کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں بہتر یہی ہے کہ حکومت گندم کی امدادی قیمت 1050روپے سے نہ بڑھائے بلکہ کسانوں کو کھاد، بیج ، ٹریکٹر اور ڈیزل کی سستی اور آسان فراہمی کو یقینی بنائے کیونکہ اب عوام کو میڈیا نے باشعور بنا دیا ہے اور گندم سیاست کسی کام نہیں آئے گی!
تازہ ترین