• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم 1947میں ہجرت سے بچ گئے مگر ہمارا گائوں تقسیم ہوگیا۔ ہمارے گائوں میں سکھ اور مسلمان آباد تھے۔ پاکستان اور ہندوستان کی تقسیم ہوئی تو زمینوں کا ایسا بٹوارہ ہوا کہ ہماری کچھ زمین بھارت میں چلی گئی اور سردار مولا سنگھ کی کچھ زمین پاکستان میں آگئی، پھر ہم نے آپس میں زمینوں کا تبادلہ کرلیا۔ میرے پردادا نواب علی کے دو ہی قریبی دوست تھے، ایک سکھ تھا اور ایک مسلمان۔ مسلمان دوست پیر جماعت علی شاہ تھے جبکہ سکھ دوست سردار مولا سنگھ تھے ، جب انگریزوں نے ہم پر بہت ظلم کیا تو اس وقت سردار مولا سنگھ کے خاندان نے ہماری بہت مدد کی پھر جب برصغیر کی تقسیم سے چند ماہ پہلے انگریز ڈپٹی کمشنر ہمارے پاس آیا اور کہنے لگا.......’’ہم ظلم کا مداوا کرنا چاہتے ہیں، اب ہم برصغیر سے جارہے ہیں تو ہم چاہتے ہیں کہ آپ جنوبی پنجاب میں دس مربع اراضی لے لیں.....‘‘ میرے پردادا نے سردار مولا سنگھ سے مشورہ کیا اور پھر اس پیشکش کو مسترد کردیا، یہ وہ زمانہ تھا جب میرے دادا غلام محمد فن پہلوانی میں خود کو منوا چکے تھے، ان کی طاقت اور دلیری کا سیالکوٹ اور گورداسپور میں چرچا تھا، ان کی ٹانگ پر رستم کی مہر لگی تھی۔ سردار مولا سنگھ اور ہمارے خاندان کے افراد اکٹھےمیلوں پر جاتے تھے، اکٹھے بیساکھی مناتے تھے پھر دوریاں پیدا ہوگئیں، جدائی کا سماں آگیا، ہم دونوں کے خاندان دو الگ ملکوں میں بسنے لگے، ساٹھ ستر کی دہائی تک ہمارے ان سے روابط تھے پھر روابط بھی ٹوٹ گئے، کئی سرحدی گائوں دریائے راوی نگل گیا، میں نے اپنی آنکھوں سے دیہاتوں کو دریا بُرد ہوتے ہوئے دیکھا ہے، آبادیاں دریا کی نذر ہوتی رہیں اور دریا کے پار بارڈر تک بیلا بنتا رہا۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں کون سی کتھا کہانی لکھنے بیٹھ گیا ہوں، صاحبو! ایسا نہیں، جدائی کے موسم کے آنسو یادوں کو زخموں کے سوا کیا دیتے ہیں کبھی آپ گورداسپور کے شیو کمار بٹالوی کا کلام سنیں تو آپ کو پتہ چلے کہ آنکھوں میں آنسو کس طرح رلتے ہیں، کیسے یادوں کی آندھی سب کچھ ہلاکر رکھ دیتی ہے، کیسے دیے کی روشنی سے خوف پھیلتا ہے۔

آج پوری دنیا کرتارپور کانام سن رہی ہے، کرتارپور ہمارے گائوں سے ذرا سے فاصلے پر تو تھا، یونہی گھومنے نکلو تو کرتارپور پہنچ جائو۔ ہم راوی کے کنارے رہنے والوں کا اپنا لہجہ ہے، ہمیں پنجابی سے عشق ہے۔ دربار صاحب کرتارپور بالکل راوی کے کنارے پر ہے اگرچہ دربار صاحب کرتار پور کا ریلوے اسٹیشن ذرا دور ہے، اس اسٹیشن سے دو کلو میٹر دور افضل احسن رندھاوا کا گائوں ہوگا۔ سات، آٹھ کلو میٹر دور فیض ؔ صاحب کا گائوں ہے۔ یہ مٹی بڑی زرخیز ہے، سونا اگلتی ہے، ہم دیہاتی لوگوں کو اعلیٰ تعلیم کے لئے سیالکوٹ اور لاہور کا رخ کرنا پڑتا تھا، اسی لئے ہم لوگ سیالکوٹ شہر میں ٹھکانہ بنا کر ضرور رکھتے تھے، بالکل فیض ؔ صاحب کے نقش قدم پر میرے والد بھی پہلے مرے کالج سیالکوٹ میں اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھے، میں تو میٹرک کے بعد سیدھا گورنمنٹ کالج لاہور آگیا تھا۔ راجہ ظفر الحق سیالکوٹ سے میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے۔ دراصل راجہ ظفر الحق کے والد پولیس آفیسر تھے اس لئے راجہ صاحب کا ابتدائی زمانہ سیالکوٹ میں گزرا۔

دربار صاحب کرتارپور خاص کشش کا حامل گوردوارہ ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے گرمیوں کی چھٹیوں میں گائوں چلاجاتا اگر کوئی مہمان آتا تو ہم اسے گھمانے پھرانے دربار صاحب کرتارپور لے جاتے، بالائی منزل پر چڑھ کر سرحد پار کا منظر دیکھتے۔ کرتار پور وہ جگہ ہے جہاں بابا گورونانک نے زندگی کے آخری اٹھارہ برس گزارے۔ یہی گورونانک کی آخری آرام گاہ ہے۔ کرتار پور سے بھارت کی طرف دیکھیں تو سامنے ڈیرہ بابا نانک ہے، یہ شہر گورداسپور کی تحصیل ہے۔ ڈیرہ بابا نانک کو جسڑ سے ریلوے لائن جاتی تھی جو عہد نواز شریف کی نذر ہوگئی۔ڈیرہ بابا نانگ میں گوردوارہ سری دربار صاحب ہے۔ 1515ء میں گورو نانک اپنی بیوی ماتا سلکھنی کو یہیں ملنے گئے تھے۔ راوی کنارے آباد اس شہر سے مشرق کی جانب کلانور ہے، یہ شہر آرٹ سے بھرپور ہے۔ تقسیم سے پہلے کہا جاتا تھا جس نے لاہور نہیں دیکھا اسے کلانور دیکھنا چاہئے۔ کلانور میں مغل بادشاہ اکبر نے باغات بنوائے تھے۔ ساتھ ہی دھاریوال ہے۔ دھاریوال وولن کے حوالے سے مشہور ہے، یہاں 1880میں وولن مل لگائی گئی تھی، میں نے دھاریوال کے بنے ہوئے وول کے ملبوسات استعمال کئے ہیں۔ ڈیرہ بابا نانک سے آگے بٹالہ ہے۔ یہاں انڈسٹری بہت ہے، ایک زمانے میں اسے’’آئرن برڈ آف ایشیاء‘‘ کہا جاتا تھا۔ یہاں کے زرعی آلات بڑے مشہور ہیں۔ ہمارا خاندان یہیں سے زرعی آلات خریدتا تھا۔ بٹالہ میں کرکٹ بیٹ بھی بنتے ہیں، یہ وہی بٹالہ ہے جہاں کے ممتاز مفتی تھے۔ ویسے اگر گورداسپور ضلع کو دیکھا جائے تو اس نے کئی یادگار شخصیات کو جنم دیا ہے۔ فن ثقافت میں دیو آنند، ونودکھنہ، رمیش شرما، جبیر جسی، گورورندھاوا، پریت ہرپال، اقبال باہو، اللہ رکھا طبلہ نواز اور موسیقار ذاکر حسین شامل ہیں۔ شیو کمار بٹالوی کی پنجابی شاعری کے علاوہ ہاکی میں سرجیت سنگھ رندھاوا اور پربھوجوت سنگھ بڑے نامور ہیں۔ میری دو پاکستانی سیاستدانوں علی اکبر وینس اور چوہدری اختر وریو سے دوستی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ان دونوں کی گفتگو سے گوروداسپور کی خوشبو آتی تھی۔ اسلم گورداسپوری سے بھی محبت کا یہی رشتہ تھا۔

اب جب کرتارپور کی راہداری کا سنگ بنیاد رکھا جاچکا ہے، اب سکھ دربار صاحب کرتارپور کی یاترا آسانی سے کرسکیں گے۔ دنیا میں پھیلے ہوئے کروڑوں سکھ خوش ہیں، وہ عمران خان کے شکر گزار ہیں، سابق بھارتی کرکٹر اور سیاحت و ثقافت کے صوبائی وزیر نوجوت سنگھ سدھو تو بہت جذباتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 71برس کا کام میرے دوست عمران خان نے تین ماہ میں کردیاہے۔ اب جب سفارتی لحاظ سے پاکستان بھارت سے بہت اوپر ہے تو انہی لمحات میں وزیر اعظم پاکستان نے پیشکش کی ہے کہ اپنے درمیان کشمیر کا مسئلہ حل کرلیا جائے۔ خطے سے غربت ختم کی جائے، ماضی صرف سبق سکھاتا ہے جب جرمنی اور فرانس محبت کا بھرم رکھ سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟ سدھو پٹیالے کا رہنے والا ہے۔ بٹھنڈہ سے رکن پارلیمنٹ بننے والی بھارت کی مرکزی وزیر خوراک ہرسمرات کور بادل تقریر کے دوران کئی مرتبہ جذباتی ہوئیں۔ سیاسی جماعت اکالی دل کی رہنما و سابق بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرکاش سنگھ بادل کی بہو، کیا شاندار پنجابی بول رہی تھیں، کیا لفظ تھے، کیا جذبات تھے، اپنی آنکھیں نمناک تھیں، کئی آنکھوں کو نمناک کرگئیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے پورے خطے کے لئے روڈ میپ دے دیا ہے، کرتارپور کی یاد میں بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے مگر جدائی اور ملاپ میں، جذبات کی خوشبو میں، احساس کے آئینے میں محبت کو بیان کرنا مشکل ہے، بس اسلم گورداسپوری کا شعر پیش خدمت ہے کہ؎

بس یہی ہے کہ اسے ٹھیس نہ لگنے پائے

دل جسے کہتے ہیں احساس کا پیمانہ ہے

تازہ ترین