• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹرانسپریسی انٹرنیشنل کے بعد اب چیئرمین NABایڈمرل(ر) فصیح بخاری نے بھی ایک بار پھر قوم کو بتایا ہے کہ ملک میں روزانہ 7ارب روپے سے15 ارب روپے کی کرپشن ہورہی ہے۔ کرپشن اس وقت صرف پاکستان نہیں بھارت سمیت ہر ترقی پذیر ملک اور حتیٰ کہ تقریباً تمام ترقی یافتہ ممالک میں بھی کینسر کی طرح پھیل رہی ہے۔ پاکستان کے سوا باقی ممالک میں رول آف لاء کی وجہ سے کرپشن میں ملوث عناصر بہرحال قانون کی گرفت میں آجاتے ہیں چاہے وہ پارلیمنٹرین ہو یا بیوروکریٹ یا فوج اور عدلیہ سمیت کسی بھی قومی ادارے سے تعلق نہ رکھتے ہوں ۔پاکستان میں اس حوالے سے بڑی دلچسپ صورتحال ہے کہ کرپشن کو روکنے والے شور مچارہے ہیں کہ کرپشن بڑھ رہی ہے اس کا مطلب تو یہ لیا جاسکتا ہے کہNABکا قانون (آرڈیننس) ہوتے ہوئے بھی چھوٹے بڑے کسی بھی تالاب کی مچھلی پکڑنا ان کے بس میں نہیں ہے جبکہ قانون تو انہیں اس کام میں ملوث کسی بھی شخص کو پکڑنے سے نہیں روکتا۔ بھارت جہاں کرپشن کوئی پاکستان سے کم نہیں ہے لیکن وہاں بڑے بڑے سکینڈلز میں حکومت یا حکومتی ادارے عوامی دباؤ پر مگرمچھوں کو بچانے کی جرات نہیں کرتے۔ وہاں سول سوسائٹی بھی اس حوالے سے شور ڈالتی ہے جبکہ میڈیا بھی قومی مفاد کے پس منظر میں اپنا رول ادا کرتا ہے۔ اسی طرح ترقی یافتہ ممالک امریکہ ہو یا برطانیہ ، یورپ ہو یا چین ہر ملک میں کرپشن کے لاتعداد واقعات ہوتے ہیں مگر پاکستان میں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ یہاں کرپشن کے خاتمہ کی بجائے اس کا تحفظ زیادہ کیا جاتا ہے۔ کرپشن کی تشریح کی جائے تو یہ صرف مالی کرپشن نہیں ہوتی بلکہ صوابدیدی اختیارات خواہ وہ صدر اور صوبوں کے گورنرز یا وزیر اعظم یا وزرائے اعلیٰ اور مختلف اداروں کے سربراہ یا حکام جہاں بھی ان اختیارات کا غلط استعمال ہوتا ہے وہاں کرپشن کا ناسور بڑھتا جاتا ہے۔
ایک زمانے میں ہمارے معاشرے میں کسی بھی بڑی رہاشی آبادی یا پبلک سروس کے اداروں میں کرپٹ افراد کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی تھی۔ اب نمک ہی اس میں غائب ہوتا جارہا ہے۔ اس صورتحال کی ذمہ داری عملاً ہماری سیاسی اور فوجی حکومتوں کے سر پر عائد ہوتی ہے جن کے عدم تعاون کی وجہ سے قانون کی حکمرانی اور سب کا احتساب کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ موجودہ دور میں تو کرپشن ایسے پھیل رہی ہے جیسے یہ معمولات زندگی کا حصہ ہو۔ یہ صورتحال ہر جگہ تقریباً ایک جیسی ہے۔ اس وقت صرف اسلام آباد نہیں کوئی صوبہ یا شہر یا بستی ایسی نہیں جہاں ہماری معاشرتی ،اقتصادی ،معاشی اور سماجی زندگی میں کرپشن کا عنصر شامل نہ ہو۔ صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب NABکے چیئرمین جنرل(ر) امجد کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی تو ا نہوں نے اپنے ادارے کو بااختیار بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کے بعد سابق گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل(ر) خالد مقبول بطور چیئرمین نیب آئے ان کے دور میں بڑی کوشش کی گئی کہ احتساب کا عمل آگے بڑھے مگر سسٹم میں مختلف مسائل کی وجہ سے وہ نتائج حاصل نہ ہوسکے جو ہونے چاہئیں تھے۔ اب تو ملک میں دو مسائل ایک ساتھ چل رہے ہیں، ایک روٹی کا حصول اور دوسرا کرپشن کا خاتمہ۔ دونوں مسائل اچھی گورننس اور موثر احتساب یعنی قانون کی حکمرانی سے حل ہوسکتے ہیں اگر یہ دونوں کام ہوجاتے ہیں تو معاشی ترقی کا راستہ خود بخود ہموار ہوتا جائیگا۔ اس کے ساتھ ساتھ نیب ہو یا کوئی اور ادارہ سب کو بیانات سے ہٹ کر عملی طور پر کرپٹ عناصر کے خلاف ایکشن لینا ہوگا۔ جب اوپر والوں کو ہاتھ ڈالا جائیگا تو نچلی سطح پر ہونے والی کرپشن خوف اور بروقت سخت سزاؤں کے باعث بتدریج ختم ہوتی جائے گی۔ چیئرمین نیب کے مطابق تو روزانہ7ارب سے15ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے، انہیں معلوم ہونا چاہئے کرپشن تو اب روزانہ نہیں، ہر گھنٹہ کے حساب سے ہورہی ہے۔ کیا ہر وقت یا ادارے میں ہونے والی بدانتظامی یا میرٹ کے بغیر ٹھیکے دینے یا تقرریوں کا معاملات اس زمرے میں نہیں آتے؟ یہاں تو ایک سرکاری دفتر سے چند کاغذات کے حصول یا کوئی کارخانہ لگانے یا کنکشن لینے کے لئے کیا کچھ دینا پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ کون نہیں جانتا ٹیکس چوری ایک دکان سے لے کر اربوں روپے کا مال تیار کرنے اور اس کی تجارت کرنے والوں میں بھی ہوتی ہے۔کرپشن کی روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی کو موثر بنایا جائے، بلا امتیاز احتساب کے لئے پارلیمنٹ موثر کردار ادا کرے۔ صنعت و تجارت بنکاری یا کسی بھی شعبہ میں کرپشن روکنے کے لئے صنعت و تجارت کے اداروں کی مشاورت سے خصوصی ٹاسک فورسز بنائی جائیں جو تمام بڑے میگا پراجیکٹ سے لے کر ہر منصوبے کا جائزہ لیں اس لئے کہ آئندہ الیکشن میں دو ایشوز ہی سب چیزوں پر حاوی ہوں گے یعنی روٹی اور کرپشن اس کے لئے اگر ملک میں انتخابات ہوجاتے ہیں تو پھر عوام کو خود فیصلہ کرنا ہوگا کہ سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کی اہلیت یا انتخاب کے لئے وہ کیا کرتے ہیں اس لئے کہ نئی سیاسی قیادت لانے کا فیصلہ عوام کو کرنا ہے اور اگر وہ صحیح نمائندے نہیں چنتے تو اس کی سزا انہیں ہی بھگتنی ہوگی ۔
تازہ ترین