• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایم کیو ایم، پارلیمنٹ کا غصہ اور شہباز شریف کامشورہ

خواہش تو تھی کہ ایم کیو ایم کی طرف سے قومی اسمبلی میں نجی ٹی وی چینلز پر دکھائے جانے والے اخلاق سے گرے ہوئے غیر ملکی ڈراموں اور فلموں پر اٹھائے جانے والے حالیہ اعتراض پر تفصیل سے لکھوں اور ایم کیو ایم کے اس اقدام کی تعریف کروں مگر سپریم کورٹ کی طرف سے پارٹی قائد الطاف حسین کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیے جانے کے بعد کراچی اور سندھ کے کچھ دوسرے شہروں میں فائرنگ کے باعث انتہائی کشیدہ صورتحال پیدا ہو گئی جس نے ایم کیو ایم کے اول الذکراقدام پر پانی پھیر دیا اور پوری قوم کی توجہ کراچی کی طرف مبذول کروا دی اور سب کو یہ فکر لاحق ہو گئی کہ یہ کشیدگی اب کیا رخ اختیار کرتی ہے۔ اگرچہ ٹی وی چینلز اور اخبارات فائرنگ اور کشیدگی کے بارے میں خبریں دیتے رہے مگر اس بات کا واضح تعین نہ کیا گیا کہ فائرنگ کر کے خوف و ہراس پیدا کرنے والے کون تھے اور ان کا کس جماعت سے تعلق تھا۔ مگر سوشل میڈیا میں اس ہڑتال کی ذمہ داری ایم کیو ایم پر ڈالی جا رہی ہے، جبکہ میڈیا کو کوسا جا رہا ہے کہ وہ ڈر اور خوف کی وجہ سے متحدہ کا نام لینے سے گریزاں ہے۔ اس کے دفاع میں متحدہ کے میڈیا انچارج واسع جلیل کی کچھ ای میلز بھی نظر سے گزریں جنہوں نے فائرنگ کے واقعات سے ایم کیو ایم کی مکمل لاتعلقی کا اظہار کیا۔حقیقت جو بھی ہو مگر اکثر لوگوں کو ایم کیو ایم پر ہی سب شک گزرا کیوں کہ سپریم کورٹ کی طرف سے الطاف حسین صاحب کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنے کے چند گھنٹون کے اندر کراچی اور سندھ کے کچھ دوسرے شہروں میں کشیدگی کی صورتحال پیدا ہو گئی اور فائرنگ کے واقعات کے بعد بازار اور دکانیں بند ہو گئیں، اسکولوں اور کالجوں میں بھی بچوں کو چھٹیاں دے دی گئیں، امتحانات ملتوی ہو گئے، سڑکوں پر سے ٹرانسپورٹ غائب ہو گئی، پٹرول پمپ بند کر دیے گئے اور ایسا ماحول پیدا ہو گیا کہ جیسے سب کو انتظار ہو کہ کب کس کا خون بہے گا۔ اس نوٹس کے دوسرے دن بھی کشیدگی جاری رہی مگر ایم کیو ایم کی طرف سے پرامن احتجاجی جلوس نکالے گئے۔ اگرچہ ایم کیو ایم کی اعلٰی قیادت کی طرف سے پارٹی ورکرز کو پر امن رہنے کی اپیل کی گئی تھی مگر میری ذاتی رائے میں اس مسئلہ پر پر امن احتجاج کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ قانون کی جنگ قانونی طریقے سے ہی لڑی جانی چاہیے اور عدالتوں کو سیاسی دباؤ سے مرعوب کرنے کی کوئی بھی کوشش نہیں کی جانی چاہیے۔ مناسب یہ ہو گا کہ الطاف حسین عدالت میں اپنا قانونی دفاع کریں۔ اگر ایم کیو ایم یہ کہتی ہے کہ اُس کے کارکن عدالتی اقدام سے ناراض ہیں تو یہ پارٹی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ اپنے ورکرز کو سمجھائے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ قانون کے دائرے میں رہیں۔ ماضی میں ہم نے دیکھا کہ سپریم کورٹ سے خفگی پر پاکستان مسلم لیگ ن کی طرف سے حملہ کیا گیا، گزشتہ ساڑھے چار سالوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے اعلٰی عدلیہ کی بارہا توہین و تصحیک کی گئی اور اس کے احکامات اور فیصلوں کی بار بار خلاف ورزی کی گئی۔ چند سال قبل جب12 مئی 2007 کے واقعہ کی تحقیقات کے لیے سندھ ہائی کورٹ نے کارروائی شروع کی تو عدالت کا ایم کیو ایم کی طرف سے گھیراؤ کیا گیا۔ ایسا کوئی بھی اقدام کسی بھی پارٹی کی طرف سے ہو وہ قابل مذمت ہے ۔ کیا دنیا کے کسی دوسرے ملک میں اس انداز میں عدلیہ کے فیصلوں پر ردعمل ظاہر کیا جاتا ہے۔ قانون کی جنگ قانونی طور پر ہی لڑی جانی چاہیے۔ ایم کیو ایم کی ساکھ کے لیے بہتر یہی ہو گا ہڑتالوں اور احتجاجوں کا سہارا لینے کی بجائے وہ اپنے بہترین قانونی اور آئینی ماہرین کے ذریعے اپنے پارٹی لیڈر کا عدالت عظمٰی میں دفاع کریں اور جو بھی فیصلہ آئے اس کو دل سے تسلیم کریں۔ متحدہ کے قائدین سے یہ بھی گزارش ہے کہ وہ اپنے قائد کے دفاع میں فیصل رضا عابدی کی مثالیں نہ دیں۔ ایم کیو ایم کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کراچی کی ہڑتالوں اور کشیدگی سے کراچی کے شہری براہ راست متاثر ہو رہے ہیں جن کی اکثریت کا تعلق خود متحدہ سے ہے۔ گزشتہ ہفتہ عمر چیمہ کی طرف سے پارلیمنٹیرینز کے ٹیکس گوشواروں کی تفصیلات سامنے آنے پر کچھ اسی قسم کا درعمل سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اراکین کی طرف سے سامنے آیا جو قابل افسوس تھا۔ بجائے اس کے کہ اپنے رویہ پر شرمندگی کا اظہار کیا جاتا میڈیا کو ہی کوسنا شروع کر دیا۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ اُن کو آئینہ دکھایا تو بُرا مان گئے۔میڈیا سے صرف یہ جرم سرزد ہو کہ اُس نے کروڑوں اور اربوں کے مالک، بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومنے اور محلات جیسے گھروں میں رہنے والوں کو یہ باور کرانے کو شش کی کہ ان میں سے کون قومی خزانے میں کتنا ٹیکس جمع کراتا ہے۔ اپنے پارلیمنٹیرینز کے بارے میں حقیقت جان کر ٹیکس ادا کرنے والا عام پاکستانی یہ سوال پوچھتا ہے کہ وہ کیوں ٹیکس دے جب ہمارے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اراکین کی ایک بڑی اکثریت (تقریباً 300 ممبرز) ٹیکس گوشوارے بھی جمع کرنے کی زحمت نہیں کرتی اور جب ایسے افراد میں اسفندیار ولی، مخدوم امین فہیم، فیصل کریم کنڈی، فیصل صالح حیات، گجرات کے چوہدری برادران، آفتاب شیر پاؤ، حاجی غلام بلور، ڈاکٹر ارباب عالمگیر، نذر محمد گوندل، میاں منظور وٹو، میرہزار خان بجارانی، جام یوسف، فرزانہ راجہ، مولا بخش چانڈیو، ندیم چن وغیرہ شامل ہوں گے توپھر ٹیکس دینے والے اپنے آپ کو بیوقوف کیوں نہ سمجھیں گے اور انہیں اس بات پر کیوں نہ تکلیف ہو گی کہ اُن پر حکمرانی کرنے والے اُن کے پیسے سے عیاشی تو کر رہے ہیں مگر خود کوئی ٹیکس نہیں دیتے۔ سابق وزیراعظم گیلانی نے 2009 میں پہلے بار اپنے آپ کو ٹیکس اتھارٹی کے سامنے رجسٹر کیا مگر آج وہ اور ان کے بچے کئی گھروں اور کروڑوں کے مالک ہیں۔ جب میڈیا عوام کو اُن کے لیڈروں کے اصل چہرے دکھاتا ہے تو وہ سب شور مچاتے ہیں کہ یہ کوئی سازش ہے اور میڈیا یہ سب کچھ کسی کے کہنے پر سیاستدانوں کو بدنام کرنے کے لیے کر رہا ہے۔ یہاں تو اپنے آپ کو ارسطو سمجھنے والوں نے بھی یہ مطالبہ کر دیا کہ میڈیا مالکان کے بھی ٹیکس گوشوارے سامنے لائے جائیں۔ بھئی ایسا کرنے آپ کو اور حکومت کو کس نے روکا۔ ہر ٹیکس چور کو پکڑیں مگر ایسا نہیں ہو سکتا کہ حکمران خود تو ٹیکس چور ہوں مگر دوسروں سے ٹیکس دینے کی توقع رکھتے ہوں ۔ کتنے شرم کی بات ہے کہ پاکستان میں ٹیکس دینے والوں کی اوسط افغانستان اور صومالیہ سے بھی بدتر ہے۔وزیر اعلیٰ پنجات شہباز شریف نے بپھرے ہوے پارلیمنٹیرینز کو خوب مشورہ دیا ہے کہ وہ میڈیا کی اس رپورٹ سے سبق سیکھیں اور خود ٹیکس دے کر اپنے آپ کو عوام کے لیے رول ماڈل کے طور پر پیش کریں۔ عمر چیمہ کے مطابق شہباز شریف پنجاب اسمبلی میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے ممبر ہیں جبکہ دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ میں سے کوئی بھی ٹیکس نہیں دیتا۔
تازہ ترین