• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی نومنتخب حکومت کیلئے ابتدائی چند ماہ بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، نظام کی خامیاں دور کرنے اور عوامی مسائل حل کرنے میں اگرچہ یہ چند ماہ ناکافی ہوتے ہیں لیکن ان میں سمت کا تعین اور لائحہ عمل ضرور طے ہو جاتا ہے کہ مسائل کو حل کیونکر کیا جائے گا۔ تاریخ میں ایسا پروگرام امریکی صدر روز ویلٹ نے دیا اور ابتدائی سو دنوں میں جو قانون سازی کی اسے امریکی ترقی میں تاریخی مانا گیا۔ ملائیشیا کے رہنما مہاتیر محمد نے بھی اقتدار میںآنے سے قبل سو روزہ منصوبہ پیش کیا لیکن پھر انہیں عوام کے سامنے تسلیم کرنا پڑا کہ یہ ایک ناقابل عمل ایجنڈا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ ملکی نظام کی کوئی بھی کل سیدھی نہ تھی، نئی حکومت کو پاکستان بھی ابتر حالت میں ملا جن کی اصلاح کے لیے تحریک انصاف نے الیکشن سے پہلے سو روزہ پروگرام پیش کیا تھا۔وزیر اعظم عمران خان نے اس پروگرام پر عمل درآمد کاجائزہ گزشتہ روز قوم سے اپنے خطاب میں پیش کیا۔ جائزے میں قانون سازی تو دکھائی نہیں دیتی البتہ معاہدے اور منصوبے سامنے آئے ہیں اور ان میں بھی اکثر کے لئے مستقبل کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے شاید اس لئے کہ خود بقول وزیراعظم ’’مجھے بھی اندازہ نہ تھا کہ یہاں اتنی کرپشن کی گئی ہے‘‘۔ اپنی حکومت کی 100روزہ کارکردگی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اصلاحات پر عملدرآمد شروع کر کے نئے پاکستان کی بنیاد رکھ دی ہے، لوٹی گئی دولت واپس لانے کیلئے 26ملکوں سے معاہدے کئے، تجاوزات، قبضہ مافیا اور بجلی چوروں کے خلاف کارروائی کررہے ہیں، اسمگلنگ کی روک تھام، ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ، سیاحت کو فروغ، ایک تعلیمی نظام اور 50لاکھ مکان بنائیں گے۔ عوام کو انصاف کارڈ دیں گے،منی لانڈرنگ کے 11ارب ڈالر واپس لائیں گے، ہمیں مائنڈ سیٹ بدلنا ہے۔ کرپشن پر قابو نہ پایا تو ملک کا کوئی مستقبل نہیں، تخفیف غربت اتھارٹی قائم کی جائے گی، زکوٰۃ، بیت المال اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو ایک کمانڈ میں لائیں گے، بیوروکریسی اور سیاسی کلاس میں اب تک یہ شعور نہیںآیا کہ جب تک سرمایہ کار پیسہ نہیں بناتا بزنس فروغ نہیں پاتا۔ پہلے 100دنوں میں بہت سے سرمایہ کار پاکستان آئے ہیں، ہم کاروبار کوآسان بنائیں گے، برآمدات، ترسیلات زر میں اضافے اور ٹیکس سسٹم کی اصلاح کی جائے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ قرضوں پر یومیہ 6ارب روپے سود دیتے ہیں جبکہ ملک میں ہر سال 50ارب کی بجلی چوری ہوتی ہے۔ اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ تحریک انصاف نے اس وقت زمام حکومت سنبھالی جب ملک معاشی، اقتصادی، سماجی اور ادارہ جاتی بحرانوں کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ حالت یہ ہے کہ پچھلے قرضوں کا سود ادا کرنے کیلئے نئے قرضے لینا پڑ رہے ہیں۔ بلاشبہ ان حالات میں ملک کو بحرانوں سے نکالنا اور ترقی کی راہ پر ڈالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے البتہ حکومت اور خاص طور پر وزیراعظم کا عزم لائق ستائش ہے کہ وہ ملک کو مشکل سے نکالنے کیلئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کررہے۔ وزیراعظم نے 100روزہ حکومتی کارکردگی کے جائزے میں جن عزائم کا اظہار کیا ہے لاریب کہ ان پر عملدرآمد سے ملک کے دلدر دور ہوسکتے ہیں تاہم یہ بھی یادرکھنا ہوگا کہ ایسے خیالات کا اظہار کم و بیش سبھی جماعتیں کرتی رہیں لیکن کامیابی حاصل نہ کر پائیں تو اس کی وجہ تلاش کی جانی چاہئے تاکہ اس وجہ کو دور کر کے ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالا جاسکے۔ وزیر اعظم کے خطاب میں زراعت کا ذکر نہیں تھا حالانکہ اسے ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ وزیراعظم کا یہ اعتراف کہ ’’اندازہ نہ تھا یہاں اتنی کرپشن ہوئی‘‘ ظاہر کرتا ہے کہ ان کی ٹیم کا ہوم ورک مکمل نہ تھا چنانچہ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر پر تنقید کی جاتی رہی ہے کہ اب تک کوئی بھی ایسا اقدام ان کی طرف سے سامنے نہیںآیا جو سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرسکے۔ سردست لازم ہے کہ حکومت اپنے اہداف پورے کرنے پر توجہ دے ، اور اپوزیشن سمیت مشاورت کا دائرہ وسیع کرکے بہتر تجاویز کے راستے کھولے ۔ حکومتی منصوبوں کے ثمرات اسی صورت میں سامنے آئیں گے جب ان پر عمل کیا جائے گا۔ لہٰذا ان پر فوری طور پر کام شروع کیا جانا چاہئے تاکہ ترقی کے خدوخال نمایاں ہونا شروع ہوں اور ملک کے روشن مستقبل پر قوم کا اعتماد مستحکم ہو۔

تازہ ترین