• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اکیاون برس کی پیپلزپارٹی اسٹیبلشمنٹ کی بدترین دشمن، محلاتی سازشوں، بدنامیوں اور بہتان تراشیوں کے باوجود تاریخ کا ایسا سچ ہے، جسے آمریت کے زہرسے مارا جاسکا نہ ہی جھوٹ کے اندھیروں میں دفنایا جاسکا۔ 30نومبر 1967ءکو معرض وجود میں آنے والی اس سیاسی جماعت کا ہر ظلم و ستم کے مقابلہ میں واحد ہتھیار ’’ووٹ کی پرچی‘‘ رہا جسے اسکے کارکنوں نے ہمیشہ اپنی بند مٹھیوںمیں دبائے رکھا اور بھٹو ازم کو اپنا عقیدہ بنانے والے غریب اور کمزور طبقے نے جب بھی موقع ملا، حق رائے دہی کے ذریعہ دھرتی کا یہ قرض چکا دیا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے والد سر شاہنواز سیاست کے مخالف تھے۔ ان کا خیال تھا کہ سیاست ایک ایسا کھیل ہے جس کا اختتام ہمیشہ المناک ہوتا ہے۔ وہ اپنے بیٹے کو خوشحال اور مطمئن دیکھنا چاہتے تھے لیکن اس کا کیا علاج کہ اس کے خون میں پیدائشی طور پر انقلاب کے جرثومے پرورش پا کر اس قدر توانا ہوچکے تھے کہ وہ سیاست اور عوامی خدمت کے بغیر زندگی کوہی کارِ لاحاصل گردانتا تھا اور پھر تمام تر مخالفت کے باوجود بھٹو کار زارِ سیاست کا شہسوار بن گیا۔ اسکندر مرزا اور ایوب خان کی کابینہ میں وزارت کے بعد 1962میںپاکستان کا وزیرخارجہ بنا لیکن اس سیماب صفت نوجوان کا اضطرار قرار نہ پکڑ پایا۔ جنوری 1966 میںایوب حکومت سے علیحدہ ہوا، 30نومبر 1967کو پاکستان پیپلزپارٹی کے نام سے ایک نئی سیاسی پارٹی بنا کرجلد ہی ’’قائد ِ عوام‘‘ بن گیا۔ وہ گھور اندھیرے میں چاندنی سے لفظ اور جگنوئوں سے اُجالے مانگ کر آگہی کے شکستہ طاقوں میں چراغ جلاتا رہا تاکہ اس بدن دریدہ قوم کوروشن صبح کا نیا راستہ دکھا سکے اور پھر چشم عالم نے حیرت زدگی کے ساتھ دیکھا کہ کس طرح ایک نوزائیدہ سیاسی جماعت کے کارکنوں اور اس کی قیادت نے مایوسی اور شکست خوردگی کی شکار قوم کو ترقی اور خودداری کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے ایسی قربانیاں دیں کہ اس کرہ ٔ ارض پر معرض وجود میں آنے والی کسی سیاسی پارٹی کی زندگی میں ایسی مثال ملنا مشکل ہے!بھٹو کون تھا، اس کی جدوجہد کیا تھی اور پیپلزپارٹی کیا ہے۔ آیئے یہ کہانی خودبھٹو کے اپنے الفاظ میں سنتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اپنی کتاب ’’میرا پاکستان‘‘ میں کہتے ہیں:’’میں نے طبقاتی منافرت نہیںپھیلائی۔ ہاں البتہ مظلوم عوام کا عَلم یقیناً بلند رکھا ہے اور ان کے حقوق دلانے کیلئے جدوجہد کی ہے اور میں اس وقت تک آرام سے نہیںبیٹھوں گا جب تک یہ مقدس مقصد حاصل نہیں کرلیتا۔ اگر میری زندگی میں ایسا نہ ہوسکا تو مرتے وقت آخری الفاظ میں اپنے بچوںسے وعدہ لوںگا کہ وہ اس مقصد کی تکمیل کریں۔ میں اسی مقصد کیلئے پیدا ہوا تھا۔ میںنے اس غریب ملک کے ہر غریب ماں باپ کے محروم ہاتھوں میں جنم لیا۔ میں صدیوںسے روتی ہوئی آنکھوںسے آنسو پونچھنے کیلئے ملک کے سیاسی افق پرشہاب ِ ثاقب کی طرح اُبھرا۔ میں تاریکیوں کو چھٹانے اور غلامی کی زنجیریںتوڑنے کیلئے حضرت علی ؓ کی تلوار لے کر آیا۔ مجھے کوئی ترغیب و تحریص عوام کے راستے سے نہیںہٹا سکتی۔ میں ان کے حقوق کیلئے لڑتا رہوںگا۔ میں انصاف کے حصول کی عظیم جدوجہد میں انہیں قیادت مہیا کرتا رہوںگا۔ میں اپنی آواز کے زور سے ان کی آواز میں زور پیدا کروں گا۔ میں ان کی گاڑی کو آگے بڑھانے میںاپنی پوری طاقت لگائوںگا۔ اس فرض کو ادا کرتے ہوئے میںاسلام کی طرف سے عائد کی گئی بھاری ذمہ داری نبھا رہا ہوں اور ایک انسانی مشن پورا کر رہا ہوں۔ طاقت کا پلڑا اس طبقے کے حق میں پورا پورا جھکا ہوا ہے جس نے صدیوں در صدیوں سے تاریک گھروندوں پر حکومت کی۔ سر سے پیر تک مسلح، ناقابل تسخیر حد تک محفوظ پنڈتوںاور ڈاکوئوں کا یہ طبقہ بے زبانوںکو میری کمزور سی آواز مل جانے پرکیوںدانت کاٹنے لگتا ہے۔ کیوں خوفزدہ ہوجاتا ہے۔‘‘ پیپلزپارٹی کے وجود اور اس کے سیاسی فلسفہ پر تنقید کرنے والوںکو جب تک طبقاتی تضادات کا تاریخی مطلب سمجھ میںنہیں آتا انقلاب کا مطلب بھی نہیں سمجھایا جاسکتا۔ انقلاب ایک خوبصورت لفظ ہے۔ انقلاب تاریخ کی قوسِ قزح ہے۔ انقلاب کا مطلب ہے ناانصافی اور عدم مساوات کا خاتمہ، استحصال اور آمریت کا خاتمہ۔ انقلاب کا مطلب ہے نوع انسانی کی آزادی، جمہوریت پسند عوام کا حق خودارادیت، نسل پرستی کا خاتمہ اور مجبور قوموں کیلئے انصاف کے اصولوں پر مبنی نیا عالمی اقتصادی نظام۔ ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی وجدان نے آج سے 40برس پہلے ہی پیش گوئی کردی تھی۔ ’’عوام پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ ہیںاور میری قیادت کے حامی ہیں۔ ماضی میں بھی میری پارٹی کا شیرازہ منتشر کرنےکی سازشیں ناکام رہیں۔ اس وقت اور آئندہ بھی ان سازشوں کے مقدر میں ناکامی کے سوا کچھ نہیں۔ انقلابی جماعتیں نہیں بلکہ رجعت پسند جماعتیں آسانی کے ساتھ ٹوٹ جایا کرتی ہیں۔کیک اور حلوے پر ان کا شیرازہ منتشر ہوجاتا ہے لیکن صحیح معنوں میں انقلابی جماعت نہ ٹوٹتی ہے، نہ تقسیم ہوتی ہے کیونکہ عوام فاقوںکوتقسیم نہیںکرتے۔ املاک کے حصے بخرے کرنا ممکن ہے لیکن غربت کی تقسیم ممکن نہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی ملک کی سب سے بڑی قومی جماعت ہے۔ اسکی جڑیں ہر جگہ ہیں لیکن سندھ اور پنجاب میں یہ جڑیں بالکل غیرمتزلزل ہیں۔ عظیم عوام کی یہ عظیم جماعت سیاسی آدم خور نہیںبن سکتی۔ یہ صوبائی عصبیت میں الجھ کر اپنے ہی ہم جنسوں کو نوالہ نہیںبنا سکتی۔ جس طرح ایک فوج اپنا اسلحہ خانہ تباہ کرکے جنگ نہیں لڑ سکتی، اسی طرح پاکستان پیپلزپارٹی اپنے سیاسی درخت کی شاخیں نہیںکاٹ سکتی۔‘‘ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر بینظیر تک بھٹو خاندان کے ہر فرد نے اپنی زبان سے ادا کئے ہوئے ایک ایک لفظ کو اپنے خون سے جلا بخشی۔

‘‘بھٹو صاحب نے اپنی بیٹی سے کہا ’’میرے بعد زندہ رہنا تو ایک بہادر کی طرح اور مرنا تو ایک دلیر کی طرح‘‘ اور اس کی بیٹی نے یہ وعدہ اپنا خون دے کر نبھایا۔ پیپلزپارٹی ا ور بھٹو خاندان کے ساتھ پاکستان کے عوام کا رومانس جاری ہے۔آمریت اور اس کی باقیات کے خلاف جمہوریت پسند نبردآزما ہیں۔ آج آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو اس بینظیر جنگ کے سپہ سالار ہیںاور یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک محروم طبقوں کی امیدیں زندہ اور پیپلزپارٹی سے وابستہ ہیں۔

تازہ ترین