• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے موجودہ پاکستان میں شامل شاداب تہذیبی خطے کی متحدہ ہندوستان میں وہی حیثیت و اہمیت تھی جو کسی جسم میں سر یا چہرے کی ہوتی ہے جنوبی ایشیاء کی یہ سرزمین جسے صدیوں ہندوستان کے نام سے پہچانا جاتا رہا اور علامہ اقبال ؒ نے فخر سے کہا کہ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا۔ ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا‘‘۔ اس پر اگر ہم مسلمانوں نے اپنا وطن سمجھ کر ہزار سال حکومت کی تو انگریزوں نے اپنا وطن نہ سمجھتے ہوئے بھی ایک صدی تک نہ صرف حکمرانی کی بلکہ اپنے سائنسی اور ماڈریٹ ویژن سے تعمیر و ترقی کرتے ہوئے محض ایک صدی میں یہاں موجود پسماندگی کا کسی حد تک خاتمہ کر ڈالا۔ اگرچہ متحدہ ہندوستان کی یہ بد قسمتی تھی کہ قدرتی وسائل سے مالا مال یہ خوشحال ملک پیہم بیرونی حملوں کی زد میں رہا۔ سونے کی اس کان کو بار بار لوٹا گیا لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اس عظیم الشان ملک نے کبھی کسی ہمسائے یا غیر ہمسائے کو لوٹا نہ قبضہ جمایا انگریز دور کی چند استشنائی مثالیں ضرور ہیں لیکن تب بھی چین ،ایران اور افغانستان کی خود مختاری تاریخی طور پر ثابت ہے۔

مذہبی و تہذیبی حوالوں سے اس سر زمین پر بڑی بڑی جلیل القدر اور او لوالعزم ہستیوں نے جنم لیا جن میں سے حضرت بابا گورونانک دیو جی مہاراج ہیں ۔بابا جی کی سوچ یا فکری بلندی یہ ہے کہ انہوں نے خطے میں آباد ہندو اور مسلم ہر دو مذاہب و اقوام کو باہم قریب لانے کے لیے پل کاکام کیا۔ مشرقی (بھارتی) پنجاب ہی نہیں دنیا بھر میں بسنے والے بابا نانک مہاراج کے کروڑوں پیرو کاران کو کبھی یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کے بابا جی کا اولین پیغام محبت ہندو مسلم دوئی کو یکجائی اور بیر کو دوستی میں بدلنا تھا ۔رائے تلونڈی (موجودہ ننکانہ صاحب ) میں جنم لینے والی اس مہان ہستی نے عرفان و معرفت کا فیضان پانے کے بعد جب 1521میں کرتار پور کو اپنا مسکن بنایا تو پھر اس ’’خدا کی بستی‘‘ سے ڈیرہ نانک تک پورے اٹھارہ سال ’’ست سری اکال ‘‘ یا ایکتا کا نعرہ ہی اُن کا بنیادی پیغام تھا۔ آج اگر اس خطہ ارضی کے لوگوں کو یہ خیال آیا ہے کہ کرتار پور کو ڈیرہ بابا نانک سے ملا کر کھلے بندوں آنے جانے کی راہداری قائم کر دی جائے تو یہ راہداری اس خطے کے کروڑوں باسیوں کے دلوں اور دماغوں کو چھو کر گزرنی چاہیے اس کا کریڈٹ کسی ایک فرد ،ادارے ،گروہ یا مذہب کو نہیں بلکہ بابا گورونانک دیو جی مہاراج کے پیغام محبت و وحدت کے تمام قدر دانوں کو جاتا ہے ۔اس حوالے سے جو تقریبات ہو رہی ہیں، ان میں پیغامِ نانک کے حوالے سے دوستی و محبت کی جو تقاریر کی جا رہی ہیں انہیں دیکھ اور سن کر ہمیں دلی مسرت ہو رہی ہے لیکن جس قابلِ توجہ کوتاہی کی طرف ہم توجہ مبذول کروانا چاہتے ہیں وہ بس اتنی ہے کہ اس رواروی میں رواداری کا نہ صرف پورا خیال رکھا جائے بلکہ کسی بھی صورت کسی کی دل آزاری کا کوئی پہلو وقوع پذیر نہیں ہونا چاہئے۔

متحدہ پنجاب کے سابق حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کی بارہ دری کے سائے میں بھارتی مہمانوں کے اعزاز میں جو ضیافت دی گئی اس میں وزیر اعلیٰ و گورنر پنجاب وفاقی و صوبائی وزراء ، صحافیوں اور بیوروکریٹس کے علاوہ انڈیا سے آئے ہوئے صحافتی و مذہبی و فود نے بھی شرکت کی ۔ ہمیں زیادہ خوشی پاکستان میں انڈین ہائی کمشنر جناب اجے بساریہ اور دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر جناب سہیل محمود سے ملاقات پر ہوئی۔ہر دو شخصیات سے ماقبل تفصیلی ملاقاتیں ہو چکی ہیں ۔ سہیل محمود جب ترکی میں پاکستان کے سفیر تھے تو استنبول میں ڈاکٹر حلیل توقار کی دعوت پر انہوں نے اردو کانفرس میں ایک دن ہمارے ساتھ گزارا تھا۔آج جب ان سے ملاقات ہوئی تو بولے کہ آپ کا دوست اسد مجید بحیثیت سفیر جلد واشنگٹن جا رہا ہے۔ اسی طرح انڈین ہائی کمشنر اجے بساریہ پاکستان میں اپنی تعیناتی کے بعد پہلی مرتبہ جب لاہور تشریف لائے تو سجاد پیر زادہ کے ساتھ ایک دن ان کے ساتھ گزارنے کا موقع ملا اس دوران ہم نے اکٹھے شاہی قلعہ، شاہی مسجد اور شاہی حمام کی سیاحت بھی کی۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے جنگ میں چھپنے والا آپ کا کالم پڑھا تھا۔کئی احباب ان دنوں استفسار کر رہے ہیں کہ کرتارپور کوریڈور پروجیکٹ کی اچانک بازیابی یا حالیہ امن بریک تھرو کا شانِ نزول کیا ہے ؟ اگرچہ مشکل ہے عرضِ حال کہنے سے ہو ملال پھر بھی عرض ہے کہ یہ سب اصل حکمرانوں کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ کب کون سا قدم اٹھاتے ہیں۔ آج ستم ظریفی حالات قابلِ ملاحظہ ہو کہ دنیا کی اکلوتی سپر پاور میں اقتدار کے سنگھاسن پر ایک ایسا تین میں سے تیسرا idiot براجماں ہے جس کی غیر ذمہ دارانہ بڑ بڑاہٹ کی کچھ پیش بندی نہیں کی جا سکتی، کچھ معلوم نہیں کب کیا اور کیسی ہانک دے۔ اربوں کی گرانٹ کو اس نے بیک جنبشِ قلم ختم کر ڈالا ہے آنے والے دنوں میں اس سے کچھ بعید نہیں کہ وہ ایرانیوں کو دی جانے والی دھمکیاں کچھ آگے تک ہی نہ بڑھا دے۔ ہمسایہ ملک سے گہری دوستی کا یہ عالم ہے کہ وہ ہمیں مفت کی ایک پیالی چائے پلانے کی بھی روادار نہیں جبکہ ہمیں تو کئی دہائیوں سے عادت ہی مفت بری کی پڑی ہوئی ہے، جو قرضے دیئے جارہے ہیں ان کی شرائط بھی کڑوی گولیاں نگلنے جیسی ہیں دیگر ہمسائے بھی ہم سے بری طرح نالاں ہیں ۔ایسے میں کیا بہتر نہیں کہ ہم سب کو کرتارپور پاؤں جمانے کے کچھ نہ کچھ مواقع فراہم کر دیںاور اپنے ’’ازلی دشمن‘‘ کی موجودہ قیادت کو بھی کڑے امتحان میں ڈال دیا جائے ۔اگر وہ بابا جی کے متوالوں کو ناراض کریں گے تو آنے والے چناؤ میں منہ کی کھائیں گے اور اگر راضی کریں گے تو سری رام چندر جی کے جیالے سوال اٹھائیں گے کہ اب آپ میں اور اندرا کی کانگریس میں کیا فرق رہا؟

باقی رہ گیا بابا گرو نانک مہاراج کی محبت بھری تعلیمات کا پھیلاؤ اور ان کے عقید تمندوں کا رچاؤ تو اس سے کس کو انکار ہو سکتاہے ۔آگ اور خون کے دریا سے گزرنے اور ذلتوں کے دھکے کھانے کے بعد درویش کا تمام طاقتوروں کو مشورہ ہے کہ امن کی آشا پر مبنی اس ٍرمز کو سمجھ جائیں یہ کہ دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے ۔

تازہ ترین