• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نمازِ عشاء میں کچھ دیر تھی، چناں چہ ہم بابِ بقیع کے برابر میں واقع، بابِ جبرائیلؑ سے ایک مرتبہ پھر مسجد نبویؐ میں چلے گئے۔ بائیں جانب مقصورہ شریف کا وہ حصّہ ہے، جس میں سیّدہ فاطمۃ الزہرا ؓکا حجرۂ مبارک تھا، جب کہ دائیں جانب،’’ اصحابِ صفّہ‘‘ کا وہ مشہور و معروف چبوترا ہے، جو اسلام کی پہلی درس گاہ تھا کہ جہاں سرورِ کونین ﷺ بنفسِ نفیس تعلیم دیا کرتے تھے۔ یہ فقر و غنا میں مبتلا مساکین کی رہائش گاہ بھی تھی اور اقامتی درس گاہ بھی۔ وہاں عاشقانِ رسولﷺ کا ازدحام تھا، سو ہم’’ صفّہ‘‘ کے ساتھ ہی کھڑے تھے، آگے بڑھنے کی جگہ تھی اور نہ واپس جانے کی۔ اچانک دلِ ناتواں کے کسی گوشے سے ایک خواہش نے جنم لیا’’ کاش عشاء کی نمار صفّہ پر ادا ہو جائے‘‘، لیکن ایسا ممکن نہ تھا، کیوں کہ ہماری طرح اور بھی بہت سے لوگ یہی آرزو لیے کھڑے تھے۔ عشاء کی نماز کا وقت ہونے ہی والا تھا کہ اچانک صفّہ پر بیٹھے ایک انڈونیشیا کے نوجوان نے ہمارا ہاتھ پکڑا اور اپنے پہلو میں جگہ بناتے ہوئے بیٹھنے کی دعوت دی۔ ہم نے اُس کا شُکریہ ادا کیا، شاید وہ ہمارے لباس سے ہماری قومیت کا اندازہ لگا چکا تھا، محبّت بَھری مُسکراہٹ کے ساتھ گویا ہوا’’ پاکستانی برادر؟‘‘ ہم نے بھی گرم جوشی سے سر ہلا دیا۔ عشاء کی نماز کے بعد ہوٹل پہنچے، تو بیگم اور بھانجی بھی آ چکی تھیں۔ ڈنر چند منٹ کی مسافت پر واقع بھانجی کے گھر تھا، سو ہم اُن کے گھر روانہ ہوگئے۔پُرتکلّف دعوت کے اختتام پر بھانجی کے شوہر نے ہمیں واپس ہوٹل چھوڑا، تو رات کے گیارہ بج رہے تھے۔

حسبِ پروگرام صبح سوا تین بجے ہوٹل سے نکلے۔ اہلیہ، بابِ علیؓ سے خواتین کے حصّے میں چلی گئیں اور ہم باب السّلام کی جانب بڑھ گئے،کیوں کہ یہ راستہ سیدھا ریاض الجنّہ اور روضے شریف تک جاتا ہے، جہاں سلام کر کے بابِ بقیع سے باہر نکل جاتے ہیں، چناں چہ یہ دروازہ، عازمین کے لیے رات بھر کُھلا رہتا ہے۔ اُس وقت ریاض الجنّہ میں رش ذرا کم تھا، لہٰذا اطمینان سے محراب شریف اور ہر ستون کے سامنے نوافل ادا کیے۔ ایک زمانے میں عشّاق سبز جالیوں سے لگ کر تلاوت کر لیا کرتے تھے، لیکن اب ایک میٹر چوڑی منڈیر سی بنا دی گئی ہے، جہاں ایک محافظ بھی موجود رہتا ہے۔ بہرحال، تلاوت اور نمازِ فجر کے بعد حضور ﷺ کو سلام کرنے کے لیے قطار میں لگ گئے۔ قران پاک میں اللہ فرماتا ہے’’ اللہ اور اس کے فرشتے نبیﷺ پر درود بھیجتے ہیں۔ مومنو! تم بھی پیغمبرؐ پر درود و سلام بھیجا کرو‘‘(احزاب)۔ ہم درود و سلام کا ورد کرتے ہوئے ایک بار پھر دربارِ نبی ﷺ کے سامنے دست بستہ کھڑے تھے، اپنا سلام تو پیش کر دیا، لیکن ہمارے پاس اُن احباب کی بھی ایک طویل فہرست تھی کہ جنہوں نے بارگاہِ رسالتﷺمیں سلام پیش کرنے کی درخواست کی تھی۔ خواہش تھی کہ ہر شخص کا فرداً فرداً نام لے کر سلام پیش کریں، لیکن ابھی جیب سے فہرست نکالی ہی تھی کہ سامنے کھڑے محافظ نے ہاتھ کے اشارے سے منع کر دیا، چناں چہ فہرست جیب میں رکھی اور ادب و احترام کے ساتھ آگے بڑھ کر سیّدنا صدیقِ اکبرؓ اور سیّدنا عُمر فاروقؓ کو بھی سلام کیا، لیکن اس مرتبہ بابِ بقیع سے باہر جانے کی بجائے، واپس مڑ کر ہجوم کے پیچھے، سنہری جالیوں کے سامنے، ایک کونے میں بیٹھ گئے۔ جیب سے فہرست نکالی اور فرداً فرداً سب کا نام لے کر سرکارﷺ تک سلام پہنچایا۔ ہم جس جگہ بیٹھے تھے، وہ حضورﷺکی چوتھی زوجہ، اُمّ المومنین، سیّدہ حفصہ بنتِ عُمرؓ بن خطاب کا حُجرہ تھا۔آقا ﷺ کو سلام کیا اور بابِ بقیع کی جانب بڑھ گئے۔ سامنے ہی جنّت البقیع تھا، جس کی فضیلت کے بارے میں آپﷺ نے فرمایا’’ قیامت کے دن بقیع سے70ہزار افراد اُٹھیں گے، جن کے چہرے چودہویں کے چاند کی مانند چمک رہے ہوں گے اور یہ لوگ بغیر حساب کتاب جنّت میں داخل ہوں گے‘‘( المستدرک)۔ بقیع میں دس ہزار سے زیادہ صحابہ کرامؓ ، ہزاروں اولیائے کرامؒ، حضور ﷺکی ازواجِ مطہراتؓ ،صاحب زادیاںؓ ، صاحب زادےؓ اور دیگر اہلِ بیت مدفون ہیں۔ بقیع کے صدر دروازے کے دائیں جانب، 30میٹر کے فاصلے پر، رسول اللہﷺ کی صاحب زادیوںؓ کی قبریں ہیں اور ان کے نزدیک ہی، 9ازواجِ مطہراتؓ کی قبورِ مبارکہ ہیں۔ یہاں سے داہنی جانب، جنوب میں تقریباً 25میٹر کے فاصلے پر، حضرت عباسؓ، حضرت حسنؓ، حضرت زین العابدینؒ ،حضرت محمّد باقرؒ ،حضرت جعفر صادقؓ اور دیگر اہلِ بیت کی قبور ہیں۔ صدر دروازے سے سیدھے شمال مشرق کی جانب، بقیع کے وسط میں، تیسرے خلیفۂ راشد، حضرت عثمان ؓکی قبر ہے۔ ایک زمانے میں کئی قبور پر گنبد وغیرہ بھی بنے ہوئے تھے، جنھیں سعودی حکومت نے ختم کرکے تمام قبور کو ایک ہی شکل میں ترتیب دے دیا۔ پورے قبرستان میں آنے، جانے کے راستے بنا دیے گئے ہیں۔ اس قبرستان کو عازمین کے لیے فجر اور عصر میں کھولا جاتا ہے، تاہم خواتین کا داخلہ ممنوع ہے۔ خواتین کے لیے ریاض الجنّہ اور روضے شریف پر حاضری کے لیے باقاعدہ اوقات مقرّر ہیں۔ صبح7 سے10 بجے تک، دوپہر 1سے3بجے تک اور پھر رات 8 سے 10بجے تک ریاض الجنّہ اور اس سے ملحقہ حصّوں پر سفید قناطیں لگا دی جاتی ہیں۔ ہر مُلک کی خواتین کا گروپ تشکیل دے کر اُنہیں آگے لے جایا جاتا ہے۔بقیع کی زیارات سے واپس ہوئے، تو اشراق کا وقت ہو چُکا تھا۔ ضروری حاجات سے فارغ ہو کر ہوٹل ہی میں ناشتا کیا۔ اتنے میں چاشت کا وقت بھی ہو چُکا تھا۔ مسجد کا صحن قریب ہی تھا، چناں چہ مسجد کے صحن کی خُوب صورت، سفید، خود کار برقی چھتریوں کے نیچے نماز ادا کی۔ مسجد کے چاروں جانب یہ خود کار چھتریاں نصب کی گئی ہیں، جو برقی نظام کے تحت صبح کھول دی جاتی ہیں اور مغرب کے بعد بند کر دی جاتی ہیں۔ نمازِ چاشت پڑھ کر واپس ہوٹل آگئے۔ ہم نے اپنے معمولات کو اس طرح ترتیب دیا تھا کہ فرض نمازیں مسجدِ نبویﷺ میں ادا کی جاسکیں اور اس کے ساتھ مقاماتِ مقدسہ کی زیارت، دوستوں اور رشتے داروں کے یہاں دعوتیں، کھجوروں سمیت احباب کے لیے تحفے تحائف کی خریداری بھی ہوتی رہے۔

مسجدِ قبا، مسجدِ قبلتین اور غزوۂ خندق کی جگہ بنائی گئی مسجدِ فتح میں نوافل ادا کیے ۔ جبلِ احد اور غزوۂ احد کے شہداء کی قبورِ مبارکہ پر فاتحہ پڑھی۔ جبلِ رماۃ پر چڑھ کر غزوۂ احد کے میدانِ جنگ کا مشاہدہ بھی کیا۔ یہ وہی جبلِ رماۃ ہے کہ جہاں موجود تیر اندازوں کی ذرا سی غلطی نے جنگ کا پانسا پلٹ دیا تھا۔ باب السّلام سے باہر آئیں، تو مسجدِ نبوی کے جنوب مغربی جانب، تقریباً350 میٹر کے فاصلے پر مسجدِ غمامہ ہے اور اس کے جنوب مغرب میں 100میٹر کےفاصلے پر مسجدِ ابوبکرؓ ہے۔ اس سے 200میٹر کے فاصلے پر مسجدِ عُمرؓ بن خطاب ہے۔ یہاں سے 150میٹر کے فاصلے پر مسجدِ عثمان بن عفّانؓ ہے۔ مسجدِ غمامہ کے شمال مغرب میں 300میٹر کی دُوری پر مسجدِ علیؓ بن ابی طالب ہے۔ ان پانچوں تاریخی مساجد سے ذرا آگے بڑھیں، تو مدینے کا مشہور’’ کھجور بازار‘‘ آجاتا ہے، جہاں بے شمار اقسام کی کھجوریں دست یاب ہیں۔’’ تاریخِ کبیر‘‘ میں ایک سو انتالیس اقسام اور’’ خلاصتہ الوفاء‘‘ میں کھجوروں کی ایک سو تیس اقسام بیان کی گئی ہیں۔ عجوہ کھجور کا درخت حضور نبی کریمﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے لگایا تھا۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ’’ عجوہ، جنّت کی کھجوروں میں سے ہے اور یہ زہر کا تریاق ہے‘‘ (ترمذی شریف)۔ کھجور کی ایک اور قسم’’صخرۃ‘‘ ہے، جس کے بارے میں حضورﷺ نے فرمایا’’ عجوہ اور صخرۃ، دونوں جنّت کی کھجوروں میں سے ہیں۔‘‘ نیز، برنی کھجور بھی بہت مشہور ہے۔ حضرت ابوسعیدؓ سے مروی ہے کہ’’ کھجوروں میں سے بہترین کھجور، برنی ہے، جس میں شفا ہے‘‘ (ابنِ ماجہ)۔ یوں تو پورے مدینے میں جگہ جگہ کھجوروں کی دُکانیں ہیں، لیکن’’ کھجور بازار‘‘ میں زیادہ اقسام کی کھجوریں، مناسب دام میں دست یاب ہیں۔ مدینہ منورہ کے شمال مغرب میں تبوک روڈ پر ایک عظیم الشّان پر نٹنگ پریس ہے۔ جہاں دنیا کی تقریباً تمام زبانوں میں سالانہ ایک کروڑ سے زاید قرآن پاک کے نسخوں کی چَھپائی کا کام نہایت عقیدت و محبّت سے کیا جاتا ہے۔ پرنٹنگ پریس کی زیارت کے اختتام پر پریس کے عرب منیجر نے ہمیں قرآن پاک کے ایک خُوب صورت نسخے کا تحفہ پیش کیا۔ اس پریس کا نام’’شاہ فہد قرآن کریم پرنٹنگ پریس‘‘ ہے۔نیز، مسجدِ نبویﷺ کی پہلی منزل پر شمال میں اگر بابِ عُمرؓ سے اوپر جائیں، تو ایک بہت خُوب صورت اور وسیع لائبریری میں پہنچ جاتے ہیں، جس میں نادر کُتب کا بیش بہا ذخیرہ موجود ہے۔ یہ صبح اور شام عام زائرین کے لیے کُھلی رہتی ہے۔ شمالی صحن کے اختتام پر پرانی عمارت میں ایک تاریخی نمائش کا اہتمام کیا گیا ہے، جس میں مسجدِ نبویؐ کی ابتدا سے موجودہ دَور تک کی تاریخی تصاویر، موویز اور دیگر نادر اشیاء مدینے کی پُرانی تاریخ سے آگاہی فراہم کرتی ہیں۔

کسی دَور میں مدینے میں بہت سے مقدّس و متبرّک کنویں تھے، جن سے آقائے دوجہاںﷺ اور صحابہ کرامؓ کی یادیں وابستہ تھیں۔ اُن میں سے بیش تر کا ذکر اب صرف تاریخ کی کتابوں ہی میں ملتا ہے۔ مسجدِ قبلتین کے شمال میں ’’بئرِ رومۃ‘‘ ہے، جسے ’’بئرِ عثمان‘‘ بھی کہتے ہیں۔ یہ کنواں، ہجرت کے ابتدائی دنوں میں آنحضرتﷺ کی ہدایت پر حضرت عثمان غنیؓ نے ایک یہودی سے خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کردیا تھا، اب یہ خشک ہوچُکا ہے۔ مسجدِ قباء سے مغرب میں 38میٹر کے فاصلے پر’’ اریس‘‘ نامی ایک یہودی کا کنواں تھا، جو’’ بئرِ اریس‘‘ کہلاتا ہے۔ روایت میں ہے کہ آنحضرتﷺ نے اپنا لعابِ دہن اس کنویں میں ڈالا تھا۔ خلیفۂ سوئم، سیّدنا عثمان بن عفّانؓ کی انگوٹھی گرنے کا واقعہ بھی اسی کنویں پر پیش آیا تھا۔ یہ کنواں بھی خشک ہوچُکا تھا، پھر 1968ء میں سڑک کی توسیع کی زَد میں آکر اس کے نشانات بھی معدوم ہوگئے۔مسجدِ نبویؐ کے قریب ہی شمال میں حضرت ابوطلحہؓ کے باغات تھے۔ آنحضرتﷺ اکثر یہاں تشریف لاتے اور اس میں موجود’’ بئرِحاء‘‘ کا ٹھنڈا، لذیذ اور میٹھا پانی نوش فرماتے۔ یہ کنواں اب بھی موجود ہے۔ مسجدِ قبا سے نصف میل کے فاصلے پر شمال مشرق میں’’بئرِغرس‘‘ ہے۔ سیّدنا ابنِ عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا،’’بئرِ غرس جنّت کے چشموں میں سے ہے۔‘‘ سیّدنا علی مرتضیٰؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ’’جب میرا وصال ہوجائے، تو مجھے’’بئرِ غرس‘‘ کے پانی سے غسل دیا جائے‘‘ (ابنِ ماجہ)۔

مدینہ منورہ کا میوزیم بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، جہاں نادر اشیاء رکھی گئی ہیں۔ یہ میوزیم، ریلوے اسٹیشن کے اندر،’’ بابِ عنبریہ‘‘ کے میدان میں واقع ہے، جس کا افتتاح 1999ء میں کیا گیا۔ مدینے کا ریلوے اسٹیشن، تاریخی مقامات میں سے ایک ہے، جس کی تعمیر 1907ء میں ہوئی اور پہلی ٹرین اگلے برس، دمشق سے مدینہ منورہ پہنچی۔ مسجد نبویؐ کے چاروں جانب جدید ترین ہوٹلز اور بہت خُوب صورت شاپنگ سینٹرز ہیں، جو دنیا بھر کی قیمتی اشیاء سے بَھرے پڑے ہیں۔ چند سال پہلے فُٹ پاتھوں پر سیاہ فام خواتین مختلف اشیاء فروخت کیا کرتی تھیں، جو معیار میں تو کم ہوتیں، لیکن سَستی ہونے کی وجہ سے زائرین کی توجّہ اور دِل چسپی کا باعث بنتی تھیں۔ آج کل بھی نماز کے اختتام پر ان عارضی پتھارے داروں اور پولیس کی آنکھ مچولی کے مناظر دیکھنے میں آتے ہیں۔ مسجدِ نبویؐ کے مشرق میں ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع، بنگالی پاڑا ایشیائی عازمین کی خریدوفروخت کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ یہاں فُٹ پاتھوں پر سیاہ فام عورتیں اور پتھارے دار مختلف اشیاء فروخت کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ مقام، ہوٹلز کا جنگل ہے، یہاں کے غریب پرور ہوٹلز کم کرایوں کی وجہ سے مشہور ہیں۔

آج دیارِ نبیؐ میں آخری دن ہے۔ جدائی کے خیال سے دِل پھٹ رہا ہے۔ رات کا زیادہ پہر ریاض الجنّہ میں گزرا۔ نمازِ فجر کے بعد حضورﷺ کو الوداعی سلام کرنے، واپسی کی اجازت اور آئندہ کی حاضری کی درخواست کے لیے ہم بھی عاشقانِ مصطفیٰﷺ کے ہجومِ بے کراں میں شامل ہیں۔ کیفیت پہلے دن جیسی ہی ہے، زبان پر تو درود و سلام کا ورد ہے، لیکن جذبات کا تلاطم آنکھوں کے رستے امڈتا چلا آرہا ہے۔ بھیگی پلکوں کے پیچھے آنسوئوں کی رِم جھم روکنے کی ناکام کوشش کرتے آگے بڑھ رہے ہیں۔ آج اس چوکھٹ سے جدا ہونا ہے کہ جس کے دیدار کو آنکھیں ترستیں، ہر روز دُعا کے لیے ہاتھ اٹھتے ہیں۔ سنہری جالیوں کے سامنے جُھکا سر، شرمندہ آنکھیں لیے کھڑے ہیں۔ ندامت کے آنسو، چہرہ تر کر رہے ہیں۔ دِل تیزی سے دھڑک رہا ہے۔ التجائوں، فریادوں اور معافیوں کے سوا کہنے کو کچھ نہیں۔ اپنی کم مائیگی کے احساس سے رُوح کانپ رہی ہے۔ مایوسی کی انتہا پر اچانک دل سے صدا آئی’’مایوسی کفر ہے۔ تُو تو آقاﷺ کے دربار میں حاضر ہے، جو تجھے دیکھ رہے ہیں۔‘‘ اس احساس نے ڈوبتے دِل کو سہارا دیا۔ ہمّت کر کے بے جان نگاہوں کی مَنوں وزنی ،جُھکی پلکوں کو اٹھایا، تو نظریں سنہری جالیوں سے جا ملیں اور یوں محسوس ہوا کہ جیسے جالیاں قبولیت کی نوید سُنا رہی ہوں۔ اس خوش گوار احساس سے گویا بے جان لاشے میں دوبارہ جان پڑ گئی۔ دِل کی بے قراری کو قرار آرہا تھا۔ عقیدت ومحبّت سے لبریز متشکّر نگاہوں سے آقا ﷺ کے روضے کی جانب دیکھا، جہاں سے رنگ و نور میں لِپٹی مشک بُو و معطّر ہوائیں، چہار سُو پھیل رہی تھیں۔ بے اختیار منہ سے نکلا’’ مصطفیٰﷺ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام ۔‘‘

ہماری گاڑی شہرِ مدینہ سے باہر نکل رہی ہے۔ ہم نے اداس نگاہوں سے حرمِ نبویؐ کے میناروں کو الوداع کہا۔ مدینے سے9کلومیٹر پر’’بئر علیؓ‘‘ ہے، جو مدینے سے مکّہ جانے والوں کی میقات ہے۔ یہی وہ جگہ ہے، جہاں سے حضور نبی کریمﷺ نے احرام باندھا تھا۔ یہاں ایک خُوب صورت اور وسیع مسجد ہے، جس میں احرام باندھنے کے لیے ایک الگ جگہ مخصوص ہے۔ چناں چہ ہم نے بھی احرام باندھا اور مکّہ مکرّمہ روانہ ہوگئے۔ مدینہ منورہ کی فیّوض و برکات سے لبریز، رُوح پرور اور مسحور کُن فضائوں میں دس دن اتنی تیزی سے گزرے کہ پتا ہی نہ چلا۔ ان اَن مول دنوں کے ہر ہر لمحے کی گزری یادیں، ذہن کے دریچوں میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گئیں۔ حرمِ نبویﷺ کی نمازیں، ریاض الجنّہ کی راتیں، روضۂ رسولؐ پر سلام، مقصورہ شریف کی سبز و سنہری جالیاں، اصحابِ صفّہ کے چبوترے کی شان، مغرب کے وقت کا دستر خوان، نور کے ہالے میں نہایا گنبدِ خضرا، محرابِ نبویﷺ، منبرِ رسولﷺ، پُرشکوہ مینار، اذان کی ساعتوں میں روحِ بلالیؓ کی یاد،صحنِ حرم کا جاہ و جمال، جنّت البقیع کا محترم و متبرّک قبرستان، مسجدِ قباء میں نمازیں، جنّت کے پہاڑ، احد کا دیدار، کھجور بازار کی سوغاتیں، بنگالی پاڑے کے سستے پاکستانی کھانے،نگر نگر سے آئے، ہر رنگ و نسل کے عازمین کا سیلاب، عاشقانِ مصطفیٰﷺ کا ہجومِ بے کراں، مدینے کی عظیم الشّان یونی ورسٹی، مسجدِ نبویؐ کی لائبریری، قرآنِ پاک کی طباعت کا دنیا کا سب سے بڑا پرنٹنگ پریس، اہلِ مدینہ کے مٹھاس میں ڈوبے شفیق لہجے اور حَسین مُسکراہٹیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ ہر مسلمان کو بار بار طوافِ کعبہ اور روضۂ رسولﷺ پر سلام کی سعادت نصیب فرمائے۔آمین

تازہ ترین