• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی ڈالر کی قیمت کا جمعہ کی صبح یکایک بالکل غیر متوقع طور پر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 142روپے تک پہنچ جانا اور نتیجتاً کاروباری حلقوں میں شدید افرتفری کا رونما ہونا ایسا معاملہ ہے جس کی قابل فہم وضاحت ضروری ہے کیونکہ ایسا نہ ہونے سے بے یقینی بڑھے گی اور اس کے نتائج ہر اعتبار سے منفی ہوں گے۔ جمعرات کو کاروبار کے اختتام تک مارکیٹ میں کوئی غیر معمولی سرگرمی تھی نہ کسی انہونی کی سرگوشیاں لیکن چند گھنٹے بعد کاروبار شروع ہونے پر ڈالر کو اچانک پَر لگ گئے۔ یہ سب کچھ عین اس وقت ہوا جب آئندہ دو ماہ کے لیے زری پالیسی طے کرنے کی خاطر اسٹیٹ بینک حکام کا اجلاس جاری تھا۔ اجلاس میں دسمبر اور جنوری میں ڈیڑھ فیصد اضافے کے ساتھ شرح سود دس فیصد مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق حکومت کے کہنے پر اسٹیٹ بینک نے مداخلت کی اور کمرشل بینکوں سے رابطے کرکے صرف حقیقی خریداروں کو ڈالر فروخت کرنے کے احکامات جاری کیے جس سے ڈالر نیچے تو آ گیا مگر جمعرات کی نسبت تقریباً پونے چار روپے کے بقدر مہنگا ہو گیا۔ معاشی تجزیہ کاروں کا قیاس ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کے دبائو پر ڈالر کی قیمت بڑھا رہی ہے جس کی وجہ سے کرنسی مارکیٹ میں میں بے چینی اور عدم استحکام ہے، تاہم وزیراعظم نے قوم کو اطمینان دلایا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی پر لوگ پریشان نہ ہوں، کچھ دن میں سب ٹھیک ہو جائے گا، منی لانڈرنگ، ہنڈی اور حوالہ روکنے اور سرمایہ کاروں کو سہولتیں فراہم کرنے سمیت ایسے اقدام کیے جا رہے ہیں جن سے روپیہ جلد مضبوط ہو گا۔ کار سازی کے ایک مکمل پلانٹ کی تنصیب کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ہم چین سے مالی مدد کے بجائے ٹیکنالوجی درآمد کرنے کے اقدامات کر رہے ہیں تاکہ ہماری برآمدات بڑھیں۔ بلاشبہ کاروں سمیت پاکستان ساختہ مصنوعات کی برآمد نیز دس ارب ڈالر سالانہ کی منی لانڈرنگ کی بندش قومی معیشت کے پائیدار استحکام کا سبب بنے گی لیکن معیشت کو افرتفری کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے کچھ فوری اقدامات بھی ضروری ہیں۔ بے اعتباری کی سب سے بڑی وجہ متضاد دعوے بنتے ہیں لہٰذا ان کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ ایک دن پہلے ہی وزراتِ خزانہ کے ترجمان نے قوم کو خوشخبری سنائی تھی کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط نہ ماننے کا فیصلہ کیا ہے اور بیرونی زرِ مبادلہ کا بحران ختم ہو گیا ہے لیکن اس کے صرف سولہ گھنٹے بعد ہی ڈالر بے لگام ہو گیا اور ہمارے بیرونی قرض میں بیٹھے بٹھائے 486ارب روپے کا اضافہ ہو گیا۔ ممتاز اقتصادی ماہرین اور تجزیہ کار اس صورتحال کو آئی ایم ایف کی سخت شرائط ماننے کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے روپے کی قدر میں مزید کمی اور بجلی کے نرخوں میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں، تاہم وزیر خزانہ اسد عمر کا دعویٰ اب بھی یہی ہے کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے کا آئی ایم ایف کی شرائط سے کوئی تعلق نہیں لیکن حکومت ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طریقے سے کنٹرول نہیں کرے گی کیونکہ اس سے ہماری برآمدات متاثر ہوتی ہیں تاہم جمعے کو اسٹیٹ بینک نے مبینہ طور پر حکومت کی ہدایت پر مداخلت کرکے ڈالر کی قیمت کو کنٹرول کیا جس سے پتا چلتا ہے کہ حالات کا تقاضا ہو تو ایسا کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ نمائندہ کاروباری شخصیات نے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی کو قومی معیشت کے لیے سخت نقصان دہ قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اس سے صنعتی اشیاء کی پیداواری لاگت بڑھے گی، ملک میں مہنگائی کا طوفان آئے گا، معیشت سست روی کا شکار ہو گی اور برآمدات کے بڑھنے کا خواب بھی بے تعبیر رہے گا۔ معیشت سے متعلق ان مختلف بیانیوں اور حکومت کے بدلتے موقفوں کے سبب لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہماری معاشی صورتحال تسلی بخش ہے یا تشویشناک؟ حالات میں بہتری کے لیے حکومت کی جانب سے قوم کو اصل حقائق سے آگاہ کرنا اور اپنی معاشی حکمت عملی کو پوری طرح واضح کرکے اعتماد میں لینا اور پھر پالیسیوں میں تسلسل قائم رکھنا ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر معاشی بحالی اور ترقی و خوشحالی کی منزل تک پہنچنا ممکن نہیں۔

تازہ ترین