• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’اختر تو سرحد سے کوئی پندرہ میل ادھر یونہی، بس کسی وجہ کے بغیر اتنے بڑے قافلے سے کٹ گیا تھا۔ اپنی ماں کے خیال کے مطابق اس نے تتلی کا تعاقب کیا یا کسی کھیت میں سے گنے توڑنے گیا اور توڑتا رہ گیا۔ بہرحال وہ جب روتا چلاتا ایک طرف بھاگا جا رہا تھا تو چند سکھوں نے اسے گھیر لیا تھا اور اختر نے طیش میں آ کر کہا تھا ’’میں نعرۂ تکبیر مار دوں گا!‘‘ اور یہ کہہ کر سہم گیا تھا۔سب سکھ بے اختیار ہنس پڑے تھے۔ سوائے ایک کے، جس کا نام پرمیشر سنگھ تھا۔ ڈھیلی ڈھالی پگڑی میں سے اس کے الجھے ہوئے کیس جھانک رہے تھے اور جوڑا تو بالکل ننگا تھا۔ وہ بولا ’’ہنسو نہیں یارو۔ اس بچے کو بھی تو اسی واہگورو جی نے پیدا کیا ہے جس نے تمہیں اور تمہارے بچوں کو پیدا کیا ہے۔‘‘ایک نوجوان سکھ جس نے اب تک کرپان نکال لی تھی، بولا ’’ذرا ٹھہر پرمیشرے، کرپان اپنا دھرم پورا کر لے پھر ہم اپنے دھرم کی بات کریں گے۔‘‘’’مارو نہیں یارو۔‘‘ پرمیشر سنگھ کی آواز میں پکار تھی ’’اسے مارو نہیں۔ اتنا ذرا سا تو ہے اور اسے بھی تو اسی واہگورو جی نے پیدا کیا ہے، جس نے…

’’پوچھ لیتے ہیں اسی سے‘‘ ایک اور سکھ بولا۔ پھر اس نے سہمے ہوئے اختر کے پاس جا کر کہا ’’بولو، تمہیں کس نے پیدا کیا؟ خدا نے کہ واہگورو جی نے؟‘‘

اختر نے ساری خشکی کو نگلنے کی کوشش کی جو اس کی زبان کی نوک سے لیکر اس کی ناف تک پھیل چکی تھی۔ اس نے پرمیشر سنگھ کی طرف یوں دیکھا جیسے ماں کو دیکھ رہا ہے اور بولا ’’پتا نہیں‘‘۔

’’لو اور سنو‘‘ کسی نے کہا اور اختر کو گالی دے کر ہنسنے لگا۔اختر نے ابھی بات پوری نہیں کی تھی۔ بولا ’’اماں تو کہتی ہے میں بھوسے کی کوٹھڑی میں پڑا ملا تھا‘‘۔

سب سکھ ہنسنے لگے مگر پرمیشر سنگھ بچوں کی طرح بلبلا کر کچھ یوں رویا کہ دوسرے سکھ بھونچکا سے رہ گئے اور پرمیشر سنگھ رونی آواز میں جیسے بین کرنے لگا ’’سب بچے ایک سے ہوتے ہیں۔ میرا کرتارا بھی تو یہی کہتا تھا۔ وہ بھی تو اس کی ماں کو بھوسے کی کوٹھڑی میں پڑا ملا تھا‘‘۔

کرپان میان میں چلی گئی۔ پھر ایک سکھ آگے بڑھا۔ بلکتے ہوئے اختر کو بازو سے پکڑے وہ چپ چاپ روتے ہوئے پرمیشر سنگھ کے پاس آیا اور بولا ’’لے پرمیشرے، سنبھال اسے۔ کیس بڑھوا کر اسے اپنا کرتارا بنا لے۔ لے پکڑ۔‘‘کرتارپور راہداری کا سنگِ بنیاد رکھا جا رہا تھا۔ مجھے احمد ندیم قاسمی کا افسانہ پرمیشر سنگھ یاد آرہا تھا۔ آپ نے یہ سطریں پڑھیں۔ 1947ء کے زخم تازہ ہو گئے۔ تقسیمِ ہند سے بندھی کتنی لہو رنگ داستانیں۔

راہداریوں کا موسم ہے۔ علاقوں کی قسمت جاگ رہی ہے۔ یورپی یونین والے تو انسانیت کا وقار بلند کرنے میں آگے نکل گئے۔ انہوں نے اصل بھیانک جنگیں دیکھی ہیں۔ اس لیے معرکہ آرائی سے ڈرتے ہیں۔ پاسپورٹ ویزے ختم۔ اب ایک ملک سے دوسرے ملک میں ایسے داخل ہوتے ہیں جیسے ڈیفنس کے ایک فیز سے دوسرے فیز۔ اور ہم جس خطّے میں ہیں وہ یورپ سے کئی ہزار سال پہلے سے تہذیب کا گہوارہ تھا۔ وہاں ویزے کی ایسی سخت پابندیاں کہ ملک کا نہیں، شہروں کا ویزا ملتا ہے۔ بھارت اتنا بڑا ملک۔ مسلسل جمہوریت کے دعوے۔ اتنی بڑی فوج۔ مگر وہ اپنے سے چھوٹے ملکوں سے سہما رہتا ہے۔ راستے کھولنے کی بات ہو تو اسے بے شُمار خدشات لاحق ہو جاتے ہیں۔ اس معاملے میں وہاں کی فوج، نیتا، لکھاری، دانشور سب ایک صفحے پر ہیں۔ میں 1972سے شملہ معاہدے کی رپورٹنگ سے لے کر اب تک بھارت جاتا رہا ہوں۔ وزیراعظم اندرا گاندھی، وزیراعظم واجپائی اور دوسری نامور ہستیوں سے انٹرویو کیے ہیں۔ وہ بیسویں اور اکیسویں صدی کے لوگ ہی نہیں لگے۔ ان کی سوئیاں 1940میں اٹکی ہوئی ہیں۔ اب بھی دیکھ لیں پاکستان نے خطّے میں قیامِ امن کیلئے اتنی بڑی جست لگائی ہے۔ بھارت بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ اس شاندار عالمی سطح کی تقریب میں شرکت تو کی ہے لیکن بہت ہی چھوٹے پیمانے پر۔ سکھ مذہب کے پیروکاروں کے نزدیک بابا گرو نانک کی 2019ءمیں 550ویں برسی یقیناً ایک اہم اور یادگار موقع ہو گی۔ ایسے وقت میں انہیں چند کلومیٹر کا فاصلہ بغیر کسی رُکاوٹ کے عبور کرنے کی سہولت میسر آرہی ہے تو ان کیلئے تاریخ کے سنہری اوراق قلمبند ہو رہے ہیں۔پاکستان کی حکومت اور فوج امن کے قیام میں بہت آگے نکل گئے ہیں۔ اب تک بھارت کی طرف سے پروپیگنڈا کیا جاتا تھا کہ پاکستان کے سیاستدان تو بہتر تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں مگر پاکستان کی سینا اس میں حائل ہے۔ اب کے امن کی بات ہی پاکستان کے سپہ سالار نے شروع کی ہے۔ موسمِ عشق شروع ہو گیا ہے۔ مظہر برلاس نے دربار صاحب کرتارپور کے گردوارے اور آس پاس کی جو تصویر کھینچی ہے میں اس کے تناظر میں جنوبی ایشیا کے اس حصّے کو دیکھ رہا ہوں۔ سکھ برادری اپنے مقدس مقامات کی آسانی سے زیارت کر سکے گی، وہ ہمیشہ پاکستان کی حکومت اور فوج کے گن گایا کرے گی۔ کیا یہی جرأت بھارت کی حکومت اور فوج بھی کر سکتی ہے کہ وہ اجمیر شریف میں خواجہ غریب نوازؒ کی درگاہ تک جانے کی ایسی ہی سہولتیں دیدے۔ حضرت نظام الدین اولیاءؒ کی چوکھٹ پر حاضری دینے میں ایسی آسانیاں دیدے۔

جب یہ تقریب دیکھ رہا تھا تو اپنے پاکستانی ہونے پر میرا فخر کئی گنا بڑھ رہا تھا کہ اب میں پوری دُنیا سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ جو ہم پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے الزامات عائد کرتے ہیں وہ دیکھ لیں کہ ہم امن کیلئے غیر مسلموں کیلئے اور بھارتیوں کیلئے کتنا دل کشادہ رکھتے ہیں۔پاکستانی حکومت اور ایک قوم کی حیثیت سے ہم پاکستانیوں کو عالمی سطح پر اس حوالے سے سیاسی، سفارتی اور انسانی فائدہ اٹھانا چاہئے۔ ہمارے سفارت خانوں کو اس تقریب کے مناظر وہاں کے حکمرانوں اور دانشوروں کو دکھانا چاہئیں۔ ہم بھارت کے برسوں سے جاری پروپیگنڈے کو ردّ کریں۔ یہ محبت بھرا میلہ دکھائیں اور ساتھ ساتھ کشمیر میں ہونے والی بربریت بھی۔

یہ راہداریاں ہمیں پاکستان میں بھی وہاں وہاں کھولنی چاہئیں جہاں راستے بند کیے ہوئے ہیں۔ دلوں میں ذہنوں میں بھی راہداریاں بنائیں۔ بھارت پر اگر سیاسی سفارتی سماجی دبائو ڈالنے کی ضرورت ہے۔ صرف حکومت، عدلیہ اور فوج ہی ایک صفحے پر نہ ہوں بلکہ ساری سیاسی جماعتیں، مسلک، فرقے اور علاقے کی تمیز کے بغیر سارے پاکستانی ایک صفحے پر ہوں تو دنیا بھی بھارت پر دبائو ڈالے گی۔

تازہ ترین