• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

100روزہ ہنی مون کے خاتمے پہ ملا بھی تو ’’ہم مصروف تھے‘‘ (جانے کہاں؟) کا اشتہار یا پھر کنونشن سنٹر سے انڈے، مرغی اور کٹوں کی افزائش سے غریبی ختم کرنے، بھارت کو کرتارپور کی راہداری کی گُگلی کرانے اور وزیراعظم کو یوٹرن کی سہولت سے فائدہ اُٹھانے کی التجا کا قصہ۔ پہلے صفحہ کے خالی اشتہار کے بعد ’’نئے پاکستان‘‘ کیلئے ورق اُلٹا تو دیکھنے کو ملے بھی تو اخبارات میں چھپی سُرخیوں کے چنگھاڑتے تراشے، جن میں حکومت کے عوام کو پہلے تحفے یعنی پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی خبر بھی شامل کارکردگی تھی۔ ’’گواہی ہزاروں لفظوں کی‘‘ یہ ملی کہ ’’نہ صرف پہلے سو دنوں کے طے کردہ اہداف حاصل کر لیے گئے ہیں، بلکہ نئے پاکستان کے روشن مستقبل کیلئے عوامی و قومی ترقی کے کئی اضافی اقدامات بھی کیے گئے ہیں‘‘۔ اچھی حکمرانی اور وہ بھی نبی کریمﷺ کی مدنی ریاست کی سادگی کے نام پر ایسا خوفناک مذاق کہ اللہ کی پناہ! بھلا وزیراعظم ہائوس کی بھینسوں کی فروخت سے مصارف کے پہاڑ جیسے بوجھ کہاں کم ہونے تھے۔ پھر قرض کی مے پہ فاقہ مستی کہاں ٹلنے والی تھی۔ کاسۂ گدائی لیے نگر نگر پھرے مگر خزانہ کے خسارے کا جہنم تھا کہ اُس نے بھرنے کا نام نہ لیا۔ تجارتی خسارہ کم تو کیا ہوتا اور بڑھتا گیا۔ ایسے میں وزیرِ خزانہ اسد عمر کی پھرتیاں دیدنی تھیں۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات سے ایک روز قبل اُنہوں نے قوم کو نوید دی کہ توازن ادائیگی کا مسئلہ حل ہو چکا اور اب آئی ایم ایف سے اپنی شرائط پر بات ہو گی۔ نتیجتاً آئی ایم ایف کے وفد کے ساتھ ہونے والے مذاکرات نامکمل رہے اور اُس کا دورہ ناکام رہا۔ وزیرِ خزانہ اپنی ہٹ کے پکے رہے اور کنونشن سنٹر میں اُن کی بڑھکوں کا نتیجہ اگلے ہی روز برآمد ہوا کہ روپیہ جمعہ کے روز 5فیصد کمی کے ساتھ 143روپے فی ڈالر کی سطح تک جا گرا اور رات گئے ایک ڈالر 139.50روپے پہ آن گرا بھی تو خبر نہیں کل بروز سوموار یہ کہاں جا کر دم لے گا۔ مہنگائی کے طوفان نے تو کیا تھمنا تھا، لہٰذا اسٹیٹ بنک کو شرح سود 10فیصد تک بڑھانا پڑی۔ جب ملک کے چوٹی کے معیشت دانوں جن میں ہمارے سابق سیکرٹری خزانہ وقار مسعود اور اُن کے استاد حفیظ پاشا نے دیوالیہ یعنی ڈیفالٹ کی وارننگز دیں تو بقول اسد عمر ان ’’افلاطونوں‘‘ کی راگنی کو وزیرِ موصوف نے بے وقعت جان کر تکبر سے جھڑک دیا۔ ایسے میں وزیراعظم کے مشیر ارباب شہزاد کو کنونشن سنٹر کے ہجومِ انصافیاں کے سامنے کارکردگی کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے پسینے تو چھوٹنے ہی تھے۔ موصوف 100روزہ ایجنڈے پر کامیاب عملدرآمد کی ہٹ دھرمی پہ قائم رہے اور اعلان کیا یہ ایجنڈا تو انتخابات سے دو ماہ قبل ہی مرتب کر لیا گیا تھا اور 34میں سے 18اہداف یا تو حاصل کر لیے گئے یا پھر ان پر کام تیزی سے جاری ہے۔ مگر جو تفصیل اُنہوں نے بیان کی وہ محض طفل تسلیاں تھیں اور زمینی حقائق سے اُن کا دُور کا واسطہ نہ تھا۔ ایسے میں وزیراعظم عمران خان کے حوصلے کی داد دینا پڑتی ہے کہ انہیں غریبی مٹانے کے معصومانہ نسخوں سے اپنے مداحوں کو بہلانا پڑا اور وہ حکومتی حماقتوں پہ اتنی پُرجوش تالیاں جانے کیوں بجاتے رہے۔ جن مداحین کو عمران خان نے بیرونِ ملک چھپے اربوں ڈالرز کی بازیابی کی اُمیدیں دلائی تھیں، اُن اُمیدوں کو برقرار رکھنے کیلئے وزیراعظم صاحب نے اب تک کی تفتیش سے پتا لگائی دولت کی نوید تو سنائی لیکن ابھی سراغ رسانوں کے ہاتھ کچھ آیا ہوتا تو خالی خزانے میں کچھ واپس آتا۔

ہوائی وعدوں، نعروں اور خیالی پلائو سے انتخابی جلسے تو بھرے جا سکتے ہیں لیکن حکومتی کاروبار کب چلا ہے جو تبدیلی کی حکومت میں چل پاتا۔ یہ تو اب ظاہر ہے کہ ساری تگ و دو وزارتِ عظمیٰ کا تاج سر پہ سجانے کی تھی، بھلے کیسا ہی خیالی (Utopia) نسخہ تبدیلی کیلئے بے چین متوسط طبقوں کو بیچنا پڑتا۔ اور جب انصافیاں نے کنونشن سنٹر میں ’’قدم بڑھائو عمران خان‘‘ کا بے وقت نعرہ بلند کیا تو وزیراعظم کو انہیں جھڑک کر یہ یاد دلانا پڑا کہ ’’جہاں پہنچنا تھا، وہاں تو پہنچ بھی گئے‘‘۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ خان صاحب کو خاتونِ اوّل محترمہ بشریٰ کو یاد دلانا پڑتا ہے کہ آپ وزیراعظم ہیں تو پھر ہرسُو جاری ناانصافیوں کو ختم بھی آپ ہی کو کرنا ہے۔ لیکن بیچارہ کپتان ہاتھ ملے نہ تو کیا کرے کہ مشکل پچ اور ناموافق فضا میں اوپنگ بیٹسمین ملا بھی تو اسد عمر جو بھلا آدمی ہے اور اپنے خوابوں میں مست بھی۔ روپیہ گرتا پڑے، اسٹاک مارکیٹ زمین بوس ہوتی رہے، سرمایہ کاری بھلے آدھی رہ جائے اور احتساب و انصاف سے لرزاں کاروباری اور بیوروکریٹ خوف کی چادریں اوڑھے کہیں دبک جائیں، ہر دو خسارے شیطان کی آنت کی طرح پھیلتے جائیں اور مہنگائی کا جن ہر جانب دندناتا پھرے اُن کی بلا سے۔ بھئی قوم کے ساتھ جو مذاق ہونا تھا، وہ ہو چکا۔ اب کچھ کرنے کی سعی بھی کرو۔

بہتر ہوتا کہ وزیراعظم کے اسٹیبلشمنٹ کے مشیر ارباب شہزاد وزیراعظم کو 100روزہ ایجنڈے کی پشیمانی میں نہ پھنساتے۔ حکومت برملا اعتراف کرتی کہ اُسے سو، دو سو روز چاہئیں کہ وہ اپنی راہ متعین اور ٹھوس راہِ عمل طے کر سکے۔ ’’ہم مصروف تھے‘‘ کا بورڈ 100روز پورے ہونے پہ لگانے سے بہتر تھا کہ شروع ہی میں ’’انتظار کیجیے‘‘ کا بورڈ لگا دیا جاتا۔ لگتا ہے کہ کابینہ میں جو گھاگ لوگ بیٹھے ہیں اُن کی شنوائی نہیں اور منظورِ نظر وہی ہیں جو ذاتی یار دوست اور کپتان کے شیدائی ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے کہ حکومت بڑے فیصلے کرے اور اس کے پاس ماہرین کی کمی نہیں جو جانے تین درجن سے زائد ٹاسک فورسز میں کیا معجون گھوٹنے میں مصروف ہیں۔ ہماری ریاست کے نہاں خانوں میں گورننس کے اصلاحات پہ مبنی رپورٹوں کو گھن کھا رہا ہے اور دُنیا بھر کے مفید تجربات پر مبنی آزمودہ نسخے بھی انٹرنیٹ پہ موجود ہیں۔ آپ کوئی انقلابی جماعت ہیں نہ انقلابی تبدیلی کی حکومت۔ جو موجودہ ڈھانچے میں رہ کر کیا جا سکتا ہے، اُسی پہ گزارہ کریں۔ آخر کب تک ایک مرکزی نکمی حکومت اور پنجاب و پختونخوا کی صوبائی کٹھ پتلی حکومتیں عمران خان کی عوامی پذیرائی اور کرشماتی جادو سے اپنی نااہلیوں پہ پردہ ڈالتی رہیں گی۔ اوپر سے خان صاحب بھی اپنی سادگی اور جوش میں عوامی وعدوں کے اتنے آسمانی قلابے نہ ملائیں کہ تھوڑا بہت جو ہو سکتا ہے اُسے بھی کرنے سے رہ جائیں۔ وزیراعظم عمران خان نے یقیناً سو روز میں دن رات کام کیا ہے اور سینکڑوں اجلاس کیے ہیں اور وہ کڑک مرغیوں کو ٹیکے لگا کر انڈے دینے پہ مجبور کر رہے ہیں۔ ان کے حلقۂ انتخاب کے لوگوں کو اُن سے آج بھی بڑی اُمیدیں ہیں اور وہ اُن سے اختلاف کرنے والوں کی سوشل میڈیا پہ مٹی پلید کرنے میں خوب سرگرم ہیں۔ آخر کب تک گالیاں کھانے والے اپنے دانتوں میں صبر کی انگلیاں دیئے بیٹھے رہیں گے۔ وزیراعظم عمران خان کی غریبوں کی حالتِ زار بہتر بنانے کی لگن اور خطے میں امن قائم کرنے کی آشا نے میرے دل میں اُن کیلئے بڑا نرم گوشہ پیدا کیا ہے۔ اُنہوں نے نسخۂ کیمیا پا لیا ہے اور وہ یہ ہے کہ غریبی کے خاتمے اور خطے میں امن و تعاون کے مابین چولی دامن کا ساتھ ہے، باقی سب ہوائی کہانیاں ہیں۔ کاش وہ بحران پر قابو پانے کیلئے اپنے معاشی ماہرین کے کان کھینچیں، سیاسی کشیدگی کم کر کے پارلیمنٹ کو ساتھ لے کر چلیں اور اپنے سماجی و عوامی بھلائی، انسانی سلامتی اور علاقائی امن و تعاون کے ایجنڈے پہ سختی سے کاربند ہو جائیں۔ وگرنہ اسقاط کا شکار جمہوری عبور ایک تیسری حکومت کو بھی کھا جائے گا۔

تازہ ترین