• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی ستر سالہ سیاسی تاریخ کا گزرا عشرہ (2008-18) بظاہر تو روایتی ملٹری، سیاسی حکومت کے غلاف میں لپٹی 11سالہ آمریت کے خاتمے پر ’’بحالی جمہوریت کا عشرہ‘‘ ہی تھا۔ اس میں کسی قوت کو حکومت میں کوئی شیئر یا روایتی طرزکی مداخلت کا موقع نہیں ملا۔ عوام بدتر حکمرانی اور اس کے نتیجے میں عوامی خدمات کے اداروں کی تباہی، نظام ٹیکس میں کروڑوں عوام پر مسلسل ٹیکسوں کا بوجھ اور ہزاروں پر مشتمل اشرافیہ یا بدمعاشیہ کو کھلی چھوٹ کی شدید سیاسی، سماجی ناانصافی، شدید مہنگائی سے پستے غربا اور متوسط لوگ دوسری جانب ان کے منتخب حکمرانوں اور درباریوں کی لوٹ مار اور اللے تللے اور اس پر بھی تحفظ جمہوریت کی خاطر عوام الناس کا باکمال صبر و تحمل۔ یوں بحالی جمہوریت نظر آئی تو کڑے احتساب اور انسداد کرپشن کے عوام دوست ایجنڈے کے ساتھ عمران خان کی بے رحمانہ اپوزیشن، عدلیہ اور میڈیا کی آزادی (جو ہر دو نے اپنے زور بازو اور عوام کی بھرپور تائید سے خود ہی حاصل کی) کی شکل میں اس پر بڑا چیک مسلسل رہا۔

اس عشرے میں بحالی جمہوریت کے حوالے سے منتخب حکمرانوں اور اپوزیشن نے کوئی بڑا کام کیا تو آئین میں 18ویں ترمیم کی باہمی منظوری ہے، جس کی آئین میں موجودگی آج جہاں خان اعظم کے ایجنڈا برائے انسداد بدعنوانی و احتسابی عمل کو موثر بنانے کے کام آرہی ہے کہ اس میں مطلوب احتسابی عمل کی گنجائش موجود رہی۔ بعدازاں پاناما لیکس، نیب کے بال و پر نہ کاٹنے کا رونا دھونا اور احتسابی قوانین کو اپنی مرضی و ضرورت کے مطابق تبدیل نہ کرنے پر پچھتاوے کا اظہار ن لیگی (خصوصاً) اور پی پی رہنمائوں اور دوسرے حامی تجزیہ نگاروں کی طرف سے جائز احتسابی عمل کے دوران ہوتا رہتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے یاد کرانا ضروری ہے کہ ایک تو یہ سوال کہ ’’بحالی جمہوریت‘‘ کا عشرہ (2008-18) دو دو اقتدار کی باریاں لینے والے حکمرانوں کو پھر اک بار موقع ملنے پر بھی حقیقی جمہوریت کی طرف کیوں نہ لاسکا؟ اور اس سوال کا یہ جواب کہ، دونوں تاریخ میں ریکارڈ ہو جانے چاہئیں، نیز یہ کہ ملک میں تیسری بنی سیاسی و پارلیمانی قوت کے اقتدار میں آنے کا معجزہ عمران خان کی جدوجہد اور اس سے بڑھ کر قدرتی راہیں نکلنے پر ہو ہی گیا ہے تو، اس ادھوری لیکن مخلص اور دیانتدار سیاسی قیادت کے سامنے تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت، ان کی گڈ گورننس کے لئے بار بار ان کے اقتدار میں ہی واضح ہوتی رہنی چاہئے۔

عشرے بھر کی یہ تاریخ نئے پاکستان والی عمران حکومت کیلئے اسباق سے بھری پڑی ہے، جس کے لئے گڈگورننس کے چند نسخے پیش خدمت ہیں۔

٭...فوری طور پر ہنگامی بنیاد پر ملک گیر، ای گورننس کیلئے پبلک سروس اور اطلاعات کے نظام کو رائج کرنے کیلئے سافٹ وئیر ڈویلپمنٹ کی منصوبہ بندی کی جائے اور 2020ءکے آغاز سے ملک بھر میں تمام تر انتظامی امور، ای گورننس کی چھتری میں انجام دیئے جائیں۔ انتہائی بنیادی ضرورتوں کیلئے عوام کے دفاتر میں چکر پھیرے ختم کر کے درخواست گزاری اور قدم بہ قدم اپ ڈیٹ سے آگاہی کا اہتمام آن لائن ہو۔ کاموں کے لئے انتظامیہ کو ٹائم بائونڈ کیا جائے اور ترقیاتی منصوبوں کی تمام تر اطلاعات ویب سائٹس پر موجود ہوں، حتی کہ ترجیحات اور اخراجات میں ترامیم کی بھی۔

٭...ملک میں فوری طورپر اسکول ایج کے اسکولوں سے باہر بچوں کی رجسٹریشن کرانے کا ملک گیر آپریشن خود وفاقی حکومت تعلیمی ایمرجنسی نافذ کر کے خود کر کے، تمام تر ڈیٹا، انہیں اسکولنگ میں ڈالنے کا منصوبہ اور حکمت عملی صوبائی حکومتوں کے حوالے کر کے انہیں قانوناً عملدرآمد کا پابند کرے۔

٭...بڑے بڑے ٹیکس چوروں سے ٹیکس کی وصولی کو یقینی بنانے کے لئے قابل عمل قانون سازی کی تجاویز ماہرین قانون سازی سے تیار کرائی جائیں۔

٭...صحت عامہ کا معیار بلند کرنے کے لئے علاج معالجے کی سہولتیں بڑھانے کے ساتھ بیماریوں سے محفوظ رہنے کے لئے ملک گیر آگاہی کی مہمات بذریعہ میڈیا، ترقیاتی ابلاغ کے اصولوں پر شروع کی جائیں۔

٭...بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی بھاری رقوم غربا کو ماہانہ تقسیم کرنے کے بجائے اس کا رخ دیہات میں مائیکرو اکانومی کے انکم جینریٹنگ منصوبوں کی طرف موڑ دیا جائے اور شہر میں ’’پناہ گاہوں‘‘ میں اضافہ کردیا جائے۔

٭...تنخواہوں میں اضافہ کر کے نچلی سطح پر سرکاری دفاتر میں رشوت ستانی پر قابو پانے کے لئے ثبوت جمع کرنے کے لئے شہریوں کو ترغیب دی جائے۔

٭...واٹر مینجمنٹ اور آبادی پر کنٹرول کے ماہرین کو ہر دو موضوعات پر ملکی وسائل سے بہتری لانے کے لئے، سفارشات کی تیاری کے لئے انگیج کیا جائے۔

٭...توسیع زراعت اور لیڈی ہیلتھ ورکرز سسٹم کو ازسرنو منظم کرنے کا کام متعلقہ وزارتوں اور صوبائی محکموں، دونوں کو بیک وقت سونپا جائے۔

٭...برآمدات بڑھانے کیلئے، سفارتخانوں میں اہل کمرشل اتاشی تیار کرنے کیلئے سمندر پار پاکستانیوں کو ترغیبات دی جائیں۔ خارجہ پالیسی کے اہداف حاصل کرنے کیلئے مختلف موضوعات کے حوالے سے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا دائرہ بڑھایا جائے۔

٭...حکومت ملک میں پھیلتی میڈیا انڈسٹری کے تحفظ اور فروغ کے لئے ابلاغی اداروں کے مالکان اور صحافی تنظیموں کے ساتھ مکالمے کا اہتمام کرے۔

یہ سب کچھ ملکی وسائل سے ہوسکتا ہے۔ اس کے لئے نہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت ہے نہ دوست ملکوں کے دروازوں پر دستک دینے کی۔

تازہ ترین