• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ٹی آئی حکومت کے 100دن مکمل ہوگئے ہیں۔ تحریک انصاف نے اپنے انتخابی منشور میں پہلے 100 دن کا ایجنڈا پیش کیا تھا جس کی بدولت پارٹی نے 2018ء کے انتخابات میں ایک کروڑ 69 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کئے ، قومی اسمبلی میں 151 اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں 287نشستیں حاصل کرکے وفاق، پنجاب، خیبرپختونخوا میں حکومت بنائی جبکہ بلوچستان میں مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ عمران خان اور ان کے پارٹی لیڈرز نے اپنی انتخابی مہم کے دوران تبدیلی کے نام پر نہایت بلند و بالا دعوے کئے تھے جس کی بدولت عوام پی ٹی آئی سے اونچی اُمیدیں لگابیٹھے جبکہ وزیراعظم پاکستان نے ’’یوٹرن‘‘ کو جائز قرار دیتے ہوئے اپنے ہی بے شمار فیصلوں کو متعدد بار بدلا جس سے عوام میں مایوسی پائی جاتی ہے۔ 100 روزہ ایجنڈا خیبرپختونخوا کے سابق چیف سیکریٹری شہزاد ارباب کی سربراہی میں پی ٹی آئی الیکشن مینجمنٹ سیل نے تشکیل دیا تھا جس میں 3بڑے نکات شامل تھے۔ پہلا فاٹا کو خیبرپختونخوامیں عملی طور پر ضم کرکے صوبے میں مطلوبہ انتظامی ترامیم اور اصلاحات کرنا، دوسرا پنجاب میں جنوبی پنجاب صوبہ بنانا اور تیسرا ناراض بلوچ لیڈروں سے صلح کرنا تھا لیکن افسوس کہ ان تینوں نکات پر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ موجودہ حکومت سوائے منی بجٹ جسے منی بل بھی کہتے ہیں اور جس کیلئے سینیٹ کی منظوری کی ضرورت نہیں ہوتی، پیش کرنے کے علاوہ قومی اسمبلی میں کوئی قابل ذکر قانون سازی نہیں کرسکی۔پی ٹی آئی کے دعوئوں کے برخلاف گزشتہ 100 دنوں میں پولیس اور انتظامیہ میں متنازع تبدیلیاں اور سیاسی مداخلت نظر آئی، مہنگائی کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا،روپے کی قدر میں 35 فیصد سے زائد کمی ہوئی جس کے نتیجے میں ڈالر 142 روپے کی ریکارڈ بلند ترین سطح چھوکر 139 پر پہنچ گیا، اسٹیٹ بینک کے ڈسکائونٹ ریٹ 10 فیصد تک پہنچ گئے اور ڈالر کی قیمت بڑھنے سے بیرونی قرضوں میں 1300 ارب روپے سے زائد اضافہ ہوا، ضمنی بجٹ میں اضافی ٹیکس اور ریگولیٹری ڈیوٹی لگائی گئی جس سے اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور افراط زر 3 فیصد سے بڑھ کر 7فیصد ہوگیا جس میں مزید اضافہ متوقع ہے، ایکسپورٹرز کے 200ارب روپے سے زائد سیلز اور انکم ٹیکس ریفنڈزکی متعدد وعدوں کے باوجود ادائیگی نہیں کی جاسکی۔ وزیر خزانہ اسد عمر اور پاکستان میں آئی ایم ایف کے کنٹری ہیڈ ہیرلڈ فنگر میں آئی ایم ایف بیل آئوٹ پیکیج پر مذاکرات جاری ہیں جس میں آئی ایم ایف نے سخت شرائط رکھی ہیں جن میں روپے کی قدر میں مزید کمی کرکے اسے ڈالر کے مقابلے میں 145 روپے تک لانا، بجلی اور گیس کے نرخوں میں 20 فیصد اضافہ، مالی اور مالیاتی اصلاحات،سبسڈی کا خاتمہ، جی ڈی پی میں ٹیکس وصولی کی شرح میں اضافہ، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور قرضوں کی ادائیگی کو یقینی بنانا ہے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے 1.3 کھرب روپے کے سرکلر ڈیٹ کو ختم کرنے کا پلان مانگا ہے جس کیلئے حکومت نے 3 سال کا وقت مانگا ہے جس میں حکومت کو ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن (T&D) نقصانات میں کمی، بجلی کی چوری کی روک تھام اور بجلی کے بلوں کی 83 ارب روپے کی اضافی وصولی جیسے اقدامات عملی طور پر لینا ہوں گے۔ آئی ایم ایف نے ایف بی آر کی ریونیو وصولی ہدف کو موجودہ 4.39کھرب روپے سے بڑھاکر 4.75کھرب روپے کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر کے مطابق پاکستان کیلئے آئی ایم ایف کا بیل آئوٹ پیکیج جنوری 2019ء تک آئی ایم ایف بورڈ سے منظور ہوجائے گا۔ آئی ایم ایف نے بیل آئوٹ پیکیج کو سی پیک منصوبوں کی تفصیلات اورFATF کی منی لانڈرنگ اور دہشت گرد فنانسنگ کی روک تھام کی سفارشات پر عملدرآمدسے بھی مشروط کیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کی ’’یوٹرن‘‘ کی نئی اصطلاح کے مطابق یوٹرن نہ لینے والا بے وقوف ہوتا ہے اور ہٹلر اور نپولین نے یوٹرن نہ لے کر شکست کھائی تھی، اس لئے یوٹرن نہ لینے والا لیڈر نہیں کہلاتا۔ اس موضوع پر میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے اقوال زریں کا ذکر کرتا ہوں جس میں انہوں نے جو کہا وہ کرکے دکھایا، وہ نہ جھکے، نہ بکے، نہ یوٹرن لیا اور آزاد و خود مختار ریاست قائم کرکے دکھائی۔ بزنس مین اور سرمایہ کار نئی سرمایہ کاری کرنے کیلئے حکومتی پالیسیوں کا تسلسل چاہتے ہیں یعنی اگر حکومت نے ملک میں سرمایہ کاری راغب کرنے کیلئے اپنی پالیسی میں مراعات مثلاً ٹیکس یا کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ دی ہیں تو وہ مقررہ مدت تک جاری رہیں تاکہ سرمایہ کارپلاننگ کرسکیں لیکن اگر اعلان کردہ مراعات یوٹرن لے کر ایک دم واپس لے لی جائیں تو اس سے سرمایہ کار کا اعتماد بری طرح مجروح ہوتا ہے اور وہ ایسی جگہ سرمایہ کاری سے گریز کرتا ہے۔ موجودہ حکومت نے عوام کو کرپشن کے نام پر بیرون ملک سے جائیدادیں اور دولت وطن واپس لانے پر لگادیا ہے حالانکہ گزشتہ ایمنسٹی اسکیم میں زیادہ تر بزنس مین اپنے بیرون ملک اثاثے ڈکلیئر کرکے انہیں انکم ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کرچکے ہیں۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کے انتخاب کے معاملے پر بھی اسپیکر کو مشکلات کا سامناہے۔ اسی طرح عمران خان کا 50 لاکھ مکانات اور ایک کروڑ افراد کو مختصر مدت میں نوکری دینے کا اعلان بھی عملی نظر نہیں آتا جو لوگوں میں مزید مایوسی پیدا کرے گا۔

حکومت کی آج تک کی کارکردگی کا جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس اپنے ایجنڈے کا دفاع کرنے کیلئے کوئی زیادہ مواد موجود نہیں جبکہ عوام کو شدید معاشی مسائل کا سامنا ہے۔ قانون سازی ہو یا سیاسی معاملات، ایوان کو مہذب طریقے سے چلانے کی بات ہو یاقومی اسمبلی میں کمیٹیوں کی تشکیل، انتظامیہ میں سیاسی مداخلت کا خاتمہ ہو یا مجموعی ملکی معیشت کی بحالی، یہ سب کچھ اب تک وعدوں اور دعوؤں کی حد تک ہے۔ عمران خان گزشتہ ہفتے وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد سے ملاقات کیلئے ملائیشیا گئے۔ 93سالہ ڈاکٹر مہاتیر نے بھی اپنے انتخابی منشور میں عوام کو 100 روزہ پلان دیا تھا جس میں کرپشن کا خاتمہ، ملکی قرضوں میں کمی، پیٹرول سبسڈی اور بلدیاتی نظام کی بحالی جیسے اقدامات شامل تھے لیکن مہاتیر حکومت 100 دن میں اپنے پلان پر عملدرآمد نہیں کرسکی جس کے نتیجے میں وزیراعظم مہاتیر محمد کو عوام سے معذرت کرنا پڑی کہ ان کی حکومت اپنے وعدے پورے نہیں کرسکی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا عمران خان بھی عوام سے کئے گئے وعدے پورے نہ کرنے پر اپنے رول ماڈل ڈاکٹر مہاتیر محمد کی طرح عوام سے معذرت کریں گے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین