• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی معاشی صورتحال خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے، ان حالات کو بیان کرنے کے لئے موزوں الفاظ کا انتخاب آسان نہیں ہے۔ شاید ایسے ہی حالات ہوتے ہیں، جن میں لوگوں کی زندگی بہت مشکل ہو جاتی ہے اور وہ عدم تحفظ اور بے یقینی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی حالات میں ’’ہائبرڈ وار‘‘ (HYBRID WAR) کے ذریعے دشمن پروپیگنڈے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے سماجی ہیجان پیدا کرتا ہے اور شاید ایسے ہی حالات کا ادراک کرتے ہوئے پاک افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ ماہ نیشنل سیکورٹی ورکشاپ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا کہ پروپیگنڈے سے ملکی صورتحال کا رخ مذہبی، لسانی و سماجی بغاوت کی طرف کیا جا رہا ہے۔

30نومبر 2018ء کی صبح جب کاروبار کا آغاز ہوا تو اچانک ہی ڈالر 8روپے مہنگا ہو گیا۔ یہ نہ صرف پاکستان بلکہ حالیہ عالمی تاریخ کی سب سے بڑی چھلانگ تھی، جو ڈالر کے مقابلے میں کسی دوسری کرنسی کی شرح مبادلہ میں لگی۔ یہ دراصل بحران کی شکار پاکستانی معیشت کی نیچے کی طرف چھلانگ ہے، جس نے مہنگائی اور افراطِ زر کو اوپر دھکیل دیا ہے۔ مہنگائی اور افراطِ زر کو اب قابو کرنا اگرچہ ناممکن نہیں لیکن مشکل ضرور ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ دنیا کی مضبوط کرنسیوں ڈالر، پونڈ وغیرہ کے مقابلے میں ترقی پذیر اور غریب ملکوں کی کرنسیوں کی قدر میں کمی واقع ہوتی رہتی ہے لیکن پاکستانی روپے کی قدر جس تیزی سے کم ہوئی، اس کی مثال دنیا میں بہت کم ملے گی۔ یہ بات بہت تشویشناک ہے۔ لہٰذا پاکستان کے معاشی بحران کو پاکستان کے مخصوص حالات کے تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ اس کے لئے ’’سیاسی معیشت‘‘ (پولیٹیکل اکانومی) کا ادراک ضروری ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کے ارکان خصوصاً وزیر خزانہ اسد عمر پاکستانی عوام کو مسلسل تسلی دے رہے ہیں کہ مشکلات ضرور ہیں لیکن یہ جلد ختم ہو جائیں گی کیونکہ انہیں یقین ہے کہ ان کی معاشی پالیسیوں سے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ حالانکہ وزیراعظم عمران خان سے پہلے کے سیاسی اور غیر سیاسی حکمرانوں کو یہ اندازہ ہو گیا ہے کہ سیاسی معیشت کیا ہوتی ہے۔ انہیں اس بات کا بھی ادراک ہے کہ پاکستان کے موجودہ اقتصادی بحران سے پاکستان کے موجودہ سیاسی سیٹ اَپ تک سب معاملات اس سیاسی معیشت کا نتیجہ ہیں، جنہیں دنیا کی کچھ ظاہری اور باطنی قوتیں چلاتی ہیں۔ یہ سب کچھ ماضی کے حکمرانوں کی محض ’’غلطیوں‘‘ کا نتیجہ نہیں ہے۔

اس فلسفیانہ بحث سے ہٹ کر اب آتے ہیں موجودہ معاشی بحران اور اس کے سیاسی اور سماجی اثرات کی طرف۔ اسٹیٹ بینک نے اپنی دو ماہ کی مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بلند مالیاتی خسارے اور زرِ مبادلہ کے کم ذخائر کے سبب پاکستان کی معیشت کو درپیش مشکلات تاحال برقرار ہیں۔ اسٹیٹ بینک نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ گزشتہ مانیٹری پالیسی کے مثبت اثرات درج بالا عوامل کی وجہ سے سامنے نہیں آ سکے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی اس رپورٹ کے تناظر میں اگر روپے کی قدر میں کمی کے معاملے پر اقتصادی ماہرین کے تجزیوں کو دیکھا جائے تو تشویشناک تصویر سامنے آتی ہے۔ سب اس بات پر متفق ہیں کہ مہنگائی اور افراطِ زر میں اضافے کے باوجود مالیاتی خسارے اور زرِ مبادلہ کے ذخائر پر دبائو کم نہیں ہو گا بلکہ بڑھے گا۔ روپے کی قدر میں حالیہ کمی سے صرف ایک دن میں قرضوں کے بوجھ میں 760ارب روپے کا اضافہ ہو گیا ہے، جبکہ موجودہ حکومت کے 102دنوں میں ملک پر قرضوں کا بوجھ 1450ارب روپے بڑھ گیا ہے۔

یہ پولیٹکل اکانومی ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو ’’امداد‘‘ یا ’’بیل آئوٹ پیکیج‘‘ نہیں دیا۔ سعودی عرب کے تعلقات اس سے پہلے پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ بھی زیادہ خوشگوار نہیں تھے۔ یمن جنگ کی وجہ سے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں گزشتہ دور میں جو سرد مہری پیدا ہوئی تھی، وہ نہ صرف اچانک گرم جوشی میں تبدیل ہو گئی بلکہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو سعودی عرب معاشی بحران سے نکالنے کے لئے بھی آگے آگیا۔ اس بات کو پولیٹکل اکانومی کے سائنسی اصولوں کے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ سعودی عرب نے بھارت میں سرمایہ کاری کرنے اور اسے مفت تیل دینے کی بھی پیشکش کی ہے۔ یہ چھوٹی سی مثال اس لئے پیش کی گئی ہے کہ معیشت کو سیاست کے تناظر میں سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اس سے سارے معاملات کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ مثلاً یہ سمجھنا بھی آسان ہو جائے گا کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کی طرف سے معاشی امداد ملنے کے باوجود بھی پاکستان کی آئی ایم ایف کے پاس جانے کی مجبوری ختم نہیں ہو سکی ہے اور آئی ایم ایف کی وہ تمام شرائط ماننا بھی لازم ہو گیا ہے، جن کے تحت دوست ممالک کی امداد والی رقم بھی ڈالر کی قدر میں اضافے کی نذر ہو جائے گی۔ پاکستان کو ڈالر مزید مہنگا کرنا ہو گا۔ بجلی کے نرخ مزید بڑھانا ہوں گے۔ عوام پر مزید ٹیکس لگانا ہوں گے اور بہت کچھ کرنا ہو گا۔ یہ بات بھی سمجھ میں آجائے گی کہ پاکستان کو امریکی کیمپ سے نکلنے کی کیا قیمت ادا کرنا ہو گی۔ یہ بات بھی زیادہ واضح ہو جائے گی کہ پاکستان میں سیاست کیا ہو رہی ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس امر کا بھی ادراک ہو جائے گا کہ پاکستان کے موجودہ معاشی بحران کو صرف ان سیاسی نعروں سے ٹھیک نہیں کیا جا سکتا، جو تحریک انصاف نے رائج کئے ہیں۔ سیاست، معیشت اور تاریخ کو سمجھنے کے لئے ’’تاریخی مادیت‘‘ اور ’’جدلیاتی مادیت‘‘ کے سیاسی فلسفوں کا ادراک بھی ضروری ہے۔

مسئلہ صرف ڈالر مہنگا ہونے کا نہیں ہے، دیگر بہت سے عوامل ہیں، جو پاکستان کی معیشت کو مزید خطرناک بحرانوں سے دوچار کر سکتے ہیں اور اس کے پاکستان کی سیاست اور سماج پر گہرے اثرات ہیں۔ مخصوص طرز کے احتساب سے ’’بلیک اکانومی‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’رئیل اکانومی‘‘ (حقیقی معیشت) کی سرگرمیاں بھی ختم ہو رہی ہیں۔ شرح سود میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی کے ظاہری اثرات کا اندازہ لگاتے ہوئے یہ کہا جا رہا ہے کہ صنعتی شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہو گا اور 5سے 6لاکھ ملازمتیں متاثر ہوں گی۔

حقیقی صورتحال کی نشاندہی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کی گئی ہے۔ یہ رپورٹ ایشیا اور بحر الکاہل کے ملکوں کے سماجی حالات کے بارے میں ہے۔ انتہائی تشویشناک اور شرمناک بات یہ ہے کہ ایشیا اور بحر الکاہل کے ان ملکوں میں سماجی تحفظ، تعلیم اور صحت پر سب سے کم خرچ کرنے والا ملک پاکستان ہے۔ رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش، بھارت، نیپال اور فلپائن اس حوالے سے بہت آگے ہیں اور وہ ‘‘پائیدار ترقیاتی اہداف 2030‘‘ پر عمل کرتے ہوئے 2030ء تک اپنے ہاں ’’انتہائی غربت‘‘ کا خاتمہ کر سکتے ہیں جبکہ پاکستان میں انتہائی غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کے 2کروڑ 30لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ پاکستان صحت پر اپنے جی ڈی پی کا صرف 0.9فیصد خرچ کرتا ہے۔ اس سے قبل اقوام متحدہ کے ترقیاتی اہداف (یو این ڈی پی) کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں انسانی ترقی کی نمو سب سے سست ہے۔ حالات کو مزید سمجھنا ہو تو پاکستان کے دیہی اور شہری علاقوں کی اکثریت غریب آبادیوں کے ساتھ ساتھ درمیانے طبقے کے لوگوں کی گزر بسر، معمولاتِ زندگی اور سماجی رشتوں کو اس طرح حقیقت پسندانہ الفاظ میں بیان کیا جائے، جس طرح کبھی سعادت حسن منٹو نے اپنے افسانوں میں کیا تھا۔ غربت، مہنگائی اور سماجی عدم تحفظ کی وجہ سے ہیجان اور انارکی کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ منٹو انسانی سماج کے سائنسی فلسفوں کا مطالعہ کر چکا تھا۔ موجودہ حکومت مالیاتی خسارے اور زرِ مبادلہ کے ذخائر پر بڑھتے ہوئے دبائو کو کم کرنے سے شاید ہی نکل سکے، ہیجان زدہ سماج میں کئی طوفان اٹھ رہے ہیں۔ سفید پوش اور خوددار لوگ آج اپنی مجبوریوں پر چیخ رہے ہیں، اس طرح پہلے کبھی نہیں تھا۔ اس بات سے خوف آتا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک متفقہ قومی ایجنڈا تشکیل دیا جائے۔ مخصوص ایجنڈے کا اب پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کے اب سیاسی حالات، سیاسی تضادات، عالمی اور علاقائی کردار، ملکی اور غیر ملکی طاقتوں کے مخصوص مفادات وغیرہ کو مدنظر رکھ کر نیا قومی ایجنڈا تشکیل دینا ہو گا۔

تازہ ترین