• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نہ بھارتی وزیرِ خارجہ سشما سوراج اور نہ ہی پاکستان کے وزیرِخارجہ شاہ محمود قریشی یہ سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان ’’گوگلی‘‘ پھینک سکتے کیونکہ وہ اپنے کرکٹ کیرئیرمیں کبھی سپنر نہیں رہے۔ بطورفاسٹ بائولر وہ دونوں اطراف سونگ کرسکتےتھےکرتار پورپرانھوں نےایک آسان سی آہستہ گیندپھینکی اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کے مخالف اسےسیدھے بلےکےساتھ کھیلیں لیکن سیاسی اصطلاح میں یہ ان کی خواہش تھی کہ دونوں ممالک کے درمیان امن کیلئے تمام معاملات پر مذاکر ا ت شروع ہوں۔ لہذا کرتارپور راہداری کے کُھلنے کے بعد سےبھارت کی جانب سے ردِ عمل حیران کن نہیں تھا کیونکہ بی جے پی اورکانگریس دونوں ہی بھارتی الیکشن کی تیاری میں مصروف ہیں جس میں پاکستان کے ساتھ تعلقات ہمیشہ اہم ہوتےہیں۔ سابق بھارتی کرکٹر سےسیاستدان بننے والے نوجوت سنگھ سدھو جو80کی دہائی میں عمران کے خلاف کھیل چکے ہیں، اُن سے زیادہ بہترکون جانتا ہے کہ ان کے دوست بہترین فاسٹ بائولروں میں شامل تھے اور سپنر نہیں تھے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر شاہ محمود نے کرکٹ کھیلی ہوتی تو وہ یہ لفظ استعمال نہ کرتے لیکن سُشماسُوراج اوربی جےپی وکٹ کے دونوں اطراف کھیلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایک جانب وہ پاکستان سے قریشی کےگوگلی کےبیان پر وضاحت مانگ رہےہیں اوردوسری جانب بھارتی کانگر یس پرسدھو کےعیقدےکوسیاست کیلئے استعمال کرنے کا الزام عائد کررہے ہیں۔ مجھے یقین ہےکہ نامور بھارتی کرکٹرجیسےکپل دیواور سنیل گوا سکر سُشماجی کو بتائیں گے کہ عمران گوگلی نہیں پھینک سکتے۔ بھارت کی جانب سے اس طرح کاردِعمل کوئی غیرمتوقع نہیں تھاکیونکہ کرتار پور راہداری کےافتتاح کےموقع پرسُشما سوراج کے ردِ عمل اور جب انھوں نے کئی دن بعد کرتارپورراہدارہ کو خوش آئندقراردیا اس سے ان کی پریشانی ظاہر ہوتی تھی۔ آگراہ سے کرتارپور تک پاکستان بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کیلئے کئی اقدامات کرچکاہے اور حتٰی کہ کرکٹ، کلچرل اور لوگوں کے ساتھ روابط بحال کرنا چاہتاہے۔ مشرف سے عمران خان تک پاکستان مذاکرات میں بھارت کے مقابلے میں زیادہ سنجیدہ نظر آیا۔ ہاں، دونو ں اطراف سے کچھ غلطیاں بھی ہوئیں لیکن اُن سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ چونکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بھارت میں الیکشن کا ایک مسئلہ ہوتا ہے لہذا ہمیں 2019 میں الیکشن کے اختتام تک بھارت کی جانب سے مزید سخت بیانات سننے کو مل سکتے ہیں۔ دوسری جانب پاکستانی انتخابات میں بھارت کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہا کیونکہ کم وبیش تمام ہی جماعتیں پُرامن تعلقات کی خواہاں ہیں۔ دوسرا یہ کہ پاکستانی عوام نےبھارت کے برعکس کبھی بھی شدت پسند جماعتوں کو ووٹ نہیں دیا، جہاں آج بی جےپی سب سے بڑی جماعت ہے جس کی سیاست پاکستان کے خلاف ہی گردش کرتی ہے۔ 25جولائی کےانتخابات کےبعد نومنتخب وزیراعظم عمران خان نے اعلیٰ ظرف کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کوامن عمل کی بحالی کیلئے مذاکرات شروع کرنے کی دعوت دی اور حال ہی میں انھوں نے بھارت کی جانب گیند پھینک دی کہ وہ ’’گرینڈ جیسٹر‘‘ کیلئے بھی تیار ہیں اور ان کے دہشتگردی کے تحفظات کیلئے وہ ان کے ساتھ مل بیٹھنے کو بھی تیار ہیں۔ عمران نہ صرف ایک سیاستدان ہیں بلکہ ایک کھلاڑی بھی ہیں جو ’امن‘ کی اہمیت جانتے ہیں۔ گزشتہ سو دنوں میں اگر ایک ’یوٹرن‘ جو عمران خان نے منتخب ہونے کے بعد ابھی تک نہیں لیا وہ بھارت کے ساتھ امن مذاکرت کی اُن کی خواہش ہے۔ بھارت اور افغانستان کے ساتھ امن کی بحالی کیلئےان کے یکے بعد دیگرے اقدامات سے عمران نے اپنے نقادوں کو بھی خاموش کرادیاہے۔ دوئم، وہ جانتے ہیں کہ حتٰی کہ چین اور سعودی عرب جیسے دوست ممالک بھی چاہتے ہیں کہ پاکستان امن کیلئے اقدامات کرے تاکہ پاکستان سے متعلق دنیا کے موقف میں تبدیلی آئے۔ سوئم، موجودہ حکومت بھی جانتی ہے کہ ملک کی معاشی ترقی کاتعلق بھی امن کے ساتھ ہے۔ چہارم، فوجی قیادت بھی ایک پیج پر ہے اور آخری یہ کہ بطورسپورٹس مین عمران مانتے ہیں کہ دونوں ممالک کے عوام امن چاہتے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے مبارکبادوالے خط کے جواب میں انھوں نے بھی ایک خط لکھا تھا اور مذاکرات کی اپنی خواہش کو دہرایاتھا۔ پھر انھوں نے بھارتی کھلاڑیوں کو اپنی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کی دعوت دی۔ سدھو آئے تھے جبکہ سنیل گواسکر اور کپل دیو نے اپنی مصروفیات کے باعث معذرت کرلی تھی۔ پھر پاکستان نے ڈیڈلاک ختم کرنے کی کوشش کی جب دو وزرائےخارجہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا دورہ کررہے تھے اور اس طرح کا آخری اقدام کرتارپور تھا۔ اس کے برعکس بھارتی کھلاڑیوں کے اُس اقدامات کے باوجودکہ جب موجودہ ٹیم نے عمران خان کیلئے ایک دستخط شدہ بلا بھیجا تھا، بھارت کی بی جے پی حکومت کا ردِ عمل مایوس کن تھا۔ سابق بھارتی کرکٹر سے سیاستدان بننے والے سدھو بغیر ایک لمحے کی تاخیر کے ’امن کےسفیر‘ بن گئے کہ عمران خان نے حال ہی میں کہا،’’اگرسدھو پنجاب سے انتخابات لڑتے ہیں تو وہ جیت جائیں گے۔ لیکن بی جےپی شدت پسند اور غالباً بھارتی اسٹیبلشمنٹ میں موجود انتہا پسندوں نےپاکستان کےامن عمل کے آغاز پر بھارتی ردِعمل کو روک دیا۔ پاکستان نےدہشتگردی کو شکست دینے میں بہت قربانیاں دی ہیں اور 70ہزار جانیں قربان کرکےاس کا بدترین شکار بھی بناہے۔ عمران یہ تسلیم کرنے میں اتنے دلیرتھے کہ بھارت اور پاکستان نے غلطیاں کی ہیں لیکن وہ ماضی کی غلطیوں کو فراموش کرنا چاہتے ہیں۔ کرتار پور راہد ا ر ی کی افتتاحی تقریب میں آئےبھارتی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا،’’ پاکستان بھارت کیلئے بڑے اقدامات کر سکتاہے لیکن نئی دہلی کی جانب سے بھی ردِ عمل آنا چاہیئے۔‘‘ گزشتہ کئی سالوں سے بھارتی سیاست بی جے پی بلکہ مودی کی ذہنیت کے ہاتھوں اس حد تک یرغمال بنی ہوئی ہے کہ حتٰی کہ بھارتی کانگریس بھی پا کستا ن کے ساتھ مذاکرات کی بحالی پر منقسم دکھائی دیتی ہے ۔ دوئم، اس کے برعکس پاکستان کے ساتھ تعلقات اکثر بھارتی انتخابات کا معاملہ ہیں۔

تازہ ترین