اس کے باوجود کہ پاکستان کی مسلح افواج اِس وقت چومکھی جنگ لڑ رہی ہیں اُسے شہری محاذ کھولنے پر اکسایا جارہا ہے جو پاکستانی بری فوج کے لئے سم قاتل ہوگا اور جو خانہ جنگی جیسی صورتحال پیدا کرسکتی ہے کیونکہ اس سے عرب بہار کی طرح پاکستانی بہار جیسا منظرنامہ بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ جس کو سمجھتے ہوئے پاکستانی آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے باضابطہ طور پر کہا ہے کہ اُن کا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ وہ کراچی یا کسی اور جگہ آپریشن کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کراچی میں رینجرز موجود ہے وہ ٹھیک کام کررہی ہے۔ ہم اُن کے خیال سے متفق ہیں اور وہ لوگ جو بار بار فوج کے استعمال کی بات کرتے ہیں اُن کو شاید یہ علم نہ ہو کہ فوج پہلے ہی بہت مصروف ہے، وہ چار قسم کی خون آشام جنگ لڑ رہی ہے جو بہت طویل اور پیچیدہ ہے۔
(1) دوبدو جنگ یعنی مسلح افراد یا دوسرے ملک کی فوج سے جنگ (2) باغیوں اور پاکستانی فوج کا مقابلہ، باغیوں سے پاکستان کی مسلح افواج اس وقت تاریخ کی طویل ترین اور خونریز جنگ میں مصروف ہے۔ اس کی مختلف سرحدیں اور مختلف لڑائی کے طریقے ہیں۔ وادی تیرہ، شوال، وانا، میرانشاہ، میر علی، سوات، باجوڑ، اورکزئی، خیبر، خرم اور مہمند ایجنسیوں میں وہ غیرملکی مدد سے مسلح ہوئے جنگجوؤں سے نبردآزما ہے۔ اپنے اور اپنے درمیان موجود دشمن کو پہچان کر جنگ لڑ رہی ہے۔ اُسے ڈرون حملوں کی وجہ سے بدلہ کی آگ میں مبتلا لوگوں کو ٹھنڈا کرنے میں دقت کا سامنا ہے اور اُسے اپنوں کی مدد سے دشمن سے مقابلے کے لئے قبائلیوں کو تیار کرنے کا مرحلہ درپیش ہے تاکہ یہ علاقہ پھر سے خود اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے اور پاکستان کی مغربی سرحد کے دفاع کا کام سرانجام دے۔ (3) سیاسی اور نفسیاتی جنگ جو ایک سپر طاقت اور دُنیا کی پولیس نیٹو کے وار کو روکنے کی جنگ ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج کو امریکہ کے دباؤ اور اُن حیلہ سازی کے ساتھ پاکستان پر نفسیاتی دباؤ کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان کے باغیوں کو مسلح کرکے اور افغان افواج کے اُن کے ساتھ ملا کر پاکستان پر حملہ کرنے کی صورتحال پیدا کردی ہے، ہماری افواج جابجا چوکیاں قائم کرکے اور افغانستان سے ان حملوں کو روکنے کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ چوتھی جنگ انڈیا کے ساتھ ہے۔ جس کی سات فوجی جھتے Corps یعنی کور نمبر 2، 9، 10، 11، 14، 15 اور 16 پاکستان کا رُخ کئے ہوئے بیٹھے ہیں۔ اُن کی چوتھی آرمڈ ڈویژن، 12 انفنٹری ڈویژن340 وان میکا منزڈ بریگیڈ 6 ہزار سے اوپر، ارجن ٹینک اور سات سو کے قریب لڑاکا طیارے پاکستان کی سمت کھڑے ہوئے ہیں۔ پھر اُن کا بحری بیڑہ ہے جو انتہائی طاقتور ہے جبکہ پاکستان کی نیوی جارحیت کے لئے نہیں صرف دفاع کے نظریہ کے تحت بنائی گئی ہے اگرچہ ساری دُنیا اس پر متفق ہے کہ ہر وہ ملک جو سمندر پر حکمرانی کرے گا وہی دُنیا میں طاقتور ہوگا مگر یہ بات ہمارے یہاں مسلح افواج کی ایک دوسرے سے سبقت کی وجہ سے دبی ہوئی ہے۔ تیسری طرف انڈیا نے "Cold War Start" کا تصور دیا ہوا ہے کہ وہ اپنی تمام طاقت کو مجتمع کرکے یا ضرورت کی طاقت کو مجتمع کرکے لاہور یا صادق آباد کو جدا کرکے پاکستان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردے جواباً پاکستان نے ایسے میزائل بنا لئے ہیں جو 90/50 کلومیٹر تک حملہ کر سکتے ہیں اور جو ایٹمی مواد ساتھ لے جاسکتے ہیں۔ اس کے بن جانے کے بعد ہم نے یہ لکھا تھا "Cold War Start" انڈین ڈاکٹرائن کی موت واقع ہو چکی ہے۔
دوسرے ہم نے حکومت پاکستان کو بار بار متنبہ کیا تھا کہ امریکہ چاہے کچھ بھی کہے مگر اپنی نظر مشرقی سرحد سے نہیں ہٹانی چاہئے۔ مقام شکر ہے کہ انہوں نے ہماری سوچ سے بہتر تیاری کی۔ امریکہ ہمیں بار بار یہ ترغیب دے رہا تھا کہ مشرقی سرحد سے توجہ ہٹا کر مغربی سرحد پر توجہ لگائیں۔ اگرچہ ہم نے ڈیڑھ ڈویژن کے قریب افواج کو مغربی سرحد پر تعینات کی مگر مشرقی سرحد کی اہمیت نظروں سے اوجھل نہیں رہی۔ ہم نے یہ بھی اصرار کرکے لکھا تھا کہ امریکہ کا ارادہ مشرق اور مغرب سے دباؤ بڑھا کر ہمیں سینڈوچ کرنا ہے مگر پھر ایٹمی طاقت بیچ میں آڑے آتی رہی ہے اور ہمارے اسٹرٹیجک ڈویژن نے یورینیم کے علاوہ پلوٹونیم کے میدان میں اور ایسے چھوٹے ایٹمی ہتھیاروں کو بنانے میں توجہ دی جس سے انڈیا کے ہر ڈاکٹرائن کا موثر جواب دیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ اب انڈیا کی طرف سے چھیڑ چھاڑ اور سرحد پر حملہ اور مغرب کی طرف سے افغان فوج کا پاکستان کے باغیوں یا مکتی باہنی قسم کا حملہ اس منصوبہ کی ریہرسل ہے اور شاید امریکہ انتظار کررہا ہے کہ مزید کچھ اور منوانے کے لئے پاکستان پر دباؤ بڑھائے۔ دشمن بہرحال دشمن ہے اور اتنا چھوٹے ذہن کا دشمن ہے کہ جو ہمارے معصوم و معذور کرکٹ ٹیم کے کپتان کو زہر پلانے سے بھی باز نہیں آتا۔ اس کی ذہنی سطح کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جو اُن پر حکمرانی کرچکے ہیں یا اُن کے ساتھ رہ چکے ہیں۔ سندھ اور پنجاب کے بارے میں بنیے جنہوں نے لوگوں کی زمینوں اور جائیدادوں کو گروی رکھا ہوا تھا اور انتظار کررہے ہیں کہ کب پاکستان کو نقصان پہنچے تو وہ اِن لوگوں کے ورثا سے اپنا پیسہ وصول کریں۔
ایسی صورت میں پاکستان کی مسلح افواج کو شہری معاملات میں الجھانا درست نہیں ہے۔ سپریم کورٹ یا چیف الیکشن کمشنر صاحب برادرم محترم فخرو بھائی فوج کے استعمال کی بات کررہے ہیں تاہم مشورہ دیں گے کہ حالات کی روشنی میں فوج شہری علاقہ میں استعمال کرنے سے گریز کریں کہ یہ مناسب نہیں ہوگا کہ فوج کو اس چومکھی جنگ کی بجائے پانچویں قسم کی جنگ میں جھونک دیا جائے جس کا دشمن بے تابی سے انتظار کررہا ہے۔