• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایرانی تیل کے جال میں امریکا اور روس کے درمیان کشیدگی

ماسکو: ہنری فوئے، نستاسیا آسٹاسیاسکایا

لندن : ڈیوڈ شیپئرڈ

میکسیکو کے مرکز میں خستہ حال اینٹوں سے بنی عمارت ہے،جہاں واشنگٹن کا دعویٰ ہے کہ روسی ریاست کے تحفظ کے تحت شام کے تیل کے تاجر ایرانی خام تیل اور اپنے جنگ سے متاثرہ ملک کی حکومت کو رقم کی ترسیل میں مدد دیتے ہیں۔

امریکی وزارت خزانہ کے مطابق روسی وزارت توانائی کے زیر کنٹرول تجارتی کمپنی کی مدد کے ساتھ محمد امیر الشوکی نے اپنی روسی کمپنی ایرانی تیل کی ترسیل اور شام میں ایران سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کو امداد دینے کے پیچیدہ انتظامات چلانے کیلئے استعمال کی۔ واشنگٹن کا کہنا ہے کہ اس منصوبہ کو تہران کے مرکزی بینک سے مقامی دواؤں کی کمپنی اور روسی بینک کے ذریعے نقد رقم پہنچائی جاتی ہے۔

تیل کی تجارت کے جال، جس کی موجودگی کی کریملن نے نہ تصدیق کی ہے اور نہ ہی تردید، ماسکو کی پابندیوں سے متاثر ایران کی تیل کی صنعت اور شام کی حکومت دونوں کی حمایت کی کوششوں کی حد اور تینوں فریقین کے مشترکہ مفادات کو ظاہر کرتا ہے۔

دمشق میں بشارالاسد کی حکومت کیلئے روسی فوجی حمایت اور تہران کے ساتھ سامان کیلئے تیل کے معاہدے نے روس کو خطے میں اہم مؤثر طاقت بنادیا اور واشنگٹن کے غصہ کو متوجہ کیا، جس نے اس ہفتے امیر الشوکی کی کارروائی کا انکشاف کیا اور ان افراد اور تنظیموں کے خلاف پابندیاں عائد کی جارہی ہیں جن کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ وہ ملوث ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک مومپیو نے منگل کو کہا کہ امریکا اپنی مسلسل کوششوں میں ان بدعنوان معاہدوں کو پنپنے نہیں دے گا۔ خطے کو غیر مستحکم کرنے کے لئے ایران کو بین الاقوامی مالیاتی نظام کا استحصال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

روس نے دلیرانہ ردعمل دیا، اس کی وزارت خارجہ نے امریکا کی پابندیوں کو شام ،جس کی مسلح افواج آٹھ سال سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہیں،کو تیل کی فراہمی کی مدد کا الزام عائد کرنے کی کوششوں کے طور پر بیان کیا، جو دہشت گردوں کیلئے حمایت کے ایک بیان کی طرح نظر آتا ہے۔ اس کی وزارت نے مزید کہا کہ ’’ کیا امریکا کے اتحادی واقعی یہ چاہتے ہیں؟؟‘‘

امریکا کی اس ماہ ایران کی برآمدات کو روکنے اور خطے میں اس کے توسیع پسندانہ عزائم کی روک تھام کے مقصد سے پابندیوں کے دوبارہ عائد کرنے کے باوجود ایران تیل کی تجارت جاری رکھنے میں مدد کیلئے کریملن نے اپنے عہد کو خفیہ نہیں رکھا۔ جب پوچھا گیا کہ ایران کا کتنا تیل روس استعمال کرے گا، تو ملک کے مذاکرات سے آگاہ شخص نے فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ جتنا زیادہ سے زیادہ ممکن ہوا۔

امیر الشوکی کے ساتھ اشتراک میں ایرانی تیل میں تجارت کیلئے روسی وزارت توانائی کی جانب سے دوبارہ بحال کی گئی سابق روسی تجارتی کمپنی پرومو سیو میمپورٹ نے مبینہ طور پر ٹینکر استعمال کرکے شام کیلئے ایرانی خام تیل کی ترسیل میں سہلوت فراہم کی، جنہوں نے سراغ لگنے سے بچنے کیلئے اپنا برقیاتی شناخت کے نظام کو بند کردیا تھا۔

امریکی تفتیش کاروں کے مطابق اس کے لئے ادائیگی پھر ایران کے مرکزی بینک کی جانب سے ایرانی بینک میلی کے ذیلی روسی بینک میر بزنس بینک کے ذریعے الشوکی کی کمپنی گلوبل وژن گروپ کو کی گئی، جو ماسکو میں رجسٹرڈ کمپنی 2016 میں قائم کی گئی تھی۔

مذکورہ بالا تیل کی وصولی، شام کے مرکزی بینک نے پھر حزب اللہ شیعہ اسلام پسند تحریک سمیت عسکریت پسند گروپوں کو مبینہ طور پر نقد رقم بھیجی، جس کے جنگجو 2013 سے بشارالاسد حکومت کی حمایت کیلئے شام میں تعینات ہیں،اور انہوں نے ایران سے ان کو فنڈنگ کو راز میں نہیں رکھا۔

امریکی وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کی گئی تصاویر میں امیر الشوکی سگار پی رہے ہیں اور امریکی ڈالروں کے بلوں کے ڈھیر کے ساتھ پوز دے رہے ہیں، اور پرومسیسیو یمپورٹ کے ڈپٹٰ ڈائریکٹر آندرے دوگیو سے گلے مل رہے ہیں۔ ایک ہاتھ سے لکھا نوٹ ظاہر کرتا ہے کہ امیر الشوکی اور حزب اللہ کے ایک اہلکار محمد قاسم نے مشترکہ طور پر ایران کے مرکزی بینک سے 63 ملین ڈالر کی وصولی کا اعتراف کیا۔

روسی وزارت توانائی اور حزب اللہ نے اس پر تبصرہ سے انکار کردیا۔ میر بزنس بینک نے تبصرہ کی درخواست پر جواب نہیں دیا اور جب فنانشل ٹائمز نے امیر الشوکی کے دفتر کی عمارت کا دورہ کیا تو وہاں ان کا کوئی نشان نہیں تھا۔

کریملن کے ترجمان دیمتری پیکو کوف نے نئی پابندیوں پر تبصرہ سے انکار کیا۔ مزید کہا کہ یہ متحدہ ریاست ہائے امریکا ہے جس سے ان نئی پابندیوں کیلئے دلائل کے بارے میں پوچھنے کی ضرورت ہے۔

ایرانی وزارت خارجہ کیلئے ترجمان نے کہا کہ پابندیاں بے بنیاد، غیر منطقی اور غیر مؤثر تھیں۔

ترجمان نے ریاستی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ جن لوگوں نے انہیں تیار اور عائد کیا وہ جلد یا بدیر سمجھ جائیں گے کہ وہ اپنے مقاصد حاصل نہیں کرپائیں گے۔

شام کی سات سالہ طویل خانہ جنگینے اس کی تیل کی صنعت کو نابود کردیا اور اس کے اتحادی ایران پر اس کا انحصار رہ گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے تخمینوں کے مطابق ، سابق خالص برآمد کنندگان نے 2016 میں دس ہزار بیرل کی پیداوار کی جو 2010 میں ہونے والی تین لاکھ چھیاسی ہزار بیرل سے کہیں کم ہے۔

تہران نے ایندھن کی درآمدات کے لیے دمشق کو کئی بلین ڈالر کریڈٹ لائن( قرض کی زیادہ سے زیادہ حد) دی۔ امریکی انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے مطابق یہ ملک کو فی دن ساٹھ ہزار بیرل فراہم کرتا ہے،اگرچہ یہ طلب کو پورا نہیں کرتا۔

دریں اثناء، شام بحری جہازوں اور گاڑیوں کے علاوہ درجنوں جنگی لڑاکا طیاروں سمیت روسی فوج کی موجودگی کا انحصار قابل اعتماد ایندھن کی فراہمی پر ہے۔

امریکی وزارت خزانہ کے مطابق یہ صرف روسی ادارے نہیں ہیں جو واشنگٹن کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں بلکہ یورپی کمپنیاں بھی ہیں جنہوں نے سوز کینال کے ذریعے میر الشوکی کی ترسیلات کی گزرگاہ کا بیمہ کیا تھا۔

بات چیت سے آگاہ افراد نے فنانشل تائمز کو بتایا کہ امریکی حکام نے بین الاقوامی انشورنس گروپوں سے رابطہ کیا ہے کہ ایران سے شام تیل لے جانے والے ٹینکروں کی انشورنس کے خلاف انہیں متنبہ کیا ہے۔

امریکی وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ ٹینکروں کی فہرست جو 2016 سے شام گئے ان میں کم از کم دو روسی پرچم بردار جہاز بھی شامل ہیں۔ ایک ایک ٹی ویگا،نے گزشتہ ماہ سامرا کے قریب روسی ریفائنریز سے قبرص میں لیما سول کا سفر کیا تھا، جو بحری جہا سے براہ راست بحری جہاز تیل کی منتقلی پھر مختصر فاصلہ پر شام کی بندرگاہ تک لے جانے کیلئے معروف بندرگاہ ہے۔

شام کی حکومت کے حامی ایک ماہر اقتصادیات ڈاکٹر عمار یوسف نے فنانشل تائمز کو بتایا کہ آیا ایران سے شام کو فنڈز اور تیل کا بہاؤ روکنے میں امریکی دباؤ کامیاب ہوگا یہ واضح نہیں ہے۔ کارروائی میں ملوث افراد کے خلاف امریکی پابندیاں اسے سبوتاژ کرنے میں شاید ناکام ہوسکتی ہیں اور تیل کی فراہمی متاثر ہونے کا امکان نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ممنوعہ تاجر محمد امیر الشوکی کو دیگر تاجروں یا تجارتی کمپنیوں جو ضروری نہیں کہ شام کی ہوں،کے ساتھ تبدیل کرنا آسان ہے۔ 

تازہ ترین