• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بات کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہے اور نہایت گمبھیر بھی۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ موجودہ دور میں قومی ترقی اور روشن مستقبل کا انحصار زیادہ تر اعلیٰ معیاری تعلیم اور ٹیکنالوجی پر ہے۔ موجودہ دور میں کوالٹی ایجوکیشن اور ٹیکنالوجی معاشی خوشحالی کا بہترین ذریعہ بن چکی ہیں اور سائنس کے میدان میں تحقیق بین الاقوامی سطح پر قوموں کے وقار کی ضمانت دیتی ہے۔ میں سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر دونوں حیثیتوں سے تعلیم سے وابستہ رہا ہوں اور تعلیمی تنزل کا عینی شاہد ہوں۔ میرا اس نسل سے تعلق ہے جس نے قیام پاکستان کے فوراً بعد اسکول جانا شروع کیا اور جسے انگریزوں کا قائم کردہ نظام ورثے میں ملا۔اس نظام کے معیار کا اندازہ اس سے کیجئے کہ ہماری ڈگری کو دنیا بھر کے ممالک میں برابری کی سطح پر تسلیم کیا جاتا تھا اور ہمارے گریجویٹس کو پوسٹ گریجویشن میں داخلہ ملتا تھا۔میرے ساتھ گورنمنٹ کالج لاہور میں ملائیشیا سے لے کر ترکی تک کے طلبہ پڑھتے تھے اور ہماری میڈیکل ایجوکیشن کا معیار اتنا اعلیٰ اور مستند تھا کہ دنیا بھر سے طلباء پاکستان میں ایم بی بی ایس کرنے آتے تھے۔ اب یہ سلسلہ الٹا ہوچکا ہے اور ہمارے خوشحال خاندانوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ امریکہ، یورپ کے علاوہ ملائیشیا اور ترکی بھی اعلیٰ تعلیم کے لئے جارہے ہیں۔ کوئی پندرہ سولہ برس پہلے میں امریکہ کی ممتاز درس گاہ برکلے یونیورسٹی میں ایک ہفتے کے لئے مہمان تھا جہاں مجھے سائوتھ ایشن اسٹڈیز کے انڈر گریجویٹ طلبہ کو لیکچرز دینا تھے۔شعبے کے صدر نے میرے اعزاز میں ایک چھوٹی سی تقریب کا انتظام کیا جس میں تقریر کرتے ہوئے اس نے کہا ہم پاکستان سے آنے والے طلبہ کی ڈگری 1970تک تسلیم کرتے تھے لیکن اس کے بعد نہیں۔ مطلب یہ کہ اس کے بعد داخلے کے لئے امتحانات پاس کرنا ضروری ہیں،وجہ تعلیمی معیار کا تنزل۔ ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھایا جانے والا کورس و سلیبس پرانا اور طریقہ تعلیم دہائیوں پرانا ہے جبکہ دنیا ان میدانوں میں بہت ترقی کرچکی ہے۔ عالمی رینکنگ کی یونیورسٹیاں ہر سال اپنے کورس ،سلیبس پر نظر ثانی کرکے اسے عالمی تقاضوں کے مطابق بناتی ہیں جبکہ ہمارے ہاں اس طرح کا نظام موجود ہی نہیں۔ دنیا بھر کے ممالک میں ریسرچ پر حددرجہ توجہ دی جاتی ہے اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدانوں میں ریسرچ کے لئے بہت زیادہ وسائل مختص کئے جاتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں ریسرچ نامی شے تقریباً ناپید ہوچکی ہے۔ پبلک یونیورسٹیاں گروہی سیاست اور سازشوں کا گڑھ بن چکی ہیں، کورس، سلیبس تعلیمی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں، ریسرچ دم توڑ چکی ہے، چنانچہ ان یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کا تعلیمی معیار عام طور پر عالمی سطح سے کم تر ہوتا ہے۔ پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں چند ایک کے علاوہ دولت کمانے پر زور ہے نہ کہ تعلیم دینے پر۔پرائیویٹ سیکٹر میں موجود بہت سی یونیورسٹیاں دیکھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ ادارے محض کاروباری مقاصد کے تحت دولت کمانے کے لئے قائم کئے گئے ہیں۔ ان میں نہ تعلیم کا معیار ترجیح ہے اور نہ ہی ریسرچ نامی شے موجود ہے۔ سارا زور زیادہ سے زیادہ طلبہ لانے اور انہیں کسی نہ کسی طرح ڈگری دینے پر ہے۔ میرے ذاتی مشاہدے اور تجربے کے مطابق ان کا سارا تعلیمی نظام جعل سازی کے پردے میں لپٹا ہوا ہے۔ کتنے ہی پروفیسروں نے رازدارانہ لہجے میںبتایا کہ انہیں اپنے شعبے میں چند ایک انتہائی نالائق طلبہ کے علاوہ کسی کو فیل کرنے کی اجازت نہیں اور اگر ہم میرٹ اور معیار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے نمبر دیتے ہیں تو دکاندارانہ ذہنیت کے مالکان کا پیغام آتا ہے کہ کیا یونیورسٹی بند کرانے کا ارادہ ہے۔ اس ضمن میں سب سے ز یادہ خطرناک صورت میڈیکل کے تعلیمی شعبے میں ہے کیونکہ میڈیکل ایجوکیشن خاصی مہنگی اور مالکان کی تجوریاں بھرنے کا ذریعہ ہے۔ لاہور کی ایک معروف یونیورسٹی کے ایک سابق پروفیسر صاحب مجھے بتارہے تھے کہ وہ جب چالیس برس کی سروس کے بعد سرکاری شعبے سے ریٹائر ہوئے تو ان کی اعلیٰ فارن ڈگریوں کےسبب ایک پرائیویٹ یونیورسٹی نے انہیںمیڈیسن کے شعبے میں پروفیسری کی آفر کی۔ وہ پاکستان سے باہر چند ایک یورپی ممالک میں بھی خدمات سرانجام دے چکے تھے، چنانچہ قومی خدمت کے جذبے سے یہ آفر قبول کرلی۔ پہلے سمسٹر میں نرمی کے باوجود انہوں نے چند طلبہ کو فیل کردیا، رزلٹ کنٹرولر امتحانات کے پاس پہنچا تو دوسرے دن یونیورسٹی مالک تشریف لائے۔ یہ محض اتفاق ہے کہ یونیورسٹی بنانے سے قبل وہ صاحب جہاں جہاں بھی رہے، داستاں چھوڑ آئے۔ انہوں نے آتے ہی پروفیسر صاحب کو رزلٹ شیٹ تبدیل کرنے اور طلبہ کو پاس کرنے کا حکم دیا اور وہی بات کی جو پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے مالکان کہتے ہیں’’ کیا یونیورسٹی بند کروانی ہے‘‘۔ میرے محترم ڈاکٹر صاحب نے انکار کردیا اور استعفیٰ دے کر گھر تشریف لے آئے۔ ان کے جانشین نے یقیناً فیل شدہ کو پاس کردیا ہوگا کہ گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔ لوگ نالائق ڈاکٹروں کے ہاتھوں مرتے ہیں تو مرتے رہیں۔ بعض نجی یونیورسٹیوں میں ایم فل کی ڈگریاں بانٹی جاتی ہیں۔ عام طور پر ایم فل کا پروگرام ہفتے اتوار کے دن چلایا جاتا ہے تاکہ ملازم حضرات بھی ا یم فل میں داخلہ لے سکیں۔ صوبائی محکمہ تعلیم کے اساتذہ کو ایم فل کرنے پر ماہانہ الائونس ملتا ہے جس کی کشش انہیں پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں کھینچ لاتی ہے۔ ایم فل میں ریسرچ کرنا پڑتی ہے اور تھیسس لکھنا پڑتا ہے جو محنت اور وقت کا تقاضا کرتا ہے۔ ایم فل میں داخلہ لینے والے اساتذہ کے پاس وقت کم ہوتا ہے کیونکہ ان کی اکثریت کالجوں میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ ٹیوشنزبھی پڑھاتی ہے۔ مجھے کہنے دیجئے کہ ہمارے زمانہ طالبعلمی میں ٹیوشن کا کوئی تصور نہیں تھا نہ ٹیوشن پڑھانے کے بڑے بڑے تجارتی سنٹرز ہوتے تھے۔ میرے مشاہدے کے مطابق ہمارے تعلیمی انحطاط کا ایک بڑا سبب دولت کی ہوس ہے جس نے ہمارے اساتذہ کی اکثریت کو ٹیوشنز پڑھانے اور اکیڈمیاں کھولنے پر لگادیا ہے، چنانچہ چوبیس گھنٹوں میں بارہ چودہ گھنٹے پڑھانے والا استاد کلاس میں محض وقت گزارتا ہے اور ساری توجہ پرائیویٹ ٹیوشنوں پر دیتا ہے۔ نجی شعبے کی کئی یونیورسٹیوں کے اساتذہ سے ملاقاتوں کے بعد پتہ چلا کہ عام طور پر ایم فل کے تھیسس نقل کے ساتھ ساتھ زبانی امتحان کی جعل سازی کے سبب بھی منظور ہوجاتے ہیں۔ ایکسٹرنل ممتحن عام طور پر کارروائی ہوتی ہے۔ اس طرح ایسے طلبہ کی بڑی کھیپ ڈگریاں لے کر میدان میں آرہی ہے جن کے دامن علم اور ریسرچ دونوں سے تہی ہیں۔ پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں چونکہ دولت سازی مطمح نظر نہیں ہوتا اس لئے وہاں یہ تعلیمی جعل سازی کم ہے لیکن نجی شعبے کی اکثریت کا مقصد کوالٹی ایجوکیشن نہیں بلکہ دولت کمانا ہے، چنانچہ ہر قسم کے طریقے کو جائز سمجھا جاتا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن اس صورتحال سے نپٹنے میں ناکام رہا ہے اگر کمیشن کبھی سروے کرکے جانچ پڑتال کرے تو اندازہ ہوگا کہ نجی یونیورسٹیوں کے مالکان نے کس رفتار سےارب پتی بننے کی رفتار طے کی ہے اور تعلیم کے نام پر کمائی گئی آسان دولت سے اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لئے کیا ہتھکنڈے اختیار کئے ہیں۔ کالم کی تنگ دامنی کے سبب بہت کچھ نہ کہہ سکا۔ مختصر یہ کہ ہمارے ملک میں اعلیٰ تعلیم اور ریسرچ مسلسل تنزل کا شکار ہے اس آئینے میں اپنے قومی مستقبل کا اندازہ خود کرلیجئے کیونکہ میرے نزدیک یہ ایک قومی المیہ ہے۔ بہت بڑا المیہ!! اسکول ایجوکیشن کا مسئلہ بھی گمبھیر ہے۔ موجودہ حکومت ڈھائی کروڑ بچوں کو اسکولوں میں لاسکے گی یا نہیں، یکساں نظام تعلیم کی راہ میں کیا مشکلات حائل ہیں ان پر پھر کبھی....!!

تازہ ترین