• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں آپ کو بس اتنا بتا سکتا ہوں کہ اندرونِ خانہ حیرت انگیز اور غیر معمولی قانون سازی کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ پہلے ایک سو دنوں میں ہماری حکومت ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی ہوئی نہیں تھی۔ بغیر کسی پبلسٹی کے انہماک سے غیر معمولی قانون سازی کی کاغذی کارروائیوں میں جتی ہوئی تھی۔ مسودے تیار ہو رہے تھے۔ قانون اور قوانین سے وابستہ ماہرین کو دکھائے جا رہے تھے۔ ان کی آرا کو مد نظر رکھتے ہوئے مسودوں میں ترامیم کی جا رہی تھیں۔ ہماری حکومت نے بنیادی خامیوں کا کھوج لگا لیا ہے۔ ان خامیوں نے ترقی کی راہوں میں سیسہ پلائی رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔ ہم ترقی سے کوسوں دور ہوتے جا رہے ہیں۔ آپ کھوکھلی بنیاد پر ایک عظیم اور پائیدار عمارت کھڑی نہیں کر سکتے ۔ ہماری حکومت ان حقائق سے آگاہ ہے۔ افسوس کہ موجودہ حکومت سے پہلے پچھلی حکومتوں نے بنیادی خامیوں کی طرف کبھی توجہ نہیں دی تھی۔ ہماری حکومت نے بنیادی خامیوں کو دور کرنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ مسائل کی فہرست میں یہ ان کی اولین ترجیح ہے۔ پچھلی کتھا میں آپ کو میں نے ووٹ دینے والوں کو بااختیار کرنے کی قانون سازی کے بارے میں بتایا تھا۔ عوام الناس یعنی آپ کو اور مجھے بااختیار Empower کرنے کے لئے قانون سازی کی جائے گی۔ ہم ووٹ دینے والے جس شخص کو ووٹ دے کر اسمبلی کا ممبر بنائیں گے۔ اگر وہ ممبر ہم ووٹ دینے والوں کی توقع پر پورا نہ اترا، تو پھر ہم ووٹ دینے والے اپنا ووٹ واپس لے کر اس ممبر کو اسمبلی سے فارغ کروا سکیں گے۔ منطق یہ ہے کہ ووٹ دے کر ہم جس شخص کو اسمبلی کا ممبر بناتے ہیں، وہ شخص اسمبلی میں ہماری نمائندگی کرتا ہے۔ اس کا ہماری توقعات پر پورا اترنا لازمی ہے۔ اگر ہم ملازم رکھ سکتے ہیں، تو ناقص کارکردگی کی بنا پر ہم اس ملازم کو ملازمت سے فارغ بھی کر سکتے ہیں۔

کسی دفتر میں کلرک لگنے کے لئے امیدوار کا پڑھا لکھا ہونا لازمی سمجھا جاتا ہے۔ کلرک لگنے کے لئے عمر کی ایک حد مقرر ہوتی ہے جو پچیس برس کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ امیدوار کا صحت مند ہونا لازمی ہوتا ہے۔ مگر اسمبلی کا ممبر بننے اور قانون سازی کرنے کے لئے آپ کا پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں ہے۔ پچھلے اکہتر برس میں اَن پڑھ ممبروں کی ایک فوج ظفر موج قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں براجمان ہو چکی ہے۔ اسمبلی ممبر بننے کے لئے عمر کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ آپ بڈھے کھوسٹ ہوں یا قبر میں پیر لٹکائے بیٹھے ہوں، آپ اسمبلی ممبر یعنی ایم این اے یا پھر ایم پی اے بن سکتے ہیں۔ مگر کلرک نہیں لگ سکتے۔اجلاس کے دوران آپ اونگھ سکتے ہیں،سو سکتے ہیں، چاہیں تو آپ خراٹے بھی لے سکتے ہیں۔ اسمبلی ممبر بننے کے لئے کسی ممبر کا صحت مند ہونا ضروری نہیں ہے۔ ہکلے اور توتلے اور بائولے بھی اسمبلی کے ممبر بن سکتے ہیں۔

مسلسل کھانسنے والے بھی اسمبلی ممبر بن سکتے ہیں ۔ مطلب یہ کہ اسمبلی ممبر بننے کیلئے آپ کا صحت مند ہونا ضروری نہیں ہے۔ آپ کو ویل چیئر پر بٹھا کر یا پھر اسٹریچر پر ڈال کر اسمبلی میں لایا جا سکتا ہے۔ مگر کسی دفتر میں کلرک لگنے کے لئے آپ کا صحت مند ہونا ضروری ہے۔ آپ کو فٹنس سرٹیفکیٹ حاصل کرنا پڑتا ہے۔ وہی کلرک جب ساٹھ برس کا ہوتا ہے، تب اس کو ملازمت سے ریٹائر ہونا پڑتا ہے۔ مگر اسمبلی ممبر ریٹائر نہیں ہوتے۔ وہ ساٹھ برس کے ہو جائیں، ستر برس کے ہو جائیں، اسی، نوے یا پھر سو برس کے ہو جائیں، وہ اسمبلی کے ممبر بن سکتے ہیں اور ممبر رہ سکتے ہیں۔ سندھ کے ایک بہت بڑے زمین دار اور ایک جنگجو قبیلے کے سردار جو قطعی ان پڑھ تھے، وہ اسمبلی کے ایوانوں میں پل کر جواں ہوئے تھے۔ وہ حضرت جنرل ایوب خان کے مارشل لا سے پہلے اسمبلی کے ممبر ہوتے تھے۔ ایوب خان کے دورِ اقتدار میں بھی سردار سائیں اسمبلی ممبر تھے۔ فیلڈ مارشل ایوب کے دورِ اقتدار کے بعد سردار سائیں جنرل یحییٰ خان کے دور حکومت میں بھی اسمبلی میں اونگھتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ جنرل یحییٰ خان کے بعد سردار سائیں، ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار میں بھی اسمبلی میں جمائیاں لینے کے لئے اسمبلی میں بیٹھے ہوئے ہوتے تھے۔ سردار سائیں جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی اسمبلی کے ممبر ہوتے تھے۔ ان کو بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے پہلے دور میں اسمبلی اجلاس کے دوران خراٹے لیتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ سردار سائیں شروع سے ہی اللہ کو پیارے تھے۔ اس لیے لگا تار اسمبلی کے ممبر منتخب ہوتے رہتے تھے۔ ایک روز وہ اللہ کو بہت زیادہ پیارے ہو گئے۔ سردار سائیں چالیس برس اسمبلی میں بیٹھے ہوئے، اونگھتے ہوئے، جماہیاں لیتے ہوئے اور کبھی کبھار سوتے ہوئے پائے گئے تھے۔ ان چالیس برسوں میں اسمبلی اجلاسوں کے دوران سردار سائیں کے منہ سے ایک شبد یعنی ایک لفظ نہیں نکلا تھا۔ وہ اکیلے اس نوعیت کے واحد ممبر نہیں تھے۔ سردار سائیں کے ہمنوائوں کی ایک فوج ظفر موج اسمبلیوں میں دیکھی گئی ہے۔ موجودہ حکومت نے اس مضحکہ خیز خامی کا سختی سے نوٹس لیا ہے۔

اسمبلی کو موثر بنانے کے لئے قانون سازی کی کاغذی کارروائیاں مکمل ہو چکی ہیں۔ آئندہ آپ کو سست، کاہل، جماہیاں لینے والے، ڈکار لینے والے، اونگھنے والے اور اجلاس کے دوران اسمبلی میں سو جانے والے ممبر دکھائی نہیں دیں گے۔ منتخب ہونے کے بعد ممبر کو میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہونا پڑے گا۔ صحت مند ممبروں سے برجستہ اسمبلی بنتی ہے۔ پچھلے اکہتر برس میں پاکستان بیمار اسمبلی ممبران اور ان کی آل اولاد کے بیرون ملک علاج پر دس لاکھ، دس ہزار، تیرہ سو تیس ارب کھرب روپے ڈالروں اور پائونڈز کی صورت میں خرچ کر چکا ہے۔ اب یہ عیاشی اسمبلی ممبران کو میسر نہیں ہو گی۔ ایم این اے اور ایم پی اے ایک لحاظ سے سرکاری ملازم ہوتے ہیں۔ ان کو ہر ماہ تنخواہ ملتی ہے لہٰذا ان پر سرکاری ملازمین والے قوانین لاگو کئے جا رہے ہیں۔ ایم این اے اور ایم پی اے بننے کے لئے کم از کم عمر پچیس برس ہو گی۔ سرکاری ملازمین کی طرح ان کو ساٹھ برس کے ہو جانے کے بعد لازمی طور پر ریٹائر کر دیا جائے گا۔ سٹھیا یعنی ساٹھ برس کا ہو جانے کے بعد کوئی شخص اسمبلی میں بیٹھنے کا مجاز نہیں ہوگا، پھر وہ چاہے منتخب رکن ہو، اسمبلی کا نائب قاصد ہو، یا چوکیدار ہو، اس پر اسمبلی کے دروازے بند کر دیئے جائیں گے۔

اس سلسلے کی ایک اہم قانون سازی آپ کے گوش گزار کر دوں۔ منتخب ہو جانے کے بعداور حلف برداری سے پہلے تمام ارکان کو دس سطور پر مشتمل ایک مضمون لکھنے کو دیا جائے گا۔ مضمون پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں بولی جانے والی کسی بھی زبان میں لکھنے کی اجازت ہو گی۔ فیل ہونے کی صورت میں آپ کو رکنیت سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ مضمون کا موضوع ہو گا:

’’میں اسمبلی کا ممبر کیوں بننا چاہتا ہوں۔‘‘

تازہ ترین