• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف کی حکومت کو کسی دشمن کی ضرورت ہی نہیں

اسلام آباد :اپوزیشن جماعتیں حکومت کو حکمرانی کا اور کارکردگی دکھانے کا موقع دینا چاہتی ہیں جبکہ ریاستی اداروں کی بھی حکومت کو مکمل حمایت حاصل ہے لیکن حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کسی اور کے مقابلے میں خود کو زیادہ نقصان پہنچا رہی ہے۔ کئی یو ٹرن اور تنازعات سے بھرپور حکومت کے 100؍ دن مکمل کرنے کے چند دن بعد ہی وزیراعظم عمران خان نے ممکنہ طور پر مڈ ٹرم الیکشن کا عندیہ دیدیا ہے۔ پاکستان کو استحکام کی اشد ضرورت ہے لیکن پی ٹی آئی کی حکومت شاید ایسا نہیں چاہتی۔ بصورت دیگر وزیراعظم اتنی جلدی مڈ ٹرم الیکشن کی بات کیوں کریں گے وہ بھی اس وقت جب حکومت کو کسی بھی جانب سے کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ اپوزیشن کی پیشگوئی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت اپنی ہی غلطیوں کا شکار ہو سکتی ہے اور اب یہ پیشگوئی درست ہوتی معلوم ہوتی ہے۔ کئی لوگوں کو حیرانی ہوگی کہ وزیراعظم اور ان کی حکومت نے اپنے ایجنڈے اور پر توجہ مرکوز رکھنے کی بجائے مسلسل جارحانہ اپوزیشن جیسا رویہ برقرار رکھا ہوا ہے۔ حکومتیں عموماً سیاسی استحکام اور کم جارحانہ اپوزیشن کی خواہاں ہوتی ہیں لیکن عمران خان کی حکومت کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کا رویہ اس قدر عجیب ہے کہ عمران خان کی اپنی ہی چوائس اور پارٹی کے پرانے کارکن صدر مملکت عارف علوی کو وزیراعظم کو یہ کہنا پڑا کہ وہ تنقید پر ردعمل دینے کی بجائے اپنا کام کریں۔ پاکستان کو سنگین معاشی چیلنجز درپیش ہیں۔ حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ملک کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز رکھے جس کیلئے سیاسی استحکام ضروری ہے۔ لیکن بدقسمتی سے، حکومت ایسا ہونے نہیں دینا چاہتی اور اس کے جواب میں پاکستانی روپے کی قدر میں بے مثال گراوٹ آ رہی ہے، گزشتہ ساڑھے تین ماہ کے دوران حکومت کی جانب سے اسٹیٹ بینک سے لیا جانے والا قرضہ بہت زیادہ ہے، ایف بی آر کی آمدنی میں کمی بھی 100؍ ارب روپے تک پہنچ گئی ہے، اوورسیز پاکستانیز جو عمران خان کا سہارا سمجھے جاتے تھے کہ وہ ملک میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری لائیں گے، وہ بھی وزیراعظم کی صدا پر جواب دینے سے ہچکچا رہے ہیں، اسٹاک ایکسچینج غیر محفوظ ہے اور پاکستان بھر کے کاروباری افراد پریشان ہیں۔ اگرچہ ایسے معاشی ماہرین اور میڈیا مبصرین موجود ہیں جو آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج لینے کا فیصلہ نہ کرنے کی وجہ سے وزیر خزانہ اسد عمر کو صورتحال ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ لیکن دیگر لوگوں کا اصرار ہے کہ معاشی پالیسیاں چاہے کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہوں لیکن ایسی پالیسیوں کے ثمرات کا انحصار سیاسی استحکام پر ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے کوئی اور نہیں بلکہ حکومت خود ایسا ہوتے نہیں دیکھنا چاہتی، وہ اپوزیشن کو مشتعل کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑ رہی۔ 2018ء کے متنازع الیکشن کے بعد اور اپوزیشن جماعتوں کے دھاندلی کے الزامات کے باوجود، صرف ایک آواز عمران خان کے سیاسی حریف مولانا فضل الرحمان کی تھی جو پی ٹی آئی کی حکومت بننے نہیں دینا چاہتے تھے اور انہوں نے اپوزیشن پارٹیوں کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی تاکہ حکومت گرائی جا سکے۔ پی ٹی آئی کیلئے سب سے بڑے فائدے کی بات یہ تھی کہ اتحادیوں کی مدد سے حاصل ہونے والی معمولی اکثریت کے باوجود سرکردہ سیاسی جماعتوں (نواز لیگ اور پی پی) نے اعلان کیا کہ وہ حکومت کو گرانے کی کسی کوشش کا حصہ نہیں بنیں گی۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف، پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرپرسن آصف زرداری نے عجیب انداز سے قومی و عوامی اہمیت کے معاملات میں حکومت کی مدد کی پیشکش کی۔ لیکن عجیب بات ہے کہ کچھ سرکاری وزیروں نے اپوزیشن کی پیشکش کو مسترد کردیا اور کہا کہ یہ اپوزیشن کی جانب سے این آر او مانگنے کا طریقہ ہے۔ وزیراعظم عمران خان بھی اپوزیشن پر تنقید کے معاملے میں تیز ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی مدد کے بغیر کوئی بڑا اصلاحاتی ایجنڈا لا سکتی ہے اور نہ ہی قانون منظور کرا سکتی ہے۔ نجی محفلوں میں پی ٹی آئی کے وزراء اعتراف کرتے ہیں کہ وہ اپوزیشن ارکان اور اپنے مخالفین کو اسلئے چور ڈاکو کہتے ہیں کیونکہ ان پر کارکنوں اور ووٹروں کا دبائو ہے، انہیں یہ احساس بھی نہیں کہ حکومت ایسے نہیں چل سکتی۔

تازہ ترین