• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ذوالفقار چیمہ ایک سینئر پولیس افسر ہیں۔ لکھنے لکھانے کا بھی شوق رکھتے ہیں۔ کافی عرصہ پہلے ان کا ایک کالم پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں انہوں نے اپنی ملازمت کے دوران پیش آنے والا ایک واقعہ بیان کیا ہے ۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ انہوں نے عوامی رابطے کے لئے کھلی کچہری کا حکم دیا ۔ جب کھلی کچہری کا انتظام ہو چکا تو وہ عوام سے ملنے کے لئے وہاں طے شدہ وقت پر پہنچ گئے کیونکہ اس کھلی کچہری کا انتظام متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او نے کیا تھا اس لئے وہ جلد ہی بھانپ گئے کہ علاقے کے ”معززین“ کافی تعداد میں جمع ہیں۔ انہوں نے ڈی ایس پی سے استفسارکیا کہ کیا علاقے کا ایس ایچ او ایماندار شخص ہے تو اس نے فوراً جواب دیا کہ ”سمجھدار“ شخص ہے۔
آج میں بھی آپ کو ایک ایسے ہی ”سمجھدار“ پولیس افسر کی کتھا سناؤں گا۔ موصوف کوئی چھوٹے موٹے پولیس افسر نہیں ہیں بلکہ مقابلے کے امتحان میں نمایاں پوزیشن حاصل کر کے اے ایس پی بھرتی ہوئے تھے۔ شروع ہی سے بڑی ”سمجھداری“ سے نوکری کرتے رہے اور چند ایک کو چھوڑ کر کبھی کسی غیر اہم جگہ پر تعینات نہیں رہے۔ آج کل انیسویں گریڈ میں ہیں اور جلدہی ڈی آئی جی کے عہدے پر ترقی پانے والے تھے۔ ”تھے“ میں نے اس لئے استعمال کیا کہ اپنی پچھلی تعیناتی کے دوران ،جو کہ ہر لحاظ سے ایک انتہائی اہم عہدے پر تھی، ایک ”چھوٹے“ سے واقعے کی وجہ سے معطل ہو گئے ۔ہوا یوں کہ ایک بہت بڑی کاروباری شخصیت کے بیٹے کی ”معمولی غفلت“ کی وجہ سے دو چار ”عام“ آدمی جان سے گئے اور ”بُرا“ ہو چیف جسٹس پاکستان کا کہ بیٹھے بٹھائے اس واقعے کا ازخود نوٹس لے لیا اور موصوف کو معطل کر دیا۔ حالانکہ اس طرح کی ”معمولی غفلت“ تو پولیس کی نوکری میں معمول کی بات ہے (اور پھر اس طرح کی ”معمولی غفلتوں“ کے نتائج سے خود کو اور معاشرے کے بالادست طبقے کے ”دوستوں“ کو بچا لینا بھی ہماری پولیس کے ”قابل “ اور ”سمجھدار“ افسروں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے) اور خود موصوف کی اپنی نوکری کے دوران ایسی ”معمولی غفلتوں“ کی بیسیوں مثالیں موجود ہوں گی لیکن پہلے کبھی کوئی قیامت نہیں آئی۔ خیر بُرا وقت جو قسمت میں لکھا ہو دیکھنا ہی پڑتا ہے۔
معطل کیا ہوئے کہ پولیس افسری کی تمام ”نعمتوں“ سے محروم ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا کچھ ” نعمتیں“ تو بڑی عارضی ثابت ہوئیں اور عہدے کے ساتھ فوراً ہی رخصت ہو گئیں لیکن کچھ”نعمتیں“محکمے میں موجود دوستوں اور ماتحتوں کے ” تعاون“ سے اس بُرے وقت میں بھی میسر ہیں۔ جو کھو گئیں ان کا ذکر کیا کرنا البتہ جو رہ گئیں ہیں ان کی تھوڑی سی تفصیل بتائے دیتا ہوں۔ عہدہ چھوٹتے ہی اپنے ذاتی گھر میں شفٹ ہونا پڑ گیا تھا، اب وہیں اس مشکل وقت سے نبرد آزما ہیں۔ چار پولیس کے ڈرائیور ہیں، دو ایک ڈی پی او دوست نے بھجوا دےئے ہیں اور دو دوسرے ڈی پی او دوست نے۔ گزارہ چل رہا ہے !! ایک بیگم صاحبہ کے ساتھ ڈیوٹی کر رہا ہے اور دوسرا بچوں کو اسکول اور اکیڈمی سے لیکر آتا اور لے جاتا ہے، تیسرا صاحب کے لئے مخصوص ہے وہ علیحدہ بات ہے کہ جب سے صاحب معطل ہوئے ہیں بہت کم باہر جاتے ہیں لیکن ایک ڈرائیور تو ہمہ وقت حاضر رہتا ہے اور چوتھا اس سرکاری ہائی لکس ڈالے کے ساتھ چلتا ہے جو گھر کے چھوٹے موٹے سامان لانے کے لئے چوبیس گھنٹے مع سرکاری تیل موجود رہتا ہے۔ ایک باورچی کا انتظام اس تربیتی ادارے سے ہو گیا جہاں صاحب کچھ عرصہ پہلے تعینات رہے تھے۔ گھر میں کوئی چھوٹا موٹا مرمت کا کام نکل آئے تو وہ بھی ادارے کے اہلکار آ کے کر جاتے ہیں، سامان بھی خود لے کر آتے ہیں اور مزدوری کی بچت علیحدہ۔ اسی طرح چار لانگری اور ایک گن مین بھی کچھ اردگرد کے اضلاع میں تعینات محکمے کے دوستوں نے بھجوا چھوڑے ہیں۔ لانگری گھر کے کام کرتے ہیں اورگن مین صاحب ، بیگم اور بچوں کے ساتھ ڈیوٹی کرتا ہے۔ گھر کے باہر موجودچھ سپاہیوں کی گارڈ اس کے علاوہ ہے۔ پچھلی پر کشش تعیناتی کے دور والا ٹرانسپورٹ آفیسر ”برخوردار“ ہے اور ہر دوسرے روز ذاتی گاڑیوں کیلئے تیس لیٹر تیل کا انتظام ہو جاتا ہے۔ چلتی گاڑیاں کام تو نکالیں گی ہی ناں،سو اس کا حل بھی ایک ”تابعدار“ ایس ایچ او کے پاس ہے۔ پچھلے دنوں صاحب کو کراچی جانا پڑ گیا، ہوائی جہاز کے ٹکٹ کا انتظام بھی ایک ”وفادار“ ڈی ایس پی نے فوراً کر دیا۔ قصہ مختصر، صاحب بڑی ”سمجھداری“ سے مشکل وقت کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
یہ پاکستان کی پولیس کی کوئی تن تنہا یا اکا دکا مثال نہیں ہے بلکہ چند ایک اللہ کے ہدایت یافتہ بندوں کو چھوڑ کر، جن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، ساری پولیس ہی ”سمجھدار“ کانسٹیبلوں، تھانیداروں، ایس پی و ڈی آئی جی حضرات سے بھری پڑی ہے۔آئی جی حضرات کا تو ذکر کرتے ہوئے بھی قلم کانپتا ہے۔ یقینا سارے آئی جی کرپٹ نہیں ہوتے ، لیکن ”سمجھدار“ تو قریب قریب سارے آئی جی ہی ہوتے ہیں۔ آپ کو ایک موجودہ آئی جی صاحب کے بارے میں بتاتا چلوں کہ ان کے ذاتی استعمال میں سرکاری گاڑیوں، جی ہاں صرف سرکاری گاڑیوں کی تعداد تیس سے زیادہ ہے۔ تیس سرکاری گاڑیاں!!!! اگر آپ گاڑی چلاتے ہیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ ایک عام ذاتی استعمال کی گاڑی کا مہینے بھر کا خرچہ کتنا ہوتا ہے۔آپ خود سوچیں کہ تیس سرکاری گاڑیوں، جن میں زیادہ تر فور ویل گاڑیاں ہیں اور مع سرکاری ڈرائیور اور سرکاری تیل کے موصوف کے استعمال میں ہیں، کا مہینے کا خرچہ کتنا ہو گا۔آئی جی صاحب کی بیگم ، بچے ، چاچے ، مامے، دوست وغیرہ وغیرہ سب آپ کے اور میرے ٹیکس کے پیسوں سے اس سرکاری نعمت سے لطف اٹھا رہے ہیں اور پھر یہ اندازہ بھی خود لگا لیں کہ جو صاحب سرکاری گاڑیوں کے ساتھ یہ سلوک کر رہے ہیں وہ باقی بیسیوں معاملات میں کیا حال کر رہے ہوں گے جن پر ان کو کلّی اختیار حاصل ہے۔
اب یہ بھی مت سمجھ لیجئے گا کہ صرف پولیس ہی”سمجھدار“ افسروں سے اٹی پڑی ہے بلکہ جہاں جہاں بھی جس جس کا بس چل رہا ہے، کوئی کسر نہیں چھوڑرہا،چاہے کوئی میٹرک پاس پرموٹیا ہو یا پھر اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈائریکٹ افسر!! ابھی کچھ دن پہلے ایک انکم ٹیکس کے صاحب سے ملا قات ہو گئی، شاہانہ طرزِ زندگی، نوابانہ ٹھاٹھ باٹھ (حالانکہ تنخواہ مشکل سے بھی پچاس پچپن ہزار سے زیادہ نہیں ہوگی)، لیکن رخصت ہوتے ہوئے تھوڑے سے افسردہ ہو گئے۔ افسردگی کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ آج کل سرکاری گاڑی سے محروم ہو گیا ہوں (ان کا دکھ صرف وہی شخص سمجھ سکتاہے جس کو سرکاری گاڑی مع سرکاری ڈرائیور اور سرکاری تیل جیسی نعمت کبھی میسر رہی ہو)۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ یہ ” ظلم“ کیسے ہو گیا۔ کہنے لگے”یار حکومت نے جو گریڈ اکیس اور بائیس کے افسروں سے سرکاری گاڑیاں واپس لیکر ماہانہ الاؤنس والی پالیسی بنائی ہے، میرے باس اس کی زد میں آ گئے ہیں (بیچارے ”تگڑے“ افسر نہیں ہیں نا!!)۔ لیکن اس کااصل نقصان تو مجھے ہوا ہے، میرے نام الاٹ ہونے والی گاڑی انہوں نے مانگ لیں ، اب اپنے باس کو ناں تو نہیں کر سکتا نہ کوئی!!“ میں اپنی ذاتی گاڑی چلانے پر مجبور انیس گریڈ کے ایک ڈائریکٹ افسر کا کرب ان کے چہرے پربڑی آسانی سے محسوس کر سکتا تھا، لیکن سوائے ہمدردی کے میں ان کے ساتھ اور کر بھی کیا سکتا تھاکیونکہ ”سمجھدار“ باس کے ”سمجھدار“ ماتحت کے معاملے میں میں بے چارا ناسمجھ کیا کرتا۔ اسی طرح ایک”فارغ“ سی وزارت کے وفاقی سیکریٹری کے بارے میں بھی ان کے ایک ماتحت نے بتایا کہ محترم کے زیراستعمال گاڑیوں کی تعداد بھی آئی جی صاحب سے کچھ کم نہیں ہے،کہاں تک سنو گے۔
آیئے مل کر دعا کریں کہ پاکستان کے یہ تمام ”سمجھدار“ افسرتھوڑے سے ”ناسمجھ“ ،تھوڑے سے ”نادان“ اورتھوڑے سے”کم فہم“ ہو جائیں، شاید آپ کا میرا اورپاکستان کا کچھ بھلا ہوجائے۔
تازہ ترین