• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جسمانی معذوری عزائم میں رکاوٹ نہیں، ہونہار اور باصلاحیت خواتین

’’خواتین کے لیے زندگی کےکسی شعبے میں نمایاں مقام کاحصول عموماً مشکل گردانا جاتاہے اور اگر کوئی جسمانی طورپر کسی معذوری کاشکار شخص کامیابی حاصل کرلےتو یہ کسی بڑے کارنامےسے کم نہیں ہوتا۔

ہماری جسمانی معذوری اپنی جگہ مگر انگریزی اصطلاع میں ڈس ایبل کا لفظ تو ان کے لئے استعمال ہوناچاہئے جو اصل میں جسمانی طور پر نارمل ہوتے ہیں مگر کچھ نہیں کرتے یا بےکار رہتے ہیں،ہم تو differently abled ہیں،جسمانی معذوری تو قدرت کی طرف سے ہے۔

ہمیں روزمرہ زندگی میں کام کاج کےدوران مشکل ضرورہوتی ہے مگر اللہ نے ہمیں دماغ دیا ہے سوچنے کےلئے اور کچھ نہ کچھ کام کرنےکےلئے اور ہم حتی الوسع وہ کررہےہیں"

یہ الفاظ کوئٹہ کی ایک ہونہاراور باصلاحیت خاتون شازیہ بتول کے ہیں، جس نے جسمانی معذوری کاشکار ہوتے ہوئے بھی اس معذوری کو اپنے لئے ہرگز کمزوری یارکاوٹ نہیں بننے دیا ،بلکہ اسے زندگی میں کامیابی کے لیے چیلنج سمجھ کر قبول کیا ۔

ہزارہ برادری سے تعلق رکھنےوالی شازیہ بتول کمسنی میں ہی جسمانی معذوری کاشکار ہوگئی تھیں، اسے بچپن میں بیماری کےدوران غلط علاج کہیں یا قدرتی امر،بہرحال وہ چلنےپھرنےسے معذور ہوگئیں،وہ اب یہ بھول چکی ہیں اور جو بات انہیں یاد ہے وہ ہے زندگی میں مسلسل آگے بڑھنا اور کامیابیاں سمیٹنا۔

ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے زندگی میں کبھی ہمت نہیں ہاری،پہلےان کےوالدین اور خاص طور پر ان کی والدہ نے ان کی ہمت بندھائی اور بعد میں اپنی کمیونٹی کےافراد نے،انہوں نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ اور بعد میں پنجاب یونیورسٹی سے فائن آرٹس میں ماسٹرز کیا اور پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا،کبھی اللہ کی مدد سے بےساکھی کےسہارے تو کبھی ویل چیئر پر وہ مسلسل آگے ہی بڑھتی رہیں،اب کوئٹہ میں فائن آرٹسٹ کےطور پر ان کا نام نمایاں ہے۔

شازیہ بتول کو زند گی کےکینوس سے معاشرتی مسائل اور انسانی جذبات و احساسات کےحوالے سے اپنے تجربات اور مشاہدات کو مصوری کےکینوس پر منتقل کرنےمیں ملکہ حاصل ہے، ان کے تخلیق کردہ فن پاروں کی کوئٹہ اور ملک کے دیگر حصوں کےعلاوہ بیرون ملک بھی نمائش ہوچکی ہے،بطور آرٹس ایک مقام حاصل کرنےکےبعد انہوں نے اپنی توجہ جسمانی طور پر دیگر معذور افراد کی فلاح و بہود کا بھی بیڑہ اٹھایا اوروہ اب سماجی حوالےسے بھی بہت سرگرم ہیں، فائن آرٹس اور سماجی شعبے میں خدمات پرانہیں تمغہ امتیازاورنیشنل یوتھ سمیت کئی ایوارڈ سے نوازا جاچکاہے۔

شازیہ بتول کاکہناتھا کہ معذوری کےحوالےسے انہیں مسائل اور مشکلات کاسامناکرناپڑتا ہے، زیادہ تر اس وجہ سے ان اور ان جیسی دیگر خواتین اور مردوں کےلئے معاشرے میں سہولیات نہیں ہیں،تعلیمی اداروں سے لے کر دفاتر ، پارکس اور شاپنگ مالز ہر جگہ رسائی میں بہت سے مسائل ہوتے ہیںلیکن ان سب کےباوجود اگر آپ میں کوئی ٹیلنٹ ہے اور آپ کاارادہ مضبوط ہے آپ میں کچھ کرنے کاجوش ہے تو وہ ٹیلنٹ چھپ نہیں سکتا، وہ آگے آتا ہے۔

وہ اگرچہ اپنے طور پر کام کررہی ہیں اور ایک نجی ادارےکےساتھ ساتھ ایک علمی اکیڈمی سے بھی وابستہ رہی ہیںمگر تمام تر صلاحیت اور قابلیت کےباوجود تاحال وہ کسی سرکاری ملازمت سے محروم ہیں۔

جسمانی معذوری کاشکار خواتین میں دیگر کےعلاوہ نمایاں نام زرغونہ ایڈووکیٹ کابھی ہے،جسمانی طور پر معذوری کےباوجود زرغونہ نے اپنی جیسی دیگر خواتین کےمسائل کےحل کا بیڑہ اٹھایاہوا ہے،اور اس حوالےسےقائم ایک تنظیم کابھی حصہ ہیں اور معذوروں کےحقوق کےلئے سرگرم ہیں۔

ان کا کہناتھا کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ جسمانی طور پر معذور افراد پر کوئی الگ سے مہربانی کی جائے اور حمایت کی جائے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ انہیں ان کی قابلیت اور صلاحیت کےلحاظ سے انہیں مواقع فراہم کئے جائیں،ان کی معذوری کو دیکھ کر انہیں نہ پرکھاجائے تاکہ وہ معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرسکیں اور ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔

ان ہی کی طرح ایک خاتون عابدہ دستکاری کےشعبے سے وابستہ ہیں ، جسمانی معذوری کےباوجود ان کی کوشش ہے کہ وہ کسی طوراپنے خاندان پر بوجھ نہ بنیں بلکہ معاشی حوالےسےان کا ہاتھ بٹائیں اور وہ یہ سب کچھ کرنےمیں کامیاب بھی ہیں، عابدہ ویل چیئر پر ہونے کےباوجود دستکاری کےحوالےسے ہونےوالی نمائش کاحصہ بنتی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جب بھی کوئی سرگرمی ہوتی ہے تو وہ نارمل انسانی کی طرح اس میں شرکت کرتی ہیں۔

عابدہ کا کہنا ہے کہ کوئی ایسی چیز نہیں کہ جو نارمل انسان کرسکتا ہو اور وہ نہ کرسکیں، عابدہ اس حوالےسے شاکی ہیں کہ جب کوئی ان سے ہمدردی جتلاتا ہے ۔

ان کا کہنا ہے کہ کئی جگہ لوگ معذور افراد کو ہمدردی اور ترس کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ آخر معاشرے میں معذور افراد سے اس طرح کے منفی رویے کیوں اختیار کئے جاتے ہیں،ان کو عجیب نظروں سے کیوں دیکھا جاتاہے؟

دوسری جانب یہ تلخ حقیقت ہے کہ جسمانی طور پر معذور افراد کےمسائل کےحوالےسے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے۔اس کانتیجہ یہ ہے کہ معذور افراد ملازمتوں سمیت دیگر مسائل کے حل کےلئے سڑکوں پر احتجاج کرتے نظرآتے ہیں، رضاکار اور معذور افراد کی بہبود کےلئے کام کرنےوالی ایک تنظیم کوئٹہ آن لائن سے وابستہ ایک سماجی رہنما جہانگیر خان جو خود بھی جسمانی معذور کاشکار ہیں ، کےمطابق کوئٹہ میں ان کے پاس رجسٹرڈ معذور افراد کی تعداد آٹھ سوسے زائد ہے،مگر ان میں سے بیشتر سرکاری ملازمتوں سے محروم ہیں، اس کاواضح مطلب یہ ہے کہ ان افراد کےلئے مخصوص کوٹہ پر عملدرآمد نہیں کیاجارہا۔

جہانگیر خان اور دیگر معذور افراد کا مطالبہ ہے کہ حکومت ملازمتوں میں ان کےلئے مقررہ 5فیصد کوٹہ پر عملدرآمد کو یقینی بنائے،یہی نہیں بلکہ ان کےلئے تمام سہولیات اورسازگار ماحول کی فراہمی بھی ممکن بنائی جائے۔

اس حوالےسے جب حکومتی مؤقف جاننے کےلئےرابطہ کیاگیا تو ترجمان وزیراعلیٰ اور رکن صوبائی اسمبلی بشری رند نے بتایا کہ حکومت کو معذور افراد کے مسائل کا ادراک ہے،مگر موجودہ حکومت کو کئی مسائل ورثے میں ملے ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ معذور افراد کےحوالےسے صوبے میں کوئی پالیسی نہیں وضع کی گئی تاہم اب اس پر کام کیاجارہاہے۔

انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ نہ صرف معذور افراد کےلئے ملازمتوں میں کوٹہ پر عملدرآمد کیاجاے گابلکہ اس میں اضافہ بھی کیاجائےگا۔حکومتی مؤقف اپنی جگہ ،معذور افراد کے مسائل کب اور کیسے حل ہوتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

بہرحال شازیہ بتول، زرغونہ، عابدہ اور ان جیسی دیگر خواتین معاشرے میں عام افراد کےلئے مشعل راہ ہیں اور اپنے شعبوں میں ان کی کامیابیاں یقیناً قابل فخر ہیں۔

تازہ ترین