• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھونس دھمکی اور دبائو کے حربے ناکام ہونے کے بعد بالآخر اپنا لہجہ تبدیل کر کے افغان جنگ کے حوالے سے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی بے مثال قربانیوں کا اعتراف کر لیا ہے اور وزیراعظم عمران خان کے نام اپنے پہلے خط میں طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے پاکستان کی مدد طلب کی ہے۔ عمران خان نے سینئر صحافیوں اور اینکر پرسنز سے ملاقات میں پیر کی صبح ملنے والے اس خط کو بہت مثبت قرار دیتے ہوئے اس معاملے میں پورے خلوص کے ساتھ تعاون کا یقین دلایا ہےوزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی امریکہ کی جانب سے اس مسئلے پر مل کر کام کرنے کیلئے نئے مواقع تلاش کرنے اور پاک امریکہ شرکت داری کی تجدید نو کی خواہش کا خیر مقدم کیا ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ افغانستان کی جنگ میں امریکہ نے پاکستان کو گھسیٹا جس کے نتیجے میں پاکستان کو دنیا میں دہشت گردی کی سب سے بڑی جنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ اس جنگ میں پاکستان کو 75ہزار سے زائد انسانی جانوں کے اتلاف کے علاوہ ایک کھرب25ارب ڈالر کے قریب مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ صدر ٹرمپ نے اتنی بڑی قربانی کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو اور بعد میں جاری کئے جانے والے ٹویٹ میں پاکستان پر الزام لگایا کہ اس نے افغان جنگ کے حوالے سے امریکہ کیلئے رتی برابر بھی کچھ نہیں کیا، پاکستانی قیادت نے معذرت خواہی کی بجائے اس کا بجا طور پر سخت جواب دیا، اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات تعطل کا شکار ہو گئے۔ مگر یہ اچھی بات ہے کہ امریکی صدر نے جو ابتدا میں کہتے تھے کہ میں اپنے الفاظ ہر گز واپس نہیں لوں گا، عقل سلیم سے کام لیتے ہوئے اپنا موقف تبدیل کیا اور پاکستان کی خدمات اور قربانیوں کو تسلیم کرتے ہوئے طالبان کو مفاہمتی عمل میں شرکت پر آمادہ کرنے کیلئے اسلام آباد سے مدد طلب کی۔ امریکی صدر نے لکھا کے علاقے میں ان کی سب سے اہم ترجیح افغان مسئلے کا مذاکراتی عمل کے ذریعے سیاسی حل تلاش کرنا ہے۔ یہ وہ موقف ہے جو پاکستان نے شروع ہی سے اپنا رکھا ہے مگر خطے کی بعض عاقبت نااندیش قوتوں کی خواہش پر جو پاکستان دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں امریکہ اور کابل حکومت طاقت کا استعمال کرتی رہیں۔اب جبکہ اس کے تباہ کن نتائج اظہر من الشمس ہیں اور امریکی عوام اس بے معنی جنگ سے اکتا چکے ہیں، امریکی حکومت بھی اس سے چھٹکارا پانا چاہتی ہے امریکہ سمجھتا ہے کہ طالبان پر پاکستان کا اثر و رسوخ ہے اس لئے وہ انہیں مذاکرات کی میز پر لاسکتا ہے حالانکہ یہ بات پوری طرح درست نہیں۔ اس کا ثبوت پاکستان، خصوصاً خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے علاقوں میں طالبان کے حملے ہیں جن میں متعدد قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ امریکہ طالبان پر براہ راست کابل حکومت سے بات چیت کرنے کیلئے زور دے رہا ہے جبکہ طالبان قیادت سمجھتی ہے کہ افغانستان میں ان کا اصل حریف امریکہ ہے۔ کابل حکمران تو محض اس کی کٹھ پتلیاں ہیں۔ ان کا سب سے بڑا مطالبہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ہےجس کیلئے امریکہ فی الحال تیار نہیں، مسئلے کی نزاکت کے پیش نظر افغانستان کیلئے امریکی حکومت کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد مذاکرات کیلئے اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔ اپنے19روزہ دورے کے دوران وہ روس، ازبکستان، ترکمانستان، بلیجم، متحدہ عرب امارات اور قطر بھی جائیں گے کیونکہ یہ ممالک بھی کسی نہ کسی حوالے سے افغان مسئلے کے حل میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔ امریکہ سے مثبت اشارے ملنے پر پاکستان اور امریکی حکام میں رابطے قائم ہو چکے ہیں پاکستان طالبان سے مذاکرات کو بامقصد بنانے کیلئے امریکہ کی خواہش پر طالبان کے سابق نائب قائد ملا برادر کو رہا کر چکا ہے اب جبکہ امریکی صدر نے مثبت رویہ اختیار کیا ہے تو توقع کی جا سکتی ہے کہ طالبان کے بنیادی مطالبات پر بھی توجہ دی جائے گی جس سےعلاقے کے دوسرے ملکوں کی مدد سے مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلے کا قابل عمل حل تلاش کرنے میں آسانی پیدا ہو گی کہ اس وقت افغان امن سے ہی خطے کا امن وابستہ ہے۔

تازہ ترین