• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جناب مجیب الرحمٰن شامی کو یاد ہو کہ نہ یاد ہو لیکن مجھے یاد ہے کہ جب ایک طویل عرصے کے بعد ان سے الطاف حسن قریشی کے ہمراہ اسلام آباد ہوٹل میں آمنا سامنا ہو گیا تو وہ بہت محبت اور التفات سے میری طرف تیزی سے آتے ہوئے فرمانے لگے کہ آئیے اب تو بائیں بازو کا نظریہ بھی ختم ہو گیا اس لئے اب جھگڑا کس بات کا۔ میں نے بھی ان سے اسی جوش و خروش سے گلے ملتے ہوئے کہا کہ ہاں ہم نے بائیں بازو کا نظریہ ختم کر لیا آپ اسلامی نظام لانے میں ناکام ہو گئے تو جھگڑا تو واقعی کوئی نہیں ہے۔ شامی صاحب نہایت با مروت انسان ہیں اور میں جب بھی لاہور میں ہوتا ہوں تو وہ مجھے بڑی محبت سے دعوت پر بلاتے ہیں۔ لیکن اس وقت تو شاید شامی صاحب کے ساتھ جوڈائیلاگ ہوا تھا اس میں دیرینہ نظریاتی مسابقت غالب تھی لیکن اب میں سنجیدگی سے سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں صرف بائیں بازو کا ہی نظریہ ناکام نہیں ہوابلکہ دائیں بازو بالخصوص مذہبی نظریہ بھی کامیاب نہیں ہو سکا۔ پچھلی تین چار دہائیوں سے جس طرح کی مذہبی انتہا پسندی کے طوفان چھائے ہوئے ہیں ان کا مذہبی نظریہ سازوں کے بنیادی نظریاتی ڈھانچے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مذہبی انتہا پسندی تو ہندوئوں اور بدھوں میں بھی بہت زیادہ ہے اس لئے سنجیدہ حلقے مذہبی روایات کے احیاکا کریڈٹ نہیں لے سکتے۔پاکستان میں دائیں بازو کی ماہیت مغربی ملکوں کی قدامت پرستی سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ مغربی ممالک میں دائیں بازو کا عمومی ایجنڈا پرانی طرز کی سرمایہ داری کی بحالی اور فلاحی ریاستوں کا خاتمہ ہے۔رونالڈ ریگن جیسے قدامت پرست بھی مذہباً سیکولر تھے جبکہ پاکستان میں دائیں بازو کی رہنمائی مذہبی نظریہ ساز کرتے رہے ہیں جن کا مقصد پرانے معاشی نظام کو قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ شریعہ اور فقہ کے نظام کا نفاذ تھا۔ مذہب کے نظریاتی اکابرین کا مقصد جدید دور کے تقاضوں کے ساتھ اسلامی نظریات کو ہم آہنگ کرنا تھا جس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکے ۔ جو کچھ اسلامی نظام کے نام پر ہوا ہے وہ عوامی سطح کی روایت پرستی ہے اور وہ ایسی ہے جیسے ہندوستان اور برما میں بھی نظر آتی ہے۔

مذہب کی جدید تقاضوں کے مطابق تشکیل نو کا بیڑہ سرسید احمد خان نے اٹھایا اور اس کے بعد علامہ محمد اقبال نے گہرائی کے ساتھ اس نظریاتی ڈھانچے کی تعمیر کے لئے فکری بنیادیں فراہم کرنے کی کوشش کی ۔ علامہ اقبال کے شاعرانہ کلام میں تو مختلف النوع نظریہ دانوں کو سراہا گیا جس میں کارل مارکس بھی شامل ہیں (نیست پیغمبر ولیکن در بغل دارد کتاب) لیکن انہوں نے مذہبی نظریہ سازی اپنے سات خطبوں میں پیش کی جو کہ ـان کی کتاب ’تشکیل جدید الیہات‘ Reconstruction of Religious Thought in Islam کی شکل میں شائع ہوئی۔ ان خطبات میں انہوں نے بہت سے نئے نظریات پیش کئے اور جنت دوزخ یا ختم نبوت جیسے تصورات کی منطقی انداز میں تفسیر پیش کی۔ بر سبیل تذکرہ رادھا کرشنن نے بھی ہندو مت کو جدید فکری نظام کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لئے ہندو فلسفے کی تاریخ کا دیباچہ لکھتے ہوئے جوکہا وہ علامہ اقبال کے خطبات کا پرتو نظر آتا ہے۔جناب علی عباس جلالپوری علامہ اقبال کو فلسفی کے طور پر تسلیم نہیں کرتے اور انہیں محض علم الکلام کا ماہر(جو مذہبی مفروضوں کو درست مان کر چلتا ہے) سمجھتے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس تکنیکی بحث سے افکار کی تاریخی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوتالیکن یہ حقیقت عیاں ہے کہ علامہ اقبال پر ہزاروں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کرنے کے باوجود ان کے بنیادی فکری ڈھانچے میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔کسی نے بھی ان کے مجوزہ اجتہاد کو عملی شکل دینے کی طرف قدم نہیں اٹھایا۔ مولانا مودودی نے اس سلسلے میں کافی کچھ لکھا اور بہت سے لوگوں کو متاثر بھی کیا لیکن آج جو مذہبی قدامت پرستی پھیلی ہوئی نظر آتی ہے اس کا ان کے نظریات سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔

مولانا مودودی نے عام فہم اور رواں نثر میں قرآن کی تفسیر’ ـتفہیم القرآن‘ کے علاوہ زندگی کے ہر پہلو پر عقلیت پسندانہ انداز اپناتے ہوئے اپنے نظریات پیش کئے۔ دوسرے مذہبی رہنماؤں کے الٹ انہوں نے اسلام کا مکمل ضابطہ حیات تشکیل کرنے کی کوشش کی۔ توہمات اور پیرپرستی کا متبادل ڈھونڈنے والے درمیانے طبقے کے نسبتاً پڑھے لکھے لوگ (بالخصوص مضافات اور قصبات سے تعلق رکھنے والے) ان سے متاثر ہوئے اور جماعت اسلامی ایک باقاعدہ مذہبی سیاسی پارٹی کے طور پر سامنے آئی۔ لیکن عملاً نہ تو مولانا مودودی کے فکری نظام کو آگے بڑھانے کے لئے کوئی مدبرانہ کوششیں ہوئیں اور نہ ہی سیاسی سطح پر عوام میں اس کا اثر و رسوخ بڑھا۔ اس کے الٹ جماعت اسلامی ریاست کے طاقتور ترین اداروں کے ساتھ اتحاد قائم کر کے غیر جمہوری روش پر چلتے ہوئے مذہبی قوانین ٹھونسنے تک محدود ہو گئی۔ اپنے زیر اثر تعلیمی اداروں میں بھی وہ ڈنڈے کے زور پر اپنا وجود ثابت کرتی رہی۔اس طرح کی حکمت عملی کے نتیجے میں جماعت اسلامی کا نظریاتی اور سیاسی اثر کم ہوتے ہوتے معدود ہوتا جا رہا ہے۔ غرضیکہ جس طرح سے بائیں بازو کے تصورات زوال پذیر ہوئے یہی حال مذہبی نظریات کا بھی دکھائی دے رہا ہے۔

مذہب کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے اس کا تعلق مذہبی نظریات کی تبلیغ سے زیادہ تیزی سے بدلتے ہوئے معاشی ڈھانچے کے ساتھ ہے۔پاکستان سے لے کر برما تک، مسلمان، ہندو اور بدھ ایک ہی طرح کی مذہبی جنونیت کا شکار نظر آتے ہیں۔اس نکتے پر بہت تفصیل کے ساتھ لکھنے کی ضرورت ہے لیکن اس کالم میں اس کی گنجائش نہ پاتے ہوئے ہم صرف اشارتاً یہ کہہ سکتے ہیں کہ نئی منہ زور سرمایہ داری اور ابھرتے ہوئے صنعتی نظام نے قدیم معاشروں کے نظریات اور اقدار کو تہس نہس کردیا ہے۔ اس سے ایک بہت بڑا نظریاتی خلا پیدا ہوا ہے جس کوخاص طرز کی عوامی مذہبی روایت پسندی نے پر کیا ہے۔ یہ مذہب پسندی متشدد رویوں کی مظہر ہے۔ ہندوستان اور برما میں جو کچھ ہندوتوا اور بدھ مت کے نام پر ہو رہا ہے وہ پاکستان میں پائے جانے والی فضا سے کسی بھی طرح مختلف نہیں ہے۔ اس علاقے کے مذہبی مفکرین ویسے ہی طاق نسیاں کی زینت بن گئے ہیں جیسے بائیں بازو کے نظریات۔ مجھے یقین ہے کہ علامہ اقبال اور رادھا کرشنن یکساں طور پر حیران و پریشان ہوں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین