• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پہلا خواب:
خانہٴ لاشعور میں کھڑکیاں بج رہی تھیں۔ اسلام آباد لوٹاجا رہا تھا۔ سڑکوں پر اندھیرے رقص کر رہے تھے ۔گاڑیوں کی لائٹس میں نقاب پوشوں کے چہرے چمک رہے تھے۔ بارشِ سنگ جاری تھی۔ چمکتی بجلیوں میں پنجابی فلموں کے ہیرو صور اسرافیل پھونک رہے تھے۔ بادلوں میں روشنیوں کی رقاصہ آخری کتھک ناچ رہی تھی۔ بھادوں بھری شام کے سرمئی سیال میں زمین ڈوبتی چلی جا رہی تھی۔ پگھلا ہوا سیسہ سماعت کا حصہ بن گیا تھا۔ مرتے ہوئے سورج کی چتا میں ڈوبتے ہوئے درخت چیخ رہے تھے۔ پرندوں کے پروں سے آگ نکل رہی تھی۔ ٹوٹتے تاروں کے مشکی گھوڑوں کی ایڑیوں سے اٹھتی ہوئی کالک زدہ دھول میں کائنات اور میں گم ہو چکے تھے۔ سٹریٹ لائٹ کی آخری لو بھاپ بنتی ہوئی تار کول میں ضم ہو چکی تھی۔ سائے دیواروں کو چاٹ چکے تھے۔ آسماں گیر عمارتیں مقامِ صفر سے مل چکی تھیں۔ انڈر گراونڈ ٹرینوں کی طرح بہتا ہوا لاوہ سرنگوں میں دوڑ رہا تھا۔ چٹانوں کے ٹکڑے نرم نرم ریشوں میں ڈھل رہے تھے ۔آہنی چیزوں میں کپاس کے پھولوں کا گداز در آیا تھا۔کُن کا عمل وقت سے کئی لاکھ گنا زیادہ تیزہو چکا تھا۔ہوا نے آخری ہچکی لی اوراچانک شعور کے بیڈروم میں میری آنکھ کھل گئی۔میں بیڈروم سے نکلاتو بلو ایریاکے کھمبوں سے لٹیروں کی لاشیں لٹک رہی تھیں۔
دوسرا خواب:
وہم آبادمیں الجھنیں کچھ نئے گھروندے بنا رہی تھیں۔ دماغ کی پرانی نسوں میں نئی تعمیر شروع تھی۔ واہموں کی محراب دار کوٹھیوں کی دیواروں پرآتی جاتی ہوئی سرخ رنگ کی کوچیوں سے خون ٹپک رہا تھا۔چھٹی حس کے سگنل الٹے سیدھے میسج بھیج رہے تھے۔حواس کے پانچوں سرکٹ کسینامعلوم ستارے سے آتی ہوئی برقی لہروں سے شاٹ ہو چکے ہیں۔تبدیلی کی تمناکانٹے دار تاریں کاٹ کی تگ و دو میں تھی لوگوں نے ہاتھوں پر پلاسٹک کے دستانے پہن لئے تھے۔
تیسرا خواب:
یاداشت کی سینماسکرین پر چلنے والی فلم کے سین میں فلم بین داخل ہو چکے تھے۔بوٹوں کے تسمے اور سینڈلوں کے بکل کھلے اور غیر پسندیدہ کرداروں کے چہروں پر اپنے نشان بنانے لگے۔بیگ گراونڈ میوزک میں گالیوں بھرے تبصرے شامل ہو گئے ۔ شر کے شاٹ میں خیر کی جیپ دوڑنے لگی ۔شیطانوں کے جسموں پر ٹائروں کے نقش اجاگر ہونے لگے۔اور پھر معاملہ الٹ گیا سکرین سے دیکھنے والوں کے ساتھ کردار بھی باہر نکلنے لگے۔ ایک تیز رفتار ٹریلاسکرین سے نکلا اور ڈرائنگ روم کو گراتا ہوا سڑک پر دوڑنے لگااس کے پیچھے پولیس کی ہوٹر بچاتی ہوئی گاڑیاں دوڑنے لگی ۔شہر کی پولیس سکرین سے نکلتی ہوئی پولیس کی کاروں کو حیرت سے دیکھنے لگی اوروائرلس پر ان سے ان کی شناخت پوجھنے لگی۔ ٹریلا اڑنے لگادس ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اور پھر وہاں پہنچ گیا جہاں ادراک کے عجائب گھر میں سجے ہوئے پہاڑوں میں پڑتی ہوئی دراڑوں کو دھاگوں سے جوڑا جارہا تھا۔تبدیلوں کا موسم ٹیلی ویژن کی سکرین سے نکل کر گھروں میں پھیل چکا تھا۔
چوتھا خواب:
دماغ کی ٹرین میں صدیوں کے مسافر جاگ اٹھے تھے۔ بہتی ہوئی لکیر ٹھہر گئی تھی اور اس میں مدو جزر پیدا ہورہا تھا۔کھڑکیوں کے ساتھ بہتے ہوئے منظروں کے دریا رک چکے تھے ۔طاقت ور ڈیزل اور میٹھا پانی اپنے اپنے پائپ سے گزرتا ہو اپنے اپنے معبد میں پہنچ رہا تھا۔ جہگیں خالی بھی ہورہی تھیں اور انہیں گھیرا بھی جا رہا تھاصندوقوں اور اٹیچی کیسوں کی شکلیں بدل رہی تھیں۔بڑی بڑی عمارتوں کو تہہ کر پرس میں ڈالا جا رہا تھاگمشدہ تہذیبوں میں سفر کرنے والی کار مستقبل میں چلی گئی ہے ۔سن بیس ہزار دس میں دنیا سے ہمکلام ہونے والا ابھی ابھی میرے پاس آیا ہے اور کہہ رہا ہے میں ایک بہت ہی خوبصورت زندگی دیکھ کر رہا ہوں مگر درمیان میں ایک قیامت حائل ہے۔اسلام آباد نے ابھی اس قیامت سے گزرنا ہے۔
پانچواں خواب:
وقت نے منظر کوآنکھ کی شیف سے نکالا۔صدیوں کی گرد جھاڑی۔آنسوؤں میں بھیگ بھیگ کر خشک ہونے والے اکڑے ہوئے غلاف کو اتارا۔چمکتی دمکتی ہوئی بے شکل لڑکیاں میرے آئینہ خانے میں داخل ہوئیں ۔ نرم و نازک بدن یاداشت کے گلاس سے طلوع ہوئے۔دل کی دھڑکن دھولک کی تھاپ بن گئی۔ذہن میں کیروا بجنے لگا۔قیام ِ جنت کے دن یاد آئے نواح ِ فہم میں لاشعور کی بھولی بھٹکی لہروں کی انگلیاں ہارمونیم پر چلنے لگیں۔حوا کیلئے لکھا ہوا آدم گیت حوروں کے بدن میں سرسرانے لگا۔ ہوا تیز ہونے لگی۔یادکے صفحے الٹ الٹ جانے لگے۔امید کے سنگیت سے یقین کے گیت کے بولوں سے ملنے لگا
چھٹا خواب:
خواب گاہِ دماغ کی کھلی کھڑکیوں پر لٹکتے ہوئے باریک پردے ہوا کے زیر و بم کے ساتھ جاگ پڑے تھے۔ کمرے میں اونگتی ہوئی ہلکی نیلی روشنی لہرا لہرا جاتی تھی۔صبحِ وصال کی شعاعیں پچھلی گلی سے نکل نکل دیواروں کے کینوس پرالٹی ترچھی لکیریں کھینچ رہی تھیں ۔زمانے بدل رہا تھا۔شہر تبدیل ہو رہے تھے۔زبانیں بنتی اور بگڑتی جا رہی تھیں۔ روح کی تقسیم کا عمل جاری تھا۔عدم سے کچھ وجود میں آرہا تھا۔ امیدکی کار چل رہی تھی۔ خیال کے پاؤں اٹھ رہے تھے۔ آسمان پر کچھ لکھا جا رہا تھا۔میرے ارد گرد کوئی خوشنما کہانی نبی جا رہی تھی۔کسی قبر سے زندگی کی کوپنل ابھر رہی تھی۔ سوچوں کو بدن مل رہے تھے۔کائنات ِ ذات میں تحریک ہو رہی تھی۔ایک نیا پاکستان تخلیق ہورہا تھا۔
تازہ ترین