• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتہائی اہم اور حساس جغرافیائی حیثیت رکھنے والے ۔ دُنیا کو خوف میں مبتلا کرنے والے ایٹمی ہتھیاروں والے معدنی و قدرتی وسائل سے مالا مال۔ 20کروڑ کی مارکیٹ والے ملک کے وزیر اعظم کا کیا دبدبہ ہونا چاہئے۔ کیا طنطنہ ہونا چاہئے۔ اپنے ملک میں اس کی کیا ہیبت ہو۔ ہمسایوں پر اس کا کتنا رعب ہو۔ عالمی طاقتوں کے لئے اس کی کیا اہمیت ہونی چاہئے۔

بہت سوچ رہا ہوں ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ وہ تاثر وہ اعتبار نظر نہیں آرہا ۔ اس کی زباں سے نکلنے والے الفاظ سے پوری دُنیا میں خوف یا امید کی لہر دوڑنی چاہئے۔ اس کے اقدامات پر عالمی دارالحکومتوں میں ہلچل مچنی چاہئے۔ وہاں فوراً ہنگامی میٹینگیں بلائی جانی چاہئیں۔

پھر یہ بھی کہ جس کا ساتھ سب ادارے دے رہے ہوں اور جو کرتارپور راہداری جیسا بڑا فیصلہ کرسکتا ہو۔ بین الاقوامی اور علاقائی امور میں پہل ہی قوموں کو آگے لے جاتی ہے۔ اس بڑی جست کے بعد ایسے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ جن سے ایسے فیصلے کو مزید استحکام ملتا ہے۔ اور پوری دنیا خاص طور پر ہمسایوں کو یہ پیغام ملے کہ اس اقدام پر پوری قوم متحد ہے۔ اور بہت پُر عزم ہے اور آئندہ داخلہ اور خارجہ پالیسیاں اسی سمت میں متعین کی جائیں گی۔

آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا ایسا منظر دکھائی دیتا ہے۔ریاست ، حکومت، میڈیا نے کیا ایسی سمت اختیار کی ہے ۔ کیا ایسا نظم ترتیب دیا ہے جس سے وزیر اعظم۔ ملک کا واقعی چیف ایگزیکٹو لگے۔ وہ عالمی مسائل پر اظہار خیال کرے۔ علاقائی سیاست پر زبان کھولے۔ اسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ افراد کے بارے میں بیانات دے۔ وزراکا دفاع کرے۔ وزرائے اعلیٰ کی ساکھ بچائے۔ وزیر داخلہ سے جو امور متعلق ہیں ان کی وضاحت کرے۔ وزیر خارجہ کا جو میدان ہے وہاں اسے کھیلنے کی کیا ضرورت ہے۔ سارا کام بولنے سے خراب ہوتا ہے۔ اب یہ ظالم ٹویٹ بھی آگیا ہے۔ پہلے کہا جاتا تھا حرف زبان سے نکلا تیر کمان سے نکلا واپس نہیں آسکتا۔ اب یہی حال ٹویٹ کا ہوگیا ہے۔ وزیر اعظم کا اپنا ایک اسٹاف ہوتا ہے۔ جو بیان بھی جاری کرتا ہے۔ ٹویٹ دینے کا بھی طے کرتا ہے۔ ایک عام سیاسی لیڈر اور 20کروڑ آبادی کے سربراہ حکومت کی ٹویٹ میں بہت فرق ہونا چاہئے۔اوّل تو وزیرا عظم کا ٹویٹ کرنا کوئی آئینی ضرورت نہیں۔ اگر کرنا ہی ہو تو وہ کسی بین الاقوامی مسئلے پر ہونا چاہئے۔ وہ بھی وزارت خارجہ سے بھرپور مشورے کے بعد۔

جمہوریتوں میں روایت رہی ہے کہ وزیر اعظم کو ایڈیٹرز سے ملوایا جاتا تھا۔ وزرائے اعظم ایڈیٹرز سے کچھ سیکھتے تھے۔ یہ تبادلۂ خیال باہمی ہوتا تھا۔ بیان جاری کرنے کے لئے نہیں۔ اس کی خبر نہیں دی جاتی تھی۔ یہ ملاقاتیں قوم کی تعمیر، ملک کی پیش رفت کے لئے ہوتی تھیں۔ وزیرا عظم ایڈیٹروں کو اعتماد میں لے کر بڑے فیصلے کرتے تھے۔ ایسے بڑے مسائل پر کوئی قدم اٹھانے سے پہلے اپوزیشن کے رہنمائوں سے بھی اعتمادکے ساتھ بات کی جاتی تھی۔

وزیرا عظم سے متعلقہ خبروں اور فیصلوں کے لئےبہت تجزیہ کار، منجھے ہوئے، جہاں دیدہ نمائندے ہوتے تھے۔ جنہیں خود بھی ملکی مفادات کا خیال ہوتا تھا۔ سوالات بھی ایسے ہوتے تھے جن سے شہ سرخیاں ملتی تھیں اور عالمی دارُالحکومتوں بالخصوص علاقائی طاقتوں کے صدر مقامات پر ان اقدامات پر سوچ بچار ناگزیر ہوتی تھی۔یہ تو دُنیا مانتی ہے کہ پاکستانی قوم بہت ہی باہمت اور بردبار مزاج رکھتی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ مشکلات اور المیوں کے دَور میں بھی مسکرانے اور قہقہے لگانے کا حوصلہ اس میں ہے۔ اس میں حکمراںبھی اس کی مدد کرتے ہیں کبھی یوٹرن کا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں، کبھی مرغیاں پالنے کا۔ ہمارے تجزیہ کار، سوشل میڈیا کے شہسوار سب کچھ چھوڑ کر ان شوشوں پر تحقیق کرکے مزید شوشے چھوڑتے ہیں۔ اور بزعم خود سمجھ لیتے ہیں کہ انہوں نے جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق ادا کرنے کے افضل جہاد میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔

پارلیمانی نظام سے ہمیں عشق ہے۔ حالانکہ یہ نسخہ ہم جیسی جاگیرداروں۔ سرداروں اور مافیائوں میں یرغمال قوم کے لئے قطعاً مناسب نہیں ہے۔ کم شرح خواندگی رکھنے والا ملک پالیمانی نظام کا مطلوبہ شعور نہیں رکھتا ہے ایسی کابینہ یا ٹیم اس نظام کے ذریعے حاصل نہیں ہوسکتی۔ جو کسی ریاست کو پستیوں سے نکال کر بلندیوں تک لے آئے۔ صدارتی نظام میں مڈ ٹرم الیکشن کی روایت نہیں ہوتی۔ الیکشن کی تاریخ اور حکومت کی میعاد یقینی ہوتی ہے۔

پارلیمانی نظام میں کسی وقت بھی حکومت جاسکتی ہے۔ اس لئے متبادل کابینہ (Shadow Cabinet) پہلے سے اپنے فرائض میں مصروف ہوتی ہے۔ اور وہ ہر گزرتے دن کے سیاسی ۔اقتصادی۔ سماجی اشاریوں کو ریکارڈ بھی کررہی ہوتی ہے۔ اور یہ روڈ میپ بھی تیار ہوتا ہے کہ اگر کل ہمیں حکومت مل جائے تو معیشت سنبھالنے کے لئے کیا ترجیحات ہوں گی۔ متبادل کابینہ کے ارکان اپنے اپنے شعبوں پر کام کررہے ہوتے ہیں۔ ہر مسئلے پر بیان بازی نہیں کرتے۔پھر ان کی مدد کے لئے ماہرین اور ٹیکنو کریٹس کی کمیٹیاں ہوتی ہیں۔ قوم کو یہ یقین ہوتا ہے کہ حکومتِ وقت اگر کمزور پڑ رہی ہے تو ہمارے پاس متبادل موجود ہے۔

اکثر محفلوں میں کہا جاتا ہے کہ کپتان کی نیت درست ہے مقاصد بھی اچھے ہیں خود کرپٹ نہیں ہے۔ مگر یہ سننے میں نہیں آتا کہ اس کی سمت اسکی نیت کی طرح درست ہے یا نہیں۔ اس کی ٹیم میں مسائل کی چٹانوں میں راستہ بنانے کی صلاحیت اور عزم ہے یا نہیں۔

حکمراں پارٹی کی طرف سے اب تک ایک سنجیدہ۔ مستحکم ۔ متحد اور مہارت رکھنے والی ٹیم کا تاثر پیدا نہیں ہوسکا ہے۔ اس لئے ایک بے یقینی اور انتشار کا سماں ہے۔لیکن کہیں یہ خواہش بھی نظر نہیں آتی کہ باریاں لینے والی پارٹیاں دوبارہ بر سر اقتدار آجائیں۔ان کی ماضی کی حکمرانی دیکھ کر کوئی انہیں متبادل تصور کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اور نہ ہی وہ خود ایسی کسی تیاری میں محو دکھائی دیتی ہیں۔ ان کا بھی کوئی کیڈر نہیں ہے۔ اب وہ اپوزیشن میں ہیں۔ ان میں سے بھی کسی نے متبادل کابینہ تشکیل نہیں دی ہے۔کوئی ایسا سیکرٹریٹ نہیں ہے جہاں پارٹی سربراہ باقاعدگی سے کچھ وقت کے لئے آتے ہوں۔ جہاں مختلف شعبوں کی کمیٹیاں روزانہ کے امور پر غور کرتی ہوں۔ پارٹی سربراہوں کے محلّات ہی پارٹیوں کے دفاتر ہیں۔ وہیں میٹنگیں ہوتی ہیں۔ پارٹیاں ذاتی کمپنیاں بنی ہوئی ہیں۔ پارٹیوں کے باقاعدہ سیکرٹریٹ ہوں۔ سالانہ بجٹ ہوں۔ تب ہی پارلیمانی نظام نتیجہ خیز ہوسکتا ہے۔ایسی صورت حال میں ہم اپنے مستقبل کا تصوّر کرسکتے ہیں۔ ہمارا آئندہ بھی انتشار میں غبار آلود دکھائی دیتا ہے۔ایک تجربہ کرکے دیکھیں کہ وزیر اعظم بھی ایک دو ماہ ٹویٹ نہ کریں۔ سوائے مبارکباد یا تعزیت کے۔ وزیر اطلاعات بھی ایک دو ماہ لب کشائی نہ کریں۔ پھر ملاحظہ کیجئے گا ملک میں کتنا استحکام نظر آتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین