• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عامر خان کی فلم ’’ٹھگز آف ہندوستان‘‘ دیکھ کر یاد آیا، مسلمان جب بھی قتل ہوئے،تاریخ کے ہاتھوں ہی ہوئے۔آپ ’’ٹھگ ‘‘کی اصطلاح کو ہی دیکھ لیں،یہ لفظ سنتے ہی ذہن میں امیر علی اور بہرام ٹھگ کے نام گونجنے لگتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ بے رحم پیشہ اختیا رکرنے والے سب مسلمان ہی تھے حالانکہ تاریخی اعتبار سے یہ بات درست نہیں۔ ٹھگوں کے ہاں کسی مذہب یا مسلک کی تخصیص نہیں تھی۔ٹھگوں کے سردار اسماعیل ٹھگ کا نائب گنیشا مذہبی اعتبار سے اونچی ذات کا برہمن تھا اور بیشتر ٹھگ دیوی بھوانی کی پوجا کیا کرتے تھے۔تاجروں کو لوٹنے کے بعد مال مسروقہ کا کچھ حصہ وندھیا چل میںکالی ماتا کے چرنوں میں ڈال دیا جاتا اور اس بھینٹ کے بدلے ہندو پجاری دیوی کے بھگتوں کو سورگ کی خوشخبری دیا کرتے تھے۔

ٹھگی کا ’’کھرا‘‘ڈھونڈنے نکلیں تو بات تاریخ فیروز شاہی (1266-1358) تک جا پہنچتی ہے۔ تاریخ فیروز شاہی کے مصنف ضیا الدین برنی جو فیروز تغلق کے قیدخانے میں اسیر رہے،ان کے ذریعے ایک دلچسپ حکایت معلوم ہوئی ہے کہ ایک بار سینکڑوں ٹھگ گرفتار کر کے بادشاہ کے دربار میں پیش کئے گئے مگر انہیں قید کرنے کے بجائے ایک بحری جہاز میں ڈال کر ’’لکھنوتی‘‘ کے مقام پر لے جا کر چھوڑ دیا گیا تاکہ دہلی کو ان کے شر سے محفوظ کیا جا سکے۔ یہ علاقہ اب بھارتی ریاست اترپردیش کے ضلع مظفر نگر میں شامل ہے دلچسپ بات تو یہ بھی ہے کہ لفظ ’’ٹھگ‘‘ اردو، ہندی، سندھی، سنسکرت اور پنجابی سمیت کئی زبانوں میں تھوڑے بہت فرق کیساتھ ایک ہی معنوں میں مستعمل ہے، یہاں تک کہ انگریزی میں بھی ٹھگ کو ’’Thug‘‘کہا جاتا ہے۔ٹھگوں کے بارے میں’’پھانسی گر‘‘ کی اصطلاح بھی متعارف ہوئی لیکن اسے وہ شہرت نہ مل سکی جو ’’ٹھگ‘‘ نے ٹھگ لی۔

ٹھگوں کا طریقہ واردات یہ تھا کہ مخصوص ٹولیوں میں آوارہ گردی کرتے،تجارتی قافلوں سے راہ و رسم بڑھاتے اور موقع پاتے ہی انہیں موت کے گھاٹ اتار کر مال و اسباب لوٹ لیتے۔ٹھگوں کا سب سے بڑا ہتھیار ان کا وہ ریشمی رومال ہوتا جس کے کونوں میں پتھر بندھے ہوتے اور اسے یوں پلک جھپکنے میں شکار کی گردن کے گرد پھندے کی طرح کس دیا جاتا کہ وہ شور کئے بغیر چندہی لمحوں میں ساکت ہو جاتا۔ان ٹھگوں کے قافلوں میں بھی انواع واقسام کے لوگ شامل ہوتے جنہیں اپنے اپنے کام میں مہارت حاصل ہوتی۔واردات کی کامیابی میں تین طرح کے ٹھگ بہت اہم کردار ادا کرتے :

سوڈھی۔اس دستے میں شامل ٹھگ نہایت چابک دست گھڑ سوار اور ایسے دوراندیش ہوتے کہ اڑتی چڑیا کے پر گن لیں۔سراغ رسانی اور جاسوسی کی ذمہ داری ان کے سپرد ہوتی۔یہ تجارتی قافلوں کی نشاندہی کرتے اور بعض اوقات انہیں فریب دیکر اس جگہ لے آتے جہاں لوٹ مار کرنا ہوتی۔

بھٹوئی یابھٹوٹ۔جب سوڈھی تاجروں کو گھیر کر لانے میں کامیاب ہوجاتے تو ریشمی رومالوں سے لیس ٹھگ اچانک نمودار ہوتے اور پل بھر میں سب کو پھندا ڈال کر مار ڈالتے۔

لوگھی۔سب سے آخر میں ٹھگوں کی ایک ٹولی حرکت میں آتی جو لاشوں کو ٹھکانے لگا دیتی،انہیں لوگھی کہا جاتا تھا۔

اس کے علاوہ ٹھگوں کے قافلے میں بیشمار خدمت گزار ہوتے جو خیمے لگاتے،سامان رسد پہنچاتے،کھانا بناتے یا پھردھوبی،حجام اورچمار ہوتے۔خدمت گزاری کے لئے بالعموم گونگے اور بہرے افراد کا انتخاب کیا جاتا۔قافلہ سالار یا سردار جسے ’’جمعدار‘‘ کہا جاتا تھا، اسے لوٹ مار میں سے آٹھواں حصہ ملتا جبکہ باقی مال و دولت خدمت گزاروں سمیت تمام ٹھگوں میں برابر تقسیم کر دیا جاتا۔انگریز سرکار ٹھگوں کا قلع قمع کرنے کا کریڈٹ کرنل سلیمن (Col Sleemon)کو دیتی ہے جسے لارڈولیم بینٹنک کے دور میں باقاعدہ ’’ٹھگی اینڈ ڈکیتی ڈیپارٹمنٹ ‘‘ قائم کرکے اس مہم جوئی کے لئے برطانیہ سے بلوایا گیا۔کرنل سلیمن نے امیر علی ٹھگ کو گرفتار کیا اور کرنل میڈیوز ٹیلر کے سامنے پیش کیا۔کرنل میڈیوز ٹیلر نے بعد ازاں امیر علی ٹھگ سے ہونے والے گفتگو کی بنیاد پر"Confessions of a Thug" کے عنوان سے کتاب لکھی۔امیر علی ٹھگ کو سزا دینے کے بجائے وعدہ معاف گواہ بنالیا گیا اور اس کی نشاندہی پر ٹھگوں کے سردار گنیشا ٹھگ کو گرفتار کرلیا گیا کرنل ٹیلر لکھتا ہے کہ جب ان ٹھگوں کو سزائے موت دینے کے لئے پھانسی گھاٹ لایا گیا تو یہ اس قدر بے خوف اور مطمئن تھے کہ انہوں نے کہا،ہمیںجلاد کے بجائے خود ہی اپنے ہاتھوںسے پھندا گلے میں ڈال کر لٹک جانے کی اجازت دی جائے۔اسی طرح امیر علی ٹھگ کے بارے میںکرنل ٹیلر لکھتا ہے کہ اس نے 719افراد کو قتل کرنے کا اعتراف کیا اور ایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ لکھنو میں 12سال قید نہ ہوتا تو 1000افراد کو موت کے گھاٹ اتار چکا ہوتا۔لیکن بعض مورخین اس دعوے کو جھٹلاتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ انگریزوں کی مہم جوئی سے بہت پہلے برصغیر کے راجے اور مہاراجے ٹھگوں کی کمر توڑ چکے تھے۔سب سے پہلے نظام حیدر آباد کے ہاں ٹھگی کا محکمہ بنایا گیا۔راجہ جھالون کی ریاست جو بھارتی ریاست اتر پردیش کے ضلع جالون پر پر مشتمل تھی،اس کے دربار میں اسماعیل ٹھگ اور امیر علی ٹھگ کو پیش کیا گیا تو اسماعیل ٹھگ کو ہاتھی تلے روند دینے کا حکم صادر ہوا،امیر علی ٹھگ کا گھر جلا دیا گیا اور اسے قید کی سزا ہوئی۔ٹھگوں کی پراسرار دنیا سے تو انگریز بہت دیر سے واقف ہوئے اور برسہا برس انہیں یقین ہی نہ آیا کہ کوئی غیر مسلح گروہ اس قدر خطرناک ہو سکتا ہے۔جب لیفٹیننٹ مانسل(Lieut Monsell) اور ہل ہد(Halhed)اپنی کمپنی سمیت ٹھگوں کا نشانہ بن گئے انگریز سرکار کو تشویش لاحق ہوئی اور اس فتنے کی طرف توجہ مبذول ہوئی۔

امیر علی خان کا باپ یوسف علی خان ریاست ہولکر کا تاجر تھا اور اپنے بچوں کے ہمراہ اندور جا رہا تھا۔دوران سفر اسماعیل ٹھگ نے جھانسہ دیکراسے مار ڈالا،اس کی بیوی نے پالکی سے باہر جھانکا تو اسماعیل ٹھگ کے نائب گنیشا نے نشانہ باندھ کر خنجر پھینکا اور اسے بھی مار ڈالا،گنیشایوسف علی خان کے 8سالہ بچے امیر علی خان پر ہاتھ صاف کرنے ہی لگا تھا کہ اسماعیل ٹھگ نے بچا لیا اور گود لے لیا۔جب امیر علی بڑا ہوا تو اسماعیل ٹھگ نے اسے جانشین بنانے کا فیصلہ کیا۔اس کی تاجپوشی کے موقع پر ریشمی رومال کے کونوں میں پتھروں کے بجائے چاندی کے ٹکڑے ڈالے گئے۔امیر علی ٹھگ کئی بار قید ہوا،اس کی بیٹی امیرن کھو گئی۔بھارتی فلم ’’امرائو جان ‘‘ میں اس کہانی کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔امیر علی ٹھگ کے دماغ سے یہ خناس نہ گیا کہ گنیشا اس کے ماں کا قاتل ہے اس لئے دو بار رہائی پانے کے بعد اسے قتل کرنے کی نیت سے ایک بار پھر ٹھگی کی طرف مائل ہوا جب انگریز سرکار نے گرفتار کیا تو امیر علی ٹھگ وعدہ معاف گواہ بن گیا اور گنیشاکی مخبری کرکے انتقام کی آگ بجھائی۔ٹھگ تو ختم ہو گئے مگر ٹھگی کا پیشہ آج بھی زندہ ہے البتہ اس کے انداز و اطوار بدل گئے ہیں۔پرانے زمانے کے ٹھگ مال و اسباب لوٹتے تھے اور آج کل کے ٹھگ آنکھوں کے خواب تک چھین لیتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین