• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: عامرنے اپنا مکان سلیم کوتین سال کی قسطوں پر ساڑھے چار لاکھ روپے میں فروخت کیا ، سلیم نے ایک لاکھ نواسی ہزار روپے قسطوں میں اداکیے ، دولاکھ اکسٹھ ہزار روپے اس کے ذمے واجب الاداہیں ،چھ سال کا عرصہ گزر چکا ،سلیم نے مزید کوئی رقم ادانہیں کی ۔اب عامرنے سلیم سے یہ طے کیاہے کہ یہ مکان مجھے فروخت کردو ۔اب دونوں اس بات پر رضامند ہیں کہ عامر سلیم کو ایک لاکھ نواسی ہزار روپے واپس کردے اور سلیم عامر کو مکان کا قبضہ دے دے گا ،کیا یہ سودا جائز ہے ؟

جواب: فریقین کے درمیان کسی عقد کے ختم کرنے یا دوسرے کے کہنے پر مبیع یا ثمن(فروخت کردہ شے یا قیمت) لوٹادینا اور دوسرے کا لے لینا ،شرعی اصطلاح میں ’’اقالہ‘‘ کہلاتا ہے۔ حدیث پاک میں ہے :ترجمہ:’’ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی مسلمان سے اقالہ کیا،قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اُس لغزش دفع فرمادے گا ، (سُنن ابو داؤد:3460)‘‘۔ اقالہ کے معنی ہیں: ’’بائع اور مشتری کا باہمی رضامندی سے بیع کا فسخ کرلینا بایں طور پر کہ بائع مبیع کو واپس لے لے اور مشتری کو ثمن واپس کردے‘‘۔

تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے :ترجمہ:’’اسے عقد سے تعبیر کیاہے اور یہ ماضی کے دو لفظوں کے ساتھ صحیح ہوتا ہے اور یہی اس کا رکن ہے یا دونوں میں سے ایک مستقبل کا صیغہ ہو جیسے ایک نے کہا : تومیرے ساتھ اقالہ کر ،دوسرے نے کہا: میں نے تیرے ساتھ اقالہ کیا ،(حاشیہ ابن عابدین شامی ،جلد15، ص:53،دمشق)‘‘۔جو ثمن بیع میں تھا ،اُسی پر یا اُس کی مثل پر اقالہ ہوسکتا ہے ،اگر کم یازیادہ پر اقالہ ہواتو شرط باطل ہے اور اقالہ صحیح ہوگایعنی اتناہی دینا ہوگا جو بیع میں ثمن تھا ۔علامہ برہان الدین ابوالحسن علی بن ابوبکر حنفی لکھتے ہیں:ترجمہ:’’پس اگر اگر ثمنِ اول سے زیادہ یا اس سے کم کی شرط لگائی ،تو شرط باطل ہے اور بائع ثمنِ اول کا مثل ہی واپس کرے گا ‘‘۔مزید لکھتے ہیں: ترجمہ:’’پس اقالہ ثمنِ اوّل پرہی ہوگا ،کیونکہ زیادتی پر بیع کا فسخ کرنا مُتعذّر ہے، کیونکہ اقالہ شروطِ فاسدہ سے باطل نہیں ہوتا ،بیع کا معاملہ اس کے برعکس ہے (کہ وہ شروطِ فاسدہ سے باطل ہوجاتی ہے )،(ہدایہ ،جلد5،ص:149)‘‘ ۔ پس صورتِ مسئولہ میں آپ سلیم کو اُس سے وصول کی ہوئی رقم ایک لاکھ نواسی ہزار روپے واپس کردیں اوروہ آپ کومکان کا قبضہ دے دے ، تویہ اقالہ (یعنی فسخِ بیع) شرعاً درست ہوگا ۔

تازہ ترین