• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سرائیکی کے ممتاز شاعر جان محمد گدازکےایک شعر کایہ مصرعہ تھوڑے تھوڑے عرصےکے بعد واردات کی طرح وجودپراترتاہے۔ ’’ موت دے کھوہ وچ لہندا ویندے عمر دا لحظہ لحظہ ‘‘ ترجمہ : ’’ موت کے کنویں میں اتر رہا ہے زندگی کا لمحہ لمحہ ‘‘ ۔ کسی مغربی دانشور کا یہ قول اس مصرعہ کی بہتر طورپر وضاحت کرتا ہے ، جس میں کہا گیا ہے کہ جب کوئی ایسا شخص اس دنیا کو چھوڑ کر چلا جاتاہے ، جس سے آپ کا گہرا رشتہ ہو تو آپ بھی تھوڑےسے مر جاتے ہیں ۔ آپ کے پیارے آپ سے بچھڑتے رہتے ہیں اور آپ بھی تھوڑے تھوڑے مرتے رہتے ہیں ۔ 25 فروری 2016 کو ماہنامہ ’’ سرائیکی ادب ‘‘ ملتان کے ایڈیٹر ، ممتاز ادیب اور دانشور عمر علی خان بلوچ بھی اس فانی دنیاسے رخصت ہو گئے ہیں۔ پورے ملک میں ان کےبے شمار چاہنے والے ہیں ، جو خود بھی تھوڑے تھوڑے مر گئے ہیں ۔
عمر علی خان بلوچ کا تعلق ایک ایسے خاندان سےہے ، جو پاکستان کی مظلوم قوموں کا محسن خاندان ہے۔ خاص طورپر اس خاندان میں سرائیکی اور بلوچی زبان ، ادب اور ثقافت کے فروغ کے حوالےسے بہت اہم خدمات انجام دیں ۔ سرائیکی قومی تحریک میں بھی اس خاندان کا بہت بڑا حصہ ہے۔ عمر علی خان بلوچ کے والد حضرت مولانا نور احمد خان فریدی بہت بڑے عالم ،فاضل اور محقق تھے۔ انہوںنے کئی معرکۃ الآراء کتابیں تصنیف کیں ۔ ان میں تاریخ ملتان ، شرح دیوان فرید ( دو جلدوںمیں) ، بلوچ قوم اور اس کی تاریخ ، حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ ، حضرت شاہ رکن عالمؒ ، حضرت شاہ صدرالدین ، سندھ کے تالپور اور دیگر تصانیف شامل ہیں ۔ مولانا نور احمد خان فریدی نے ماہنامہ سرائیکی ادب اور ماہنامہ بلوچی ادب نامی دو جرائد کا بھی اجراء کیا ۔ یہ دونوں جرائد اب بھی شائع ہو رہے ہیں۔ مولانا صاحب کے تین صاحبزادےتھے۔ اخترعلی خان بلوچ ، چاکر خان بلوچ اور عمر علی خان بلوچ ۔ یہ تینوں بھائی ایک بہت بڑے باپ کی اولاد تھے لیکن انہوں نے اپنی الگ شناخت بھی بنائی اور اپنے والد محترم کی طرح بڑا نام کمایا۔ اختر بلوچ نے1967 ء میں پہلا ہفت روزہ سرائیکی اخبار ’’ اختر ‘‘ شروع کیا ۔ یہ وہ زمانہ تھا ، جب پاکستان کے بہت سے حلقے سرائیکی کو الگ زبان ماننےکےلیے بھی تیار نہیںتھے۔ اختر علی خان بلوچ بعد ازاں خان آف قلات میر احمد یار خان کے ساتھ وابستہ ہو گئےتھے اور انہوں نے بلوچستان میں مختلف اہم عہدوں پر کام کیا ۔ وہ کچھ عرصہ خضدار کے ڈپٹی کمشنر بھی رہے ۔ چاکر خان بلوچ نے ’’ بلوچی ادب ‘‘ کو سنبھال لیا تھا جبکہ عمر علی خان بلوچ نے ’’سرائیکی ادب ‘‘ کی اشاعت کی ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں ۔ مذکورہ دونوں جرائد میں سرائیکی اور بلوچی زبان ، ادب تاریخ اور ثقافت پر انتہائی اعلیٰ معیارکے تحقیقی مقالے اور مضامین شائع ہوتےتھے ۔ ان دونوں جرائد کا ریکارڈ بلوچی اور سرائیکی زبانوں کا بہت بڑا سرمایہ ہے ۔ اختر علی خان بلوچ،چاکر خان بلوچ اور عمر علی خان بلوچ تینوں بھائی کمال کے لوگ تھے ۔ عالم ، فاضل ، ترقی پسند سوچ کے حامل اور مظلوم طبقات اور مظلوم قوموں کے حقوق کےلیے عملی جدوجہد کرنےوالےتھے ۔ تینوں بھائیوں کے ملک بھر میں بڑے دانشوروں ، لکھاریوں ، سیاست دانوں اور مختلف شعبوں کی اہم شخصیات سے بہت گہرے تعلقات تھے ۔ تینوں بھائیوںکے مزاج میں فقر اور سادگی تھی۔یہ جہاں بھی بیٹھتے تھے ، محفل انہی کی ہوتی تھی۔ ان میں سے کوئی بھی جب کراچی آتا تھا تو اس کی وجہ سے کراچی کےپڑھے لکھے لوگوں کو آپس میں ملنے کا موقع ملتا تھا ۔ چاکر خان کراچی آکر ہمیں جو کھانے کھلاتے تھے ، وہ آج تک ہم نہیں بھولے۔ ہم کراچی میں رہتےہیں لیکن ہمارے بہت سارے دوست عمر علی خان کی وجہ سے بنےتھے ۔ اختر علی خان اور چاکر خان علی خان کے بعد بالآخر عمر علی خان بھی اس دنیا سے کوچ کر گئے ہیں لیکن ان کے بچے بھی اپنے خاندانی علمی ورثے سے لاتعلق نہیں ہیں۔ ویسے تو عمر علی خان نے بہت سے شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایاہے لیکن ان کا یہ کام بہت بڑاہے کہ انہوں نے مسلسل45 سال تک ’’ سرائیکی ادب ‘‘ کو باقاعدگی سے شائع کیا ۔ انہوں نے نہ صرف سرائیکی لکھنے والوں کو متحرک کیا اور انہیں لوگوں میں متعارف کرایا ۔ سرائیکی کے بڑے بڑے شعراء اور ادیب بشمول ظفر لاشاری ، مسرت کلانچوی ، انجم لاشاری ، پرویز عزیز ، شیما سیال ، فرحت نواز اور بے شمار باصلاحیت لوگ ’’ سرائیکی ادب ‘‘ کی وجہ سے ’’ اسٹیبلش ‘‘ ہوئے ۔ سرائیکی ادب اور بلوچی ادب نے دونوں زبانوںکےلیے جو کام کیا ، وہ بڑےبڑے ادارے بھی نہیں کر سکتے ۔ عمر علی خان نے 70 ء کے عشرے میں سرائیکی اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی اورپورےملک کے تعلیمی اداروں میں اس کی تنظیمیں قائم کیں۔ ہم نے آج تک اتنا محنت کرنےوالا اسٹوڈنٹ لیڈر نہیں دیکھا ۔ انہیں کہیں سے فنڈنگ نہیں ہوتی تھی ۔ وہ اپنی جیب سے خرچ کرتے تھے ۔ ظہور دھریجہ بتاتے ہیں کہ فیڈریشن کے ملتان میں جب اجلاس ہوتے تھے تو عمر علی خان کی اہلیہ ملتان کی سخت گرمی میں سو سو افراد کےلیے خود کھانا بناتی تھیں ۔ رسالے اور کتابوں کی اشاعت سے جو آمدنی ہوتی تھی ، اسے وہ اپنی سیاسی اور سماجی سرگرمیوںکےلیے خرچ کرتےتھے۔ عمر علی خان نے سماجی اور انسانی حقوق کے شعبوں میں بھی ایک سرگرم رہنماکی حیثیت سے کام کیا ۔ وہ پاکستان یوتھ لیگ کے صدرتھے اور انسانی حقوق کی تنظیموں میں بھی وہ بہت سرگرم تھے ۔ زندگی بھر اتنا کام کرنے اور وسیع تر تعلقات کے باوجود عمر علی خان اور ان کے بڑے بھائیوں چاکر خان اور اختر علی خان کے آخری دنوںمیں ان کے پاس اتنی معاشی فرصت نہیں تھی کہ وہ ضرورت کے مطابق اپنا علاج کروا سکتے ۔ عمر علی خان کے انتقال سے مولانا نور احمد خان فریدی کی ایک پیڑھی ختم ہو گئی ہے ، جس نے تقریباً نصف صدی تک اس ملک کی سیاسی، ادبی اور ثقافتی تحریکوںپر اپنے گہرے اثرات مرتب کیے۔ عمر علی خان بھی اپنی والدہ ، والد اور بھائیوں کے پہلو میں ملتان کے سبز گنبد کے مزار میں ابدی نیند جا سوئے ہیں ۔ زمانہ بہت دیر تک ان کی تلاش میں رہے گا ۔ بقول ناصر کاظمی
جس کی سانسوں سے مہکتے تھے درو بام ترے
اے مکاںبول کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے
تازہ ترین