• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بریگزٹ ڈیل بچانے کیلئے تھریسامے ایم پیز کو بیک سٹاپ پر فیصلے کااختیار دینے کی خواہاں

لندن (پی اے ) برطانوی وزیراعظم تھریسا مے اپنے بریگزٹ پلان میں کامنز ووٹ سے قبل ناردرن آئرلینڈ بیک سٹاپ پر اپنے ساتھیوں کی تشویش اور تحفظات پر بات چیت کر رہی ہیں اور انہوں نے اپنے بریگزٹ پلان کو بچانے کیلئے ایم پیز کو تجویز دی ہے کہ ایم پیز یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ آئرلینڈ بارڈر چیکس سے بچنے کیلئے آیا برطانیہ بیک سٹاپ پلان میں شامل ہو سکتا ہے۔ بی بی سی ریڈیو کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے یہ تجویز پیش کی، جس سے یہ دکھائی دیتا ہے کہ وہ اس ایشو پر ایم پیز کو ووٹ کی اجازت دینے کی خواہاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بیک سٹاپ آٹومیٹک نہیں ہے، چوائس موجود ہے، سوال یہ ہے کہ کیا ہم بیک سٹاپ میں جائیں یا ٹرانزیشن پیریڈ میں توسیع کریں۔ تھریسا مے اور یورپی یونین میں ہونے والی ڈیل کے تحت ٹرانزیشن پیریڈ میں دو سال کا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اس دوران برطانیہ مارچ 2019 میں یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کے باوجود بلاک کے ساتھ ویسے ہی تعلقات برقرار رکھ سکے گا۔ تھریسا مے پارلیمنٹ سے اپنی ڈیل کی منظوری کیلئے ایم پیزکی حمایت حاصل کرنے کی سرتوڑ کوششیں کر رہی ہیں۔ انکا کہناہے کہ اس کےبغیر یورپی یونین کے ساتھ کوئی ڈیل نہیں ہو سکتی۔ 10 ڈائوننگ سٹریٹ کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کے پلان پر منگل کو کامنز ووٹ ہوگا۔ یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ شکست سے بچنے کیلئے اس میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ ان حالات میں ایک نئی پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ یورپین کورٹ آف جسٹس نے کہا ہے کہ وہ اس بارے میں پیر کو رولنگ دے گی کہ آیا برطانیہ آرٹیکل 50 کو ریورس کرتے ہوئے تنہا اس ڈیل کو منسوخ کر سکتا ہے۔ یہ رولنگ کامنز ووٹ سے ایک روز قبل آئے گی۔ حکومت ایک ترمیم پر غورکر رہی ہے جس کے تحت بیک سٹاپ کے معاملے میں ایم پیز کی زیادہ آواز ہوگی۔ ایک آپشن یہ ہو سکتا ہے کہ پارلیمنٹ کا یہ فیصلہ کرنے میں کردار ہو کہ آیا ٹرانزیشن پیریڈ میں اضافہ کر دیا جائے یا بیک سٹاپ ارینجمنٹس میں شمولیت اختیار کی جائے۔ اگر دسمبر 2020 تک نو ٹریڈ ڈیل ہوتی ہے تو پھر برطانیہ کی 29 مارچ کو یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد ٹرانزیشن پیریڈ شروع ہوگا، اس میں ایک بار ایک یا دو سال کی توسیع کی جا سکتی ہے، اگر فریقین دوسرے پیریڈ کے اختتام تک بھی کسی ڈیل میں کامیاب نہ ہو سکے تو پھر بیک سٹاپ اپلائی ہوگا۔ انہوں نےکہا کہ پارلیمنٹ کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار دیاجا سکتا ہے کہ آیا برطانیہ بیک سٹاپ میں شامل ہو یا پھر اس سے کس طرح باہر نکلے۔ انہوں نے کہا کہ میں اس ایشو پر ملکی خودمختاری کے حوالے سے اپنے ساتھیوں کی تشویش کو تسلیم کرتی ہوں اورمیں ان سے اس معاملے پر بات کر رہی ہوں۔ انہوں نے ایک بار پھر کسی اورریفرنڈم یا پارٹی کے مختلف حلقوں کی جانب سے تجویز کردہ متبادل پلان کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ریفرنڈم میں عوام نے جن مقاصد کیلئے فیصلہ دیا تھا، ان کو پورا کیا جائے گا۔ ہماری ڈیل ریفرنڈم کے اس فیصلے کےمطابق ہے۔ برسلز کے ساتھ میں نے جس ڈیل پر مذاکرات کئے ہیں وہ بہترین ہے۔ میں اپنے ساتھیوں کا موقف سننے اور پیشرفت کے راستے پر غور کرنے کیلئے تیار ہوں۔ یورپی یونین کے ساتھ بریگزٹ پر مذاکرات ری اوپن نہیں کئے جا سکتے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر پارلیمنٹ میں تھریسا مے کے پلان کو 11 دسمبر کو ایم پیز نے مسترد کر دیا تو پھر ان کا سیاسی مستقبل بھی دائو پر لگ سکتا ہے کیونکہ اس صورت میں لیبر پارٹی ان کےخلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کیلئے تیار بیٹھی ہے اور ان کی اپنی ٹوری پارٹی کے ارکان بھی ان کی قیادت کو چیلنج کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں متعدد ایم پیز نے تھریسا مے کی پارٹی قیادت کو چیلنج کرنے کیلئے خطوط کمیٹی کے چیئرمین کے پاس جمع کروا دیئے ہیں لیکن ان کی تعداد عدم اعتماد لانے کیلئے مطلوبہ نمبرز سے کہیں کم ہے۔ اپوزیشن کی توہین پارلیمنٹ کی تحریک میں ٹوریز کے 25 ایم پیز نے حکومت کے خلاف ووٹ دیئے تھے، جن کی وجہ سے یہ تحریک صرف 18 ووٹوں کے فرق سے کامیاب ہوئی تھی۔ حکومتی اتحادی جماعت ڈی یو پی بھی اس پلان کےخلاف ہے۔ لیبر لیڈر جیریمی کوربن کا کہنا ہے کہ تھریسا مے کا یہ پلان برطانیہ کیلئے انتہائی تباہ کن ہے اور اس میں موجود خامیاں اس کی ناکامی کو ظاہرکرتی ہیں۔ ٹوریز کے بعض ایم پیز یورپی یونین کی رکنیت برقرار رکھنے کیلئے دوسرے ریفرنڈم کیلئے دبائو ڈال رہےہیں۔ تھریسا مے کا کہنا ہے کہ دوسرا ریفرنڈم بھی یورپ میں برطانیہ کے مستقبل کے حوالے سے تلخ مباحثے میں معاون ثابت نہیں ہوگا۔ ہم اگلی دہائی بھی یورپی یونین کے چکر میں پھنسے ملک کے طور پر نہیں گزار سکتے۔ بہت سے ایم پیز یہ چاہتے ہیں کہ تھریسا مے برسلز واپس جا کر دوبارہ مذاکرات کریں جبکہ یورپی یونین کے لیڈرز یہ واضح کر چکے ہیں کہ اب بریگزٹ ڈیل پر از سر نو مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ بعض ایم پیز کی خواہش ہے کہ معیشت کے تحفظ کیلئے برطانیہ یورپین اکنامک ایریا (ای ای اے) کا رکن رہے لیکن اس اقدام سے بریگزٹ ریفرنڈم کا فری موومنٹ کےخاتمے کا وعدہ پورا نہیں ہو سکے گا۔ٹوریر کے بعض یوروسکپٹک ایم پیز کا کہنا ہے کہ برطانیہ کسی ڈیل کے بغیر بھی یورپی یونین چھوڑ سکتا ہے جبکہ حکومت کا خیال ہے کہ اس سےشدید کساد بازاری کا خدشہ ہے۔ تھریسا مے کامنز ووٹ کے دو روز بعد برسلز جائیں گی۔ دوسری جانب یورپین کمیشن نے تھریسا مے کی ڈیل کی توثیق کیلئے پراسس کا آغازکر دیا ہے۔ یورپی کمیشن کے نائب صدر کا کہنا ہے کہ ہم برطانیہ کے ساتھ ڈیل کی تیاری کر رہے ہیں۔ سابق وزیر اولیور لیٹون نے کہا کہ میں نے تھریسا مے کی ڈیل کی حمایت کی ہے، اگر پارلیمنٹ میں وہ ناکام ہوتی ہے تو پھر ناروے سٹائل ایگریمنٹ ہونا چاہیے۔بریگزیٹئر ایان ڈنکن سمتھ نے کہا کہ اگر ایم پیز نے یورپی یونین سے علیحدگی کا ایگریمنٹ پاس کر دیا تو پھر وہ بیک سٹاپ کو تبدیل نہیں کر سکیں گے۔ کیونکہ یہ سٹینڈ الون انٹرنیشنل ٹریٹی کا حصہ ہے۔ ایم پیز کی صرف یہ محدود آواز ہوگی کہ آیا اس میں توسیع کی جانی چاہئے یا ہم خود اس میں شامل ہوجائیں۔ ان کی ایک ساتھی سویلا بریورمین نے کہا کہ تھریسا مے کی تجاویز انتہائی غیر موثر ہیں۔ کنزرویٹو کے سر نکولس نے تھریسا مے کی ڈیل کےحق میں بات کی جبکہ لبرل ڈیموکریٹس کے ایم پی سٹیفن لائیڈ نے لبرل ڈیموکریٹک گروپ سے علیحدگی اختیار کر لی اوروہ بھی ڈیل کے حق میں ووٹ دیں گے۔ منسٹرز کااصرار ہے کہ تھریسا مے کی ڈیل کے نتیجے میں یورپی یونین کے ساتھ منفرد پارٹنرشپ قائم ہوگی۔ ڈی یو پی تھریسا مے کے بریگزٹ پلان کی مخالف ہے لیکن اس کے لیڈر سامی ولسن کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کو گرنے نہیں دے گی اور حکومت پر اعتماد کے ووٹ میں تھریسا مے کا ساتھ دے گی۔ تھریسا مے نے ہم سے جووعدے کئے ہیں وہ انہیں پورا کریں۔ بریگزٹ پورے برطانیہ کیلئے ہونی چاہئے، ناردرن آئرلینڈ کے ساتھ مختلف برتائو نہیں ہونا چاہئے۔

تازہ ترین