• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرتارپورراہداری کھولنا مثبت،ا یل او سی پر بھی ایسےا قدام کی ضرورت ہے، کمیونٹی افراد کی رائے

ملٹن کینز (توقیر لون) موجودہ حکومت پاکستان کی کرتار پور راہداری کھولنے کے حوالے سے نہ صرف پاکستان بلکہ انڈیا میں بھی پذیرائی کی جا رہی ہے اور عام تاثر لیا جا رہا ہے کہ یہ دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی کو کم کر کے خطے میں پائیدار امن کے لیے انتہائی مثبت قدم ثابت ہو گا۔ لیکن اسکے ساتھ ساتھ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان اور انڈیا کے مابین جو سب سے بڑا تنازع چلا آرہا ہے وہ مسئلہ کشمیر ہے۔ جب تک مسئلہ کشمیر کو منصفانہ طور پر حل نہیں کیا جاتا خطے میں پائیدار امن نا پید ہی رہے گا۔ کرتار پور راہداری کو مثال بنا کر خطہ کشمیر میں کشیدگی کو کم کرنے اور اس مسئلے کو پر امن طریقے سے حل کرنے سے متعلق مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں سے انکی رائے لی گئی۔ اس حوالے سے شوکت مقبول بٹ نےکہا کہ کرتار پور راہداری کھولنا نہایت مثبت قدم ہے اس سے بآسانی لوگ انڈیا اور پاکستان میں اپنے مذہبی و مقدس مقامات پر حاضری دے سکتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر پر کنٹرول لائن پر بھی ایسے ہی اقدامات کر نے کی ضرورت ہے تاکہ دونوں اطراف میں کشمیر کے جو خاندان گزشتہ پانچ دہائیوں سے آپس میں کٹے ہوئے ہیں انکو باہم ملنے دیاجائے، آزاد کشمیر میں ہندوؤں کے مقدس مقامات ہیں جن میں بدھ مت کا پرانا مندر شاردہ سر فہرست ہے ، کشمیری پنڈتوں کو بھی اجازت دی جائے کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنے مقدس مقامات کی زیارت کر سکیں۔ عاطف توقیر نے اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ کرتار پور راہداری کی حمایت کرتے ہیں یہ بالکل صحیح فیصلہ کیا گیا ہے۔ مذہبی حوالے سے مقدس مقامات پر لوگوں کی آمد ورفت کو آسان بنانا چاہئے۔ اسی طرح جموں کشمیر کو لوگوں کو بھی یہ حق حاصل ہونا چاہئے کہ وہ بھی کنٹرول لائن کے دونوں جانب آزادانہ نقل و حمل کر سکیں اور اپنے بچھڑے ہوئے خاندان سے مل سکیں۔ کونسلر علی عدالت کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو آپس میں ملنے دیا جائے۔ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے مقدس مقامات جیسے چرار شریف درگاہ حضرت بل، کشمیر کی سب سے پرانی مسجد خانقاہ معلیٰ، اور دیگر اہل تصوف کے مزارات پر حاضری دینے کے لیے لوگوں کو بلا روک ٹوک جانے دیا جائے اور اسی طرح کشمیری پنڈتوں کو بھی آزاد کشمیر میں مقدس مقامات کی زیارت کے لیے آنے دیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انڈیا یا پاکستان کی حدود میں بغیر ویزا کے یہ لوگ نہیں داخل ہو سکتے مگر جہاں تک ازادکشمیر اور مقبوضہ کشمیر کا سوال ہے ان لوگوں کو بغیر کسی حیل و حجت کے دونوں اطراف میں جانے دیا جائے۔ شمس رحمان نے بھی اپنی رائے میں کہا کہ پچھلے 71 سالوں سے جنگ وجدل کی باتیں ہوتی رہی ہیں اس لحاظ سے کرتار پور راہداری خطے میں امن کے لیے امید کی ایک کرن ہے۔ جہاں تک ریاست جموں کشمیر کا سوال ہے تو ریاست کو یونائٹیڈ نیشن کی طرف سے یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ دونوں اطراف میں آزادانہ آ جا سکتے ہیں اور1965تک ایسا ہی ہوتا رہا لوگ اپنے رشتہ داروں کو ملنے کے لیے آیا جایا کرتے تھے۔ لیکن جب 1965کی جنگ ہوئی تو اسکے بعد سے یہ سلسلہ منقطع کر دیا گیا جو کہ سراسر کشمیر کے لوگوں کے ساتھ نا انصافی ہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ اگر 71سال بعد کرتار پور کا بارڈر سکھ یاتریوں کے لیے کھل سکتا ہے تو کشمیر میں کنٹرول لائن پر آمد ورفت کو بھی اسی طرح بحال کیا جانا چاہئے جس طرح 1965 سے پہلے ہوا کرتی تھی۔ پاکستان کی جانب سے یہ ایک اچھی شروعات ہے اور اسکو ایسے ہی چلتے رہنا چاہئے۔ فریحہ عتیق نے بھی اپنی رائے میں اس بات کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ کرتار پور راہداری کو مثال بناتے ہوئے کشمیر میں کنٹرول لائن کو لوگوں کی آمد و رفت کے لیے کھولا جائے تا کہ لوگ اپنی بچھڑے ہوئے خاندانوں سے جب جی چاہے مل سکیں۔ دونوں اطراف میں کشمیر کے باشندہ ریاست کو آزادانہ طور آمد ورفت کی اجازت ہونی چاہئے۔\
تازہ ترین