• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا …راجہ اکبردادخان
تمام تارکین وطن دوسرے ممالک میں اپنے لئے زندہ رہنے کے لئے کئی مراحل سے گزر کر ہی کوئی مقام بناپاتے ہیں۔ میری اس تحریر کا خصوصی موضوع برصغیر پاک وہند سے برطانیہ اور یورپ میں آئے بہن بھائی ہیں اور مقصد بھی تمام حوالوں سے اپنی معاشرت اور ثقافت کے تحفظ کے حوالہ سے معاملات کو زیر بحث لانا ہے، تاکہ ہم ایک دوسرے سے سیکھ کر ان ممالک کے قوانین کا احترام کرنا بھی سیکھ جائیں اور اپنی دینی اور علاقائی شناخت کو ممکن حد تک قابل عمل بنالیں دونوں اتنے اہم اہداف ہیں جن کا ایک ساتھ تعاقب کئے بغیر سکون دل میسر نہیں ہوسکتا اور ان کا ایک ساتھ پیچھا نہ کرنا مجرمانہ غفلت اور نقصان دہ حقیقت ہے، ان ممالک سے آنے والوں کو تین کیٹگریز میں تقسیم کیاجاسکتا ہے۔ پچاس اور ساٹھ کی دھائی میں یورپ آنے والوں کی اکثریت Less Educated and Skilledسنگل مرد حضرات کی تھی، جن میں اکثریت کسی بہتر زندگی کی تلاش میں کسی نہ کسی طرح یہاں پہنچ گئے۔ مائیگریشن کے اس بڑے حصہ کو Un Planned migration کہا جاسکتا ہے۔ کیونکہ برطانیہ آنے کی لہر میں کئی وہ بھی بہہ گئے جو اپنے آبائی ممالک میں بھی معقول سطح کی زندگیاں بسر کرنے کے اہل تھے۔ ان پہلے ادوار میں لوگوں کو یہاں آباد ہونے میں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، زبان نہیں آتی تھی ماحول معاشرت سے واقفیت نہ تھی، یہاں پہ جاننے والے بہت کم تھے، بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق کے ماحول لوگوں کو آئے دن نئے حادثات اور واقعات سے گزرنا پڑا۔ اس افراتفری کے ماحول میں بہتوں کو دوسری بہت سی ضروریات کا خیال ہی نہ آ سکا۔ وقت گزر نے کے ساتھ جونہی کچھ بین الاقوامی قوانین کی مجبوریوں اور کچھ معقول برطانوی اقدار کی بدولت ملکی امیگریشن میں  بہتریاں  آئیں۔ 70 اور 80 کی دھائی میںیہاں پہ قانونی طورپہ مقیم مرد وخواتین کے خاندانوں کی بڑی تعداد بسی جن میں Skilled اورEducated لوگوں کی بھی ایک بڑی تعداد تھی، ان ہی وقتوں میں اپنی دینی ضروریات پورا کرنے کیلئے مساجد اور کمیونٹی سینٹرز بنانے کی طرف کمیونٹی نے بھرپور توجہ دینے کی ٹھان لی، کمیونٹی کچھ کرتی یا نہ کرتی اس وسیع مالی چراہ گاہ کی دلکشیاں پیر خانوں کی ایک بڑی تعداد کو یہاں کھینچ لائی اور پھر ہر باریش مولوی نے اپنی اپنی مساجد بنانی شروع کردیں برکت ڈالنے پیر صاحب محترم بھی آپہنچے۔ آج ماشاء اللہ برطانیہ میں ہوم آفس کے مطابق 1600چھوٹی بڑی مساجد ہیں۔ جن میں سے محتاط اندازوں کے مطابق نصف ہماری ان مقتدر ہستیوں کے کنٹرول میں ہیں۔ آزاد کشمیر کی شریف النفس اور مذہب سے محبت کرنے والی کمیونٹی کو جس طرح طویل عرصہ سے لوٹا جا رہا ہے اور ملکی سطح پرکہیں اس قانونی اور دینی بے ضابطگی کی تحقیق ہوگئی تو خوفناک حقائق سامنے آسکتے ہیں۔ بڑی تعداد میں مساجد کمیونٹی ڈیویلپمنٹ جس کی برطانیہ جیسے ماحول میں اہم ضرورت رہی ہے کوئی کردار ادا کرنے میں ناکام پائی جاتی ہیں ہم میں سے بھاری اکثریت ایک غریب معاشرے سے یہاں آبسی اور بلاامتیاز دولت سے ہر حال میں محبت ایک ایسی حقیقت ہے جس نے صاف ستھرے ماحول سے جڑے خاندانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیکر ان گھروں کے نوجوانوں کو ڈرگز اور غیر قانونی ذرائع سے دولت اکٹھی کرنے میں لگادیا ہے ۔ ہر ہفتہ میرے اپنے شہر میں جرائم کی خبروں کا 80 فیصد حصہ ان نوجوانوں کے ناموں سے جڑا ہوتا ہے جن کے نام میاں، خان ، چوہدری ، راجہ اور ملک سے شروع اور ختم ہوتے ہیں۔ تھوڑے سے غور کے بعد خاندانوں کی پوری تصویر سامنے آجاتی ہے۔ ماں باپ ہی بچوں کیلئے رول ماڈل ہوتے ہیں۔ جب ہم والدین بچوں کی اس کریمنلٹی میں حصہ دار بن جاتے ہیں تو نوجوانوں کو کم اور والدین کو زیادہ مورد الزام ٹھہرایا جانا چاہئے تھوڑا سا مزید غور کرنے پہ احساس ہوتا ہے کہ ایسے ہی والدین شہر کے شرفا میں سر فہرست سمجھتے جاتے ہیں اور کئی جگہ یہی والدین مساجد اور دینی اداروں کے کرتا دھرتا بھی ہیں یہی کریمنلٹی ہماری کونسل سطح کی جمہوریت کو بھی کئی انداز میں متاثر کرتی ہے اور یہ خوفناک صورتحال ملک کے ہر بڑے شہر میں موجود ہے۔ یہاں’’ کہاں ہیں صدا تقدیس‘‘کی ہوک دل سے اٹھ کر زبان پہ آجاتی ہے جو بسا اوقات تحریر وتقریر کی شکل میں دوسروں تک بھی پہنچ جاتی ہے حقیقی Benefeciery(والدین) اس کاروبار کے نتیجہ میں کسی ایک آدھ مزید عمرے کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں۔ مولوی صاحب سے یہی گلہ ہے کہ آپ محترم نہ تو خود رول ماڈل بن سکے اور نہ ہی اپنے اکثر رفقا کو اس مسند پر متمکن کر سکے ہیں۔ ہم میں سے اکثر کا پیٹ کبھی بھی دولت سے نہیں بھرا جاسکے گا۔ ویسے جرائم سے بنائی دولت سے نہ تو اللہ کو حج اور عمرے ادا کرکے راضی کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی دینی اداروں کو قرض حسنہ دیکر اسے سفید کیا جاسکتا ہے۔ اسی بحث کے تیسرے حصہ کا تعلق نسبتاً بہتر پڑھے لکھے بہن بھائیوں کے رویوں سے ہے۔ پچھلے 20سال میں آنے والوں کی بیشتر تعداد پاکستانی حوالوں سے زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کی ہے پڑھی لکھی خواتین اور مرد حضرات کی آمد نے ہمارے سوچنے اور معاملات چلانے کے معیار کو اوپر اٹھادیا ہونا چاہئے تھا۔ توقع ہے ایسا ہوچکا ہوگا۔ گھر بچوں کیلئے ایک سکول اور نرسری کی حیثیت رکھتا ہے۔ گھر کے اخراجات چل رہے ہیں۔ گھر میں صحت ہے، معقول معیار زندگی ہے اور پاکستان اور آزاد کشمیر میں اپنوں کو ہر تین ماہ بعد کچھ نہ کچھ روانہ ہوجاتا ہے تو آپ کیلئے بچوں کی صحتمند تربیت پر توجہ دینا اہم ترین ذمہ داری ہے، والدین ہی بہترین رول ماڈل ہیں۔ ہمارے مولوی صاحب نے رول ماڈل بننے کی نہ کبھی کوشش کی ہے اور نہ ہی ان کے بس کی بات ہے، رول ماڈل بننے کے لئے نظم وضبط اور قناعت جیسی صفات پیدا کرنی پڑتی ہیں جو اس طبقہ کے بڑے حصہ کے قریب سے نہیں گزریں  کمیونٹی کے اندر مالی اعتبار سے سب سے اوپر وہ طبقہ ہے جس کا براہ راست اس کمیونٹی سے کوئی ثقافتی اور معاشرتی تعلق نہیں اندھا دھند اعتبار کرنے والی اس کمیونٹی کو اس کے فائدے کے نام پر نت نئے ایسے منصوبہ جات میں الجھا دیا جاتا ہے کہ ان کی نسلیں بھی ان سے باہر نہیں نکل سکیں گی۔ لوگوں کے عطیات سے اپنی قوت خرید میں اضافے اسلام کے خلاف ہیں۔ دھوکہ اور غلط گوئی کی اسلام میں گنجائش نہیں، اولادوں کو جرائم سے عملی طور پر روکو، خالی دعائیں کروانے سے کام نہیں چلے گا، بالآخر اس کمیونٹی کو خود اپنے معاملات درست کرنے کے لئے کچھ کرنا پڑے گا مایوسی گناہ ہے۔
تازہ ترین