• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرا سنہراعہد ِجوانی ۔ بازگشت ممکن یافقط قصہ پارینہ۔ کیا بد نصیب قوم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تباہی وبربادی کے عمیق گڑھے میں گر چکی ہے ؟کیا ہمارے قائدین گڑھے کو مزید گہرا کرنے کی تگ و دو میں جتے ہوئے ہیں؟ یہ کیسے طے ہو گاکہ وطن عزیز کی ایسی بے حمیتی کن ہاتھوں سے ہوئی اور اس اُجڑے دیار کو آباد کرنا اب کیسے ممکن ہو گا؟پیرانہ سالی کی طرف تیزی سے بڑھتے ہوئے قدموں سے اتنی گھبراہٹ نہیں جتنی اس حقیقت سے کہ ہم اپنے بچوں کے لیے کیسا پاکستان چھوڑ کر جا رہے ہیں۔
کہتے ہیں تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے
اچھا میرا ”عہد ِ“جوانی تھوڑا سا دُہرائے تو
میرے بڑوں نے جس پاکستان میں ہمیں پروان چڑھایااور درخشاں مستقبل کے جوخواب دکھائے ،بچپن میں امنگ و ترنگ سے بھرپور مسحور کرتی ہوئی لوریاں ” آؤ بچو سیر کرائیں تم کو پاکستان کی ۔ جس کی خاطر ہم نے دیں قربانی لاکھوں جان کی“ آج بھی کانوں میں رس گھول رہی ہیں۔
کیا گمان تھا کہ وطن ِعزیز سیاستدانوں کے ہاتھ سے نکل کر بتدریج تاجروں اور لٹیروں کی آماجگاہ بن جائے گا ۔ 4 دہائیاں پہلے جب میں نے لڑکپن سے جوانی کی دہلیزپر قدم رکھا،اقتصادی ادارے ،نظم ونسق، قانون وانصاف، امن و امان، شفافیت، دیانت، امانت پوری قوم کا وجہ ٴ افتخار تھا۔ آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔کرپشن، مذہبی منافرت، لسانیت، فرقہ واریت ، لاقانونیت، دھماکے، تکلیف، آزردگی ، پشیمانی ، مایوسی کے سواتاحد ِنگاہ کچھ نظر نہیں آ رہا۔ پاکستان کے بچے بے یقینی کی اتھاہ گہرائیوں میں جب کہ قائدین کے بچے وطن سے دُور لُوٹی ہوئی دولت کے بل بوتے پر بظاہر محفوظ مستقبل کی آغوش میں۔ میرے عہد ِجوانی میں سیاسی اختلافات بھر پور لیکن خالصتاََ نظریات کے اوپر ۔ دائیں بائیں سارے بازو ایک آئیڈلزم میں جکڑے ہوئے ۔ طلب ِدنیاکبھی مقصود نہ تھی۔ سیاسی اور مذہبی جنونیت کی بجائے نظریاتی جنونیت کا راج تھا۔انتہائی نامساعد حالات میں مملکت نے سفر کا آغازکیا تو 10 - 12 سال میں اپنے وجود کا احساس دلا دیا۔مضبوط معیشت کی داغ بیل پڑ گئی ۔ 5 سال کی بنیاد پر ترقیاتی منصوبے ایسے زوردار کہ زراعت ، صنعت و حرفت سے لے کر سروسز تک ملک رات دگنی دن چوگنی ترقی کرتے نظر آیا۔ ریگستان کھلیان بن گئے ۔صنعت وحرفت کے جال کی بُنتی شروع ہوچکی ، روز گار عام تھا۔ترقی ایسی کہ بین الاقوامی میں شناخت بن گئی ۔ جنوبی کوریا جیسے جدید ترقی یافتہ ممالک نے ہمارے ترقیاتی منصوبوں کا ترجمہ کر کے سو فیصد نافذ کیا اور آسمان کو چُھولیا۔آج جنوبی کوریا دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بہت سوں سے آگے۔
1960 سے سعودی عرب کے فرما نرواؤں نے ہر شعبہ زندگی میں پاکستان کی مدد کو شعار بنایا۔جناب انور علی، ڈاکٹر عمر چھابڑا پرمشتمل معاشی ماہرین سعودی عرب کی تعمیر و ترقی کا جزولاینفک بن گئے ۔ایسا مالیاتی نظام ترتیب دیاکہ سعودی عرب کی ترقی کی اسا س ثابت ہوا ۔ جناب انور علی کئی سال مانیٹری بینک کے سربراہ رہے اور سعودی کرنسی نوٹ پردس سال تک اُن کے ہی دستخط ثبت ہوتے رہے۔ ڈاکٹر عمر چھابڑا نے سعودی اقتصادی منصوبہ بندی کمیشن کی داغ بیل ڈالی اور ایک عرصہ تک سعودی وزیر ِمنصوبہ بندی رہے۔ جمال الناصر نے زِچ کیا تو ہنگامی بنیادوں پر مختلف شعبہ ہائے زندگی کے ماہرین بھیجنے کی درخواست آئی تو پاکستان نے ڈاکٹر، انجینئرز، اساتذہ کی ایک فوج ظفر موج سعودی عرب کے حوالے کر دی ۔ 1965 میں عالمی اقتصادی ماہرین کی رائے میں وطن ِ عزیز اگلی دہائی میں امریکی ریاست کیلیفورنیا کو پیچھے چھوڑنے والا تھا۔یوں لگتا تھامعاشیات کو پر لگ چکے اور آواز سے تیز جیٹ والاانجن ڈال دیا گیا ہو۔رُخ ”چُھولُو آسمان“۔
میرا شہر میانوالی کم و بیش اسی نظامِ زندگی کا پرتو تھا جو کراچی ، لاہور، راولپنڈی یا کسی بڑے شہرمیں موجزن تھا۔حکومت پوری طُمطُراق کے ساتھ کراچی اور لاہور میں بھی تھی اورچھوٹے شہروں، دیہاتوں میں بھی۔ شجاعت ، دیانت اور امانت پہلا سبق تھا۔قانون اور انصاف بکنے کا تصور نہیں۔ عدالتوں کی بے حرمتی اور اس پر حملے شاید آپ کو تختہ دار تک پہنچا دیتے۔ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ الطاف بھائی ”عدالتوں“ کو توہین کا نوٹس دے پاتے ۔بڑے بڑے ڈکٹیٹر عدالتی فیصلوں کے آگے سر تسلیم ِ خم کرتے نظر آتے تھے۔جان ، مال، عزت پر کوئی ٹیڑھی نظر ڈالنے کی جرات نہ کر سکتا تھا۔ شہر ، دیہات یکساں صاف ستھرے‘ کھلی سڑکیں، سٹریٹ لائٹس ہر چوک ، گلی میں موجود۔ تعلیم و صحت، بجلی، سہولیات زبردستی گھر گھر، قریہ قریہ ، شہر شہر پہنچ رہی تھیں۔کرپشن نہ لوڈشیڈنگ ۔نہ کوئی اٹھائی گیر کھلے عام پھرنے کی جرأت کر سکتا۔ حکومتی ادارے داد رسی اور امورِسلطنت میں مستعداورشفاف ۔ ذات پات ، شیعہ سنی اختلاف سکول ،کالج، یونیورسٹی تک ہم واقف نہ ہو پائے ۔ میرے پڑوس میں چرچ کرسچین تہواروں پر تفریح فراہم کرنے کااہم ذریعہ تھا۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کی دھاک ایسی کہ دو سپاہی میانوالی شہر کی ٹریفک کے نظم و نسق پر حاوی،ٹریفک قوانین کی ایسی پابندی کہ تانگہ، ریڑہ، گڈا،سائیکل ، لائٹ، لیمپ کے بغیر رات کو باہر نکلنے کا تصور ہی نہ کر سکتا تھا۔ سڑکوں کا بیلداری نظام، گورنمنٹ بس سروس، ریلوے، ڈاک کا نظام بے مثال اور لاجواب ۔ ریلوے محفوظ ،سستی اور مستعد۔ پاکستان کے سالانہ بجٹ کابھی ریلوے پر انحصار۔جبکہ کئی دوسرے ممالک کی ائیر لائنز کا PIA پر انحصار۔ قانون کو ہاتھوں میں لینے والے کی سرکوبی کے لیے 4 سپاہی اور ایک نیم تھانیدار کافی۔ نہ پولیس مقابلہ نہ شور شرابا۔نہ ماورائے عدالت قتل ۔ پولیس کی دسترس سے ایک آدھ مجرم باہر ہوتا توملک کے طول وعرض میں ایسے مفرور کے چرچے عام ہوجاتے۔اغواء برائے تاوان ، خودکشیاں کہانیوں میں بھی نہ ملیں۔ انسدادِ بے رحمی حیوانات کے قانون سختی سے مروج اور ہسپتال برائے حیوانات دیہاتوں تک پھیلے ہوئے ۔ تجاوزات کا لفظ غیر مانوس اتنا لکھا کافی کہ سڑک کے دونوں اطراف 220 فٹ کے اندر تعمیرات ممنوع ‘حکم عدولی ناممکن۔ شہری اصول اور ضابطے بچپن سے ازبر کرا دئیے گئے۔ ” گول مال“ نامی اصطلاحیں اردو لغت میں موجود نہ تھیں ۔ رشوت لینے والا معاشرے کا ناسور بلکہ بچوں کے رشتے ترتیب دینے سے قاصر۔اگر گھر کی ساخت کمائی کی حد تجاوز کرتی تو ”ھذا من فضل ربی“سے موسوم ہوتی۔ لیاقت علی خان سے بھٹو تک کا سفرکرپشن سے پاک ۔ سیاست میں تجارت کا تصورعبث۔ البتہ اداروں کی پامالی کی بنیاد بھٹو صاحب نے رکھی ۔ کرپشن اور تجارت کا عفریت بلاشرکت غیرے موجودہ قائدین کے دم قدم سے توانا ہوا۔ طرز ِ حکمرانی شاید اکلوتی وجہِ نزاع تھی۔ جھگڑا ایک ہی تھا کہ قائداعظم نے ایک جمہوری پاکستان کا تصور دیا تھا۔ طرز حکمرانی جمہوری ہی مطلوب تھا۔ ہمارے بڑوں کا خواب شرمندہ تعبیر کیوں نہ ہو سکا؟جدید انسانی معاشرت سے جنگل کی کہانی کا سفر کب شروع ہوا؟ جاہل ، نالائق ، کم تعلیم یافتہ اور کرپٹ مافیا اس ملک کو اپنی کمین گاہیں بنانے میں کیسے کامیاب ہوا؟ آج کے نوجوان کا یہ خزاں رسیدہ پاکستان کیسے مقدر بنا؟
کہاں گئے میرے تحریکی ساتھی اوراسلامسٹ جو مشرق تا مغرب اس ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لئے رات دن وقف کر چکے تھے اور مخالف قوتوں کے اعصاب شل کئے دیتے تھے۔ کہاں رہ گئے وہ اشتراکیت وجدیدیت کے دلداہ جن کے سینوں میں سوشلسٹ ویلفیئر سٹیٹ بنانے کی تڑ پ اورجن کی جدوجہد ہمارے اوپر گھبراہٹ طاری کر دیتی تھی ۔ کیا زمانہ تھاناانصافی، لاقانونیت چوری ،ڈاکہ مشکل ۔ مجال ہے کہ حکومتی وسائل گھر کی لونڈی بن سکیں اور کیازمانہ تھا برائی کرنا ناممکن ۔کیا زمانہ ہے اچھائی کا عزم لے کر نکلیں تو اس وسیع و عریض ملک میں کوئی کونہ ایسا نہیں جہاںآ پ امان پا سکیں۔کل کا دن اداروں کی پامالی میں کٹا۔آج ادارے ہماری کل کی اقدارکو روند رہے ہیں اور حکمران اشرافیہ کرّوفرکے ساتھ مستفید ہو رہی ہے۔
مصطفی زیدی پکار رہا ہے ۔
میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
کلیم عاجزکی دہائی ۔
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو یا کرامات کرو ہو
برسوں سے مصروف ِ عمل رہزن اپنے نعروں سے قوم کو لرزہ اندام کررہے ہیں ”بدل دیں گے پاکستان“ ”ایک زرداری سب پر بھاری“ ۔ حضور پاکستان کو تو آپ نے ”بدل“ دیا۔ زرداری قوم کے مقدر کا بوجھ بن چکا۔باقی ہمنواؤں میں اسفند یار، الطاف حسین کا نام ہی کافی ہے فضل الرحمن کی” اسلام خدمت“ ان کے آباؤاجدادکو اگلے جہاں کے ہر گوشے میں صدقہ جاریہ سے مستفید رکھے گی ۔
وائے ناکامی قائداعظم کے خواب توچکناچور ہو چکے۔
ّّاچھا میرا ”عہد ِجوانی“ تھوڑا سا لوٹاؤ تو
تازہ ترین