پاکستان کے بیشتر مسائل کی وجہ آبادی میں ہونے والے بے مہار اضافے کو قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار بھی چند وز قبل اس امر کی نشاندہی کر چکے ہیں۔ بدھ کے روز سپریم کورٹ میں ’’پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی‘‘ کے موضوع پرایک روزہ سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے، آنے والے دنوں میں قرضوں سے نکل جائیں گے، ہم شارٹ ٹرم سوچ کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوئے، بڑھتی ہوئی آبادی قومی مسئلہ ہے جس میں پوری قیادت، سول سوسائٹی اور علما کو بھی سامنے آنا پڑے گا، آبادی کنٹرول کرنے کیلئے ٹاسک فورس قائم کردی ہے۔ کوئی شک نہیں کہ بڑھتی آبادی ایک ایسا گمبھیر مسئلہ ہے جس پر ہماری حکومتوں نے کبھی خاطر خواہ توجہ نہ دی، کوئی اقدامات ہوئے بھی تو محض اشتہاری طرز کے البتہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کا نظام بہتر قرار دیا گیا لیکن یہ بھی صرف نظر ہوگیا اور حالیہ مردم شماری یہ ہولناک انکشاف سامنے لائی کہ وطن عزیز آبادی کی درجہ بندی میں ترقی پاتے ہوئے چین، بھارت، امریکہ اور انڈونیشیا کے بعد دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن گیا ہے۔ مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 20کروڑ 80لاکھ تھی تاہم اس پر بھی صوبوں کو اعتراض تھا کہ ان کی آبادی کم ظاہر کی گئی۔ اس تناظر میں اگر آبادی اور ملکی وسائل کو دیکھیں تو صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ غذائی قلت، تعلیم وصحت کی سہولیات کا فقدان اور بدنظمی و بدانتظامی جیسے بے شمار مسائل اسی بے ہنگم آبادی کا شاخسانہ ہیں۔ شہروں کی طرف نقل مکانی اور شہروں کی اپنی آبادی میں اضافے نے انہیں انتہائی غیر منظم انداز میں اوراس قدر پھیلا دیا ہے کہ شہر ایک دوسرے میں مدغم ہونے کو ہیں، انفرااسٹرکچر پر یہ صورتحال بوجھ بنتی ہے تو ایک ہی شہر میں انفرااسٹرکچر کی صورتحال بھی مختلف ہے۔ اتنے وسیع و عریض شہروں میں جرائم کو کنٹرول کرنا اور ہر جگہ بنیادی سہولیات فراہم کرنا بھی مشکل ہے۔ اس کے باوصف شہروں کا پھیلائو روکنے کے اقدامات نہیں ہورہے بلکہ نت نئی ہائوسنگ اسکیمیں زرعی زمین کی کوکھ کو کچلتی چلی جارہی ہیں۔ یہی ہوتا رہا تو انسانوں کا پیٹ بھرنے والی زمین ناپید ہونے میں زیادہ وقت نہ لگے گا۔ حیران کن امر یہ ہے کہ ہماری حکومتوں نے جب بھی کوئی پالیسی وضع کی اس میں آبادی اوراس میں اضافے کو پیش نظر نہ رکھا چنانچہ ایسی پالیسیوں کی کامیابی ممکن ہی نہ تھی۔ سردست پاکستان کی آبادی 21کروڑ ہے اور اس آبادی کو بھی بنیادی سہولیات بہم نہیں ۔آبادی میں اضافے کے باعث وسائل کم ہوتے چلے جارہے ہیں۔ سوال یہ ہےکہ ایک کھیت اگر 5افراد پر مشتمل کنبے کی کفالت کررہا ہے تو وہی کھیت 20افراد کا کفیل کیونکر بن سکتا ہے؟ صد شکر کہ آبادی میں اضافے کا نوٹس لیا گیا ورنہ قبل ازیں تو اس کے عواقب سے ہمیں مغرب نے نہ صرف متوجہ کیا بلکہ بہت سے وسائل بھی فراہم کئے اس سے کچھ آگاہی ہوئی اور تحرک پیدا ہوا لیکن جب وسائل آنا بند ہوگئے ہماری توجہ بھی اس طرف سے ہٹ گئی گویا یہ ہمارا نہیں مغرب کا مسئلہ تھا۔ سردست پاکستان جن اقتصادی سماجی، معاشی اور سیاسی بحرانوں سے دوچار ہے ان میں آبادی کا بڑھتے چلے جانا مسائل کو مزید سنگین ہی نہیں کرے گا بلکہ نت نئے مسائل بھی سامنے لائے گا۔ ہمارے ہاں عموماً یہ کہا جاتا ہے جس ذی روح نے دنیا میں آنا ہے اس نے اپنا رزق بھی ساتھ لانا ہے، بے شک اس سے انکار ممکن نہیں لیکن انسان تدبیر کا پابند ہے اسےیہ ضرور سوچنا چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داری سے بطریق احسن عہدہ برآ ہوسکے گا اور اگر نہیں تو کیا اولاد کے معاملات میں کوتاہی پر اس کی پکڑ نہیں ہوگی؟ سپریم کورٹ آف پاکستان اور حکومت کی طرف سے آبادی کی شرح کو روکنے کیلئے اقدامات قابل ستائش ہیں۔ سول سوسائٹی، میڈیا، اساتذہ اور علما کرام کو اس ضمن میں حکومت کے اہداف کو یقینی بنانے میں اپنا بنیادی کردار ادا کرنا ہوگا، تاکہ ہماری آنے والی نسلیں بدترین حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور نہ ہوں۔