• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان ویسے تو تاریخ کے تقریباً ہر دور میں قتل و غارت گری کا شکار رہا ہے لیکن گزشتہ تقریباً تین عشروں سے پہلے روسی اور پھر امریکی حملوں سے جتنی تباہی پھیلی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس تناظر میں امریکہ نے افغان امن عمل کو بار آور بنانے کیلئے پاکستان کے ساتھ کچھ عرصہ سے جاری سرد مہری ختم کرنے اور اس کی مدد حاصل کرنے کیلئے جو تازہ پیش قدمی کی ہے وہ خطے کے امن و استحکام اور خوشحالی کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اس سلسلے میں امریکی انتظامیہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کو امن مشن پر روانہ کیا ہے جو اسلام آباد پہنچنے کے بعد بدھ کو وزیراعظم عمران خان سے ملے اور انہیں امریکی صدر کا پیغام پہنچایا۔ وزیراعظم سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ امریکی قیادت افغانستان میں سیاسی سمجھوتے کے ذریعے امن کے مشترکہ مقاصد کے حصول کیلئے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتی ہے، پاکستان شروع ہی سے افغان مسئلے کو جنگ و جدل کی بجائے سیاسی طور پر حل کرنے پر زور دے رہا ہے۔ چنانچہ وزیراعظم عمران خان نے افغانستان میں امن و مفاہمت کیلئے امریکی انتظامیہ کی طرف سے پاکستان کے ساتھ اشتراک عمل کا خیر مقدم کیا اور پاک امریکہ تعلقات کے تناظر میں ترجیحی معاملات خصوصاً تجارت، سرمایہ کاری، تعلیم، صحت اور سماجی ترقی کے شعبوں میں باقاعدگی سے رابطوں کی اہمیت پر زور دیا۔ امریکہ کی جانب سے افغان مسئلے کے حل میں پاکستان کے کردار کو تسلیم کرناایک مثبت بات ہے۔ درحقیقت پاکستان نے افغانستان کے حوالے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میںہزاروں جانوں اور کھربوں روپے کا مالی نقصان اٹھایا مگر امریکی قیادت نے اسے تسلیم کرنے کے بجائے بھارت کو خطے کا چوہدری بنانے کے لئے پاکستان پر بے جا دبائو کا حربہ اختیار کیا۔ امریکہ نے اب اپنی غلطی تسلیم کر لی اور پاکستان سے رجوع کر لیا۔ جغرافیائی حقیقت بھی یہی ہے کہ افغانستان میں پائیدار امن کیلئے پاک امریکہ تعاون ناگزیر ہے اس کے لئے امریکہ کو پاکستان کے مشوروں کو اہمیت دینا ہو گی ۔

تازہ ترین