• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

4دسمبر کی صبح جو چند گھنٹے پاکستان کی سب سے قدیم اور عظیم پنجاب یونیورسٹی میں گزرے، وہ میری زندگی کے ناقابلِ فراموش مناظر کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں طلبا اور طالبات قطار اندر قطار کرکٹ گراؤنڈ کی طرف کھنچے چلے آ رہے تھے۔ جامعہ پنجاب کے ڈائریکٹوریٹ آف اسٹوڈنٹس افیئرز اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل افیئرز (پائنا) نے عید میلاد النبیؐ کے حوالے سے تقریب کا اہتمام کیا جس سے خطاب کے لیے دورِ حاضر کے جید عالم اور مبلغِ دین مولانا طارق جمیل کو دعوت دی گئی تھی۔ پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد کو اِس جامعہ کی سربراہی سنبھالے چند ہی ماہ گزرے ہیں اور اُن کی علمی وجاہت، سلیقہ شعاری، حُسنِ انتظام اور طلبا اور طالبات اور اساتذہ کے لیے خیرخواہی کے بےپایاں جذبے نے پوری فضا ہی تبدیل کر دی ہے۔ مولانا صاحب سے وقت لینے کے لیے میں نے اُن کے خصوصی رفیقِ کار جناب ڈاکٹر فیاض احمد رانجھا سے رابطہ کیا جن کی باکمال شخصیت کے ساتھ ایک قلبی تعلق مدت سے قائم ہے۔ اُن کے ذریعے چار دسمبر کی تاریخ مقرر ہوئی۔

میں اپنے بیٹے کامران اور پوتے افنان کے ہمراہ مولانا کو خوش آمدید کہنے وائس چانسلر آفس پہنچا، تو وہاں پروفیسر نیاز احمد پہلے سے موجود تھے اور اُن کے برابر جناب فیاض رانجھا بیٹھے تھے۔ مولانا وقت ِ مقررہ پر تشریف لے آئے۔ ساڑھے گیارہ بجے محترم وائس چانسلر کی صدارت میں پروگرام شروع ہوا۔ چودہ پندرہ ہزار کے لگ بھگ سامعین موجود تھے جن میں خواتین کی تعداد بہت زیادہ تھی اور مشتاقانِ جمال کشاں کشاں چلے آ رہے تھے۔

مولانا طارق جمیل جن کا شمار تبلیغی جماعت کے بلند مرتبت قائدین میں ہوتا ہے، کو اللہ تعالیٰ نے قرآن و حدیث کے علوم کا بحرِ ذخار عطا کیا ہے اور اُن کے بیان میں بلا کی تاثیر بھی رکھ دی ہے۔ اُن کے الفاظ سازِ دل پر مضراب کا کام کرتے ہیں۔ اُنہوں نے عام فہم زبان میں شریعت کے بنیادی اصول، اسلام کے اخلاقی اور معاشرتی آداب اور حکمرانی کے اسلوب ایسے دلنشین انداز میں بیان کیے کہ وہ ذہن میں اترتے چلے گئے۔ اُن کے سامنے بہت بڑی تعداد میں یونیورسٹی کے طلبا، طالبات اور اساتذہ گوش بر آواز بیٹھے تھے، چنانچہ اُنہوں نے ان مسائل کو بڑی اہمیت دی جو علمی، خاندانی اور انسانی رشتوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ وہ قرآنی آیات سے یہ حقیقت واضح فرما رہے تھے کہ شریعت کا اصل مقصود اللہ تعالیٰ کی عبادت، رسول کریم حضرت محمدﷺ کی اطاعت، خلقِ خدا کی خیرخواہی اور نظامِ عدل کا قیام ہے۔ ہم تک یہ تعلیمات اللہ کے محبوب حضرت محمدﷺ کے ذریعے پہنچی ہیں، اِس لیے ہماری پوری زندگی میں ثقافتِ محمدیؐ رچی بسی ہونی چاہیے۔ اُن ہی کی اطاعت سے دنیا بھی سنورتی ہے اور آخرت بھی جبکہ اللہ کے ذکر سے اطمینانِ قلب حاصل ہوتا ہے۔

مولانا کے خطاب میں یہ پہلو بہت نمایاں رہا کہ ربِ کریم کو عفو و درگزر سے کام لینا سب سے زیادہ پسند ہے۔ وہ خطائیں معاف کرتا اور انسانوں پر بارانِ رحمت برسانے کے لیے بہانے تلاش کرتا رہتا ہے۔ جہانوں کا خالق اور مالک ہے اور وہی نظامِ ہستی چلا رہا ہے، اس لیے ہمیں اُس کی رضا حاصل کرنے کے لیے اس کی مخلوق سے محبت اور احترام سے پیش آنا چاہیے۔

اُنہوں نے اپنے مخصوص انداز میں ایک ایسا واقعہ بیان کیا جس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ جب مسندِ خلافت پر بیٹھے، تو بنو اُمیہ کی شان وشوکت کے بجائے کمال سادگی اختیار کی۔ ایک عام ضرورت مند شہری کی حیثیت سے بیت المال سے وظیفہ لینے لگے۔ عید آئی تو بچوں نے نئے کپڑوں کا تقاضا کیا۔ اُن کی اہلیہ فاطمہؒ نے مشورہ دیا کہ بیت المال سے ایک ماہ کی تنخواہ پیشگی لے لیجیے جس سے بچوں کو نئے کپڑے مل جائیں گے اور میں گھر کا خرچ مانگ تانگ کر چلا لوں گی۔ تین براعظموں کے حکمران نے ناظم بیت المال سے ایک ماہ کی پیشگی تنخواہ دینے کے لیے درخواست کی۔ ناظم بیت المال جو شریعت کی روح سے پوری طرح واقف تھے، نے ایک کاغذ خلیفہ کے سامنے رکھ دیا کہ آپ اِس اَمر کی ضمانت لکھ دیجیے کہ آپ ایک ماہ زندہ رہیں گے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اپنی درخواست واپس لے لی اور اپنی غلطی پر شرمندہ بھی ہوئے۔ ایسے بلند کردار اور حرص و ہوس سے ماورا حکمران اسلام کی عظیم الشان تعلیم و تربیت کے دامن میں ہی تیار ہو سکتے ہیں۔

حضرت مولانا طارق جمیل نے شادی بیاہ کے معاملات میں سرورِ کونین حضرت محمدﷺ کی سیرت سے ایک ایسی مثال پیش کی جس پر عمل کرنے سے وہ تمام رنجشیں، تنازعات اور جہنم کدے ختم ہو سکتے ہیں جو ہماری سوسائٹی میں جگہ جگہ دہک رہے ہیں۔ حضرت علیؓ، حضرت فاطمہؓ کا رشتہ مانگنے کے لیے حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہونے والے تھے۔ اُن کی آمد سے پہلے حضرت جبرائیلؑ تشریف لائے اور اللہ تعالیٰ کا یہ حکم سنایا کہ فاطمہؓ علیؓ کے لیے ہے۔ حضرت علیؓ آئے اور خاموش رہے۔ حاصلِ کائنات حضرت محمدﷺ نے پوچھا کیا فاطمہؓ کا رشتہ لینے آئے ہو۔ اُنہوں نے اثبات میں جواب دیا تو آپؐ نے ’اِن شاء اللہ‘ فرمایا اور گھر کے اندر چلے گئے۔ اپنی بیٹی فاطمہؓ سے پوچھا کہ علیؓ تمہارا رشتہ مانگنے آئے ہیں، کیا تمہیں منظور ہے۔ بیٹی نے رضامندی ظاہر کی تو خاتم النبیینؐ نے حضرت علیؓ کو ہاں میں جواب دیا۔ اِس سے ثابت ہوا کہ والدین کو اپنی اولاد کی شادی اُن کی رضامندی سے کرنی چاہیے۔ اسی طرح نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں پر واجب آتا ہے کہ وہ چوری چھپے تعلقات پروان چڑھانے کے بجائے والدین کی مرضی کا احترام کریں۔ یہی ثقافتِ محمدیؐ ہے۔

مولانا فرما رہے تھے کہ شریعت خاندان کے استحکام کو غیرمعمولی اہمیت دیتی ہے۔ اللہ کے نزدیک وہ شخص نہایت پسندیدہ ہے جو میاں بیوی میں صلح کراتا ہے اور وہ مرد معزز ہے جو اپنی بیوی کو عزت کا مقام دیتا ہے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ میں آپ کے سامنے ہاتھ جوڑ کر التجا کرتا ہوں کہ باقاعدگی سے نماز ادا کریں اور خدا کے بجائے اللہ کا لفظ استعمال کیا کریں۔ اساتذہ اور والدین کا احترام واجب ہے۔ اچھے انجینئر، ڈاکٹر اور وکیل بننے کے ساتھ ساتھ ایک اچھا انسان بننا اور اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگ جانا بھی ضروری ہے۔

بعدازاں مولانا نے وائس چانسلر ہاؤس میں ظہرانہ تناول فرمایا۔ اس موقع پر جناب فیاض رانجھا نے ایک شعر سنایا؎

سیف اندازِ بیاں رنگ بدل دیتا ہے

ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں

تازہ ترین