• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میڈیا 6 ماہ صرف ترقی دکھائے، آگے وقت بہت اچھا یا بہت خراب، آج پرانی فوج نہیں، ایک ایک اینٹ لگاکر پاکستان دوبارہ بنارہے ہیں، فوجی ترجمان

اسلام آباد ( جنگ نیوز / ٹی وی رپورٹ) پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ میڈیا 6ماہ صرف ترقی دکھائے ، آگے وقت بہت اچھا یا بہت خراب ہے، آج پرانی فوج نہیں، ایک ایک اینٹ لگا کر پاکستان دوبارہ بنارہے ہیں، چند سال میں بہتری آئی، گرتی معیشت پائوں پر کھڑی ہوگئی، ترقیاتی اور اچھے کام بھی ہورہے ہیں ہم اس کو کیوں پلٹنا چاہتے ہیں، بھارت جنگ کرنے آئے گا تو دیکھ لیں گے ، پہلے خود سیکولر بنے پھر جیسے ہم ہیں برداشت کرے، کرتارپور راہداری ون وے ، سکھ یاتری صرف مذہبی رسومات کیلئے آئیں گے اور پھر وہیں سے چلے جائیںگے، پاکستان سے کوئی نہیں جاسکتا، پہاڑوں پر بیٹھے امن کیلئے مسئلہ نہ بنیں، قومی دھارے میں شامل ہوں، کراچی میں دہشت گردی 99فیصد ختم ہوگئی اور کرائم میں چھٹے سے 57ویں نمبر پر آگیا، لاپتہ افراد کے 7 ہزار کیس میں سے 4ہزار کیس حل ہوچکے ، کیسے ثابت ہو یہ لوگ طالبان فورس کا حصہ نہیں، پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) پر سخت ہاتھ نہیں رکھا، وہ حد عبور نہ کریں کہ ہمیں اتھارٹی استعمال کرنی پڑے، 2سال میں 400فوجی افسران کو سزاہوئی ، ہماری فالٹ لائنز ہیں جیسے معیشت ، گورننس ، جوڈیشل سسٹم ، جمہوریت اور جمہوریت میں باریاں، ہماری اندورنی فالٹ لائنز ہیں جیسے مذہب کے نام پر فرقہ کے نام پر اشتعال انگیزی ہے ، ایسا پاکستان چاہتے ہیں جہاں آئین کے مطابق قانون کی بالادستی ہو ، افغانستان میں سیاسی عمل ہونا چاہئے ، فوج کسی پارٹی یا شہر کی نہیں پورے پاکستان کی ہے ، حکومتیں سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ سے ان پٹ لیتی ہیں، نیشنل ایکشن پلان پر بہت جگہوں پرعمل ہوگیا ، کوئی شک نہیں کہ کسی اور کی جنگ دوبارہ نہیں لڑیں گے ، اپنی طرف طالبان کا صفایا کردیا ، امریکا سے دفاع تعلقات بہتری کی طرف جائیں گے ۔ امریکا افغانستان سے خطے کا دوست بن کر نکلے تو پاکستان ،افغانستان اور خطے سب کے مفاد میں ہوگا، سرحد پار سے ٹی ٹی پی داخل ہوئی پھر اسے اپنی جنگ سمجھ کر لڑا، اب کسی اور کی جنگ نہ لڑنے سے مراد ہے کہ اپنی طرف سے ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد عناصر کا صفایا کردیا، اب ہم اپنی سرحد کو مضبوط بنارہے ہیں۔ تفصیلات کےمطابق ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے اپنی پریس بریفنگ کا آغاز کنٹرول لائن کی صورتحال سے کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے دیکھا ہے کہ پچھلے 2برسوں میں لائن آف کنٹرول پر خلاف ورزیوں میں کافی اضافہ ہوا ہے اور اس درمیان میں جب DGMOSکی آپس میں بات ہوتی ہے تو اس میں عارضی ریلیف پھر بھی مل جاتا ہے لیکن جوخلاف ورزی ہے ان کی تعداد 2017ء اور 2018ء میں بہت زیادہ رہی ہے ، انہوں نے کہا کہ 2017ء میں بھارت کی جانب سے سیز فائر کی1881خلاف ورزیاں ہوئی تھیں، لیکن رواں برس کنٹرول لائن پر سیز فائر کی 2593 خلاف ورزیاں ہوئیں، جن کے نتیجے میں 55 شہری شہید اور 300 زخمی ہوئے ہیں ،بھارتی فورسز جان بوجھ کر عام آبادی کو نشانہ بتاتی ہیں۔اور ہم اس طریقے سے ان کو جواب نہیں دے سکتے کہ ہم بھی اس طریقے سےسویلین آبادی پر فائر کریں ،ہم توقع کرتے ہیں کہ بھارت اس بات کو سمجھے کہ اس جنگ بندی کی خلاف ورزی سے دونوں ملکوں کے تعلقات پر کیا فرق پڑتا ہے ، حکومت پاکستان نے امن کے بہت سارے اقدامات بھارت کے ساتھ کئے ہیں تاکہ کسی طریقے سے دونوں ملکوں کے تعلقات جو ہیں کسی طریقے سے بہتری کی جانب جا سکیں ، مذاکرات پر ہماری توجہ ہے لیکن بھارت کی رضا مندی نہیں ہوتی ، گزشتہ دنوں نے حکومت نے کرتارپور بارڈر کا اقدام اُٹھایا اور سکھ برادری کے لئے ایک کوریڈور بنایا کہ وہ آئیں اور اپنے مذہبی فرائض کو پورا کرسکیں، داخلے سے لیکر سڑک کے ساتھ ساتھ خاردار تار لگے ہوں گے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جو ہماری سکھ برادری وہاں سے اس رسومات کی ادائیگی کیلئے آئیں گے ان کا داخلہ صرف اس علاقے کے لئے ہو گا اور ون وے ہو گا صرف ادھر سے ہی آسکیں گے اور یہاں پر اپنی مذہبی رسومات ادا کرکے تو ادھر سے ہی واپس چلے جائیں گے پاکستان کی طرف سے اس کوریڈور سے بھارت کی طرف کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے تو یہ ایک بہت اچھا پروجیکٹ ہے جسے 6 مہینے میں حکومت پورا کرے گی جو اس کی استعداد ہو گی کہ معیاری وقت کے ساتھ روزانہ 4؍ ہزار زائرین آ سکیں گے اور ہم توقع کرتے ہیں کہ ہمارے اس خیر سگالی کے اقدام کا بھارت بہتر جواب دیگا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے خیبرپختونخوا کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں بتدریج کمی آرہی ہے، 2013ء میں ہر مہینے اوسطاً 7یا 8 دہشت گرد واقعے ہوجاتے تھے لیکن اب ہم 2018ء میں ہیں اور یہ شرح بہت کم ہوگئی ہے اور ہم دعا کرتے ہیں کہ وہ دن آئے کہ جب پاکستان میں کوئی بھی دہشتگردی کا حملہ یاواقعہ نہ ہو ، سویلین شہادتوں کی تعداد بھی کم ہوئی ہے اور استحکام کیلئے ہم جو آپریشن کررہے ہیں اس کے نتیجے میں بھی انشاء اللہ وقت قریب ہے کہ ہم مکمل امن کی طرف چلیں گے ۔ بلوچستان کی بات کریں تو جیسا کہ آپ کو پتا ہے کہ بلو چستان ، اگر میں آپ کو تھوڑا سا تقابل کردوں آپ کو بلوچستان کا اور کے پی کا بلوچستان ہمارے جغرافیے کا 43فیصد ہے جبکہ فاٹا جہاں پر ہم نے پچھلے 15؍ سال جنگ لڑی وہ تقریباً 3؍ فیصد ہے اور ہاں 2؍ لاکھ سے زائد فوجی تعینات ہیں جبکہ دوسری جانب بلوچستان کو جغرافیے کا 43؍ فیصد ہے لیکن اس کی آبادی پاکستان کی آباد کا 6؍ فیصد ہے اور یہاں پر سیکورٹی کیلئےتقریباً 65سے 70ہزار اہلکار تعینات ہیں جو بات میں کہنا چاہ رہا ہوں کہ اگر 3فیصد جغرافیے میں دہشتگردی پر قابو پانے کیلئے ہم نے2 لاکھ سے زائد اہلکار تعینات کئے ہوئے تو یہ 43فیصد جغرافیے جہاں آبادی تو کم ہے اس میں وسعت ہے ، علاقے کی اس میں سیکورٹی آپریشن کرنے کے لیے کیامشکلات ہیں لاجسٹک کی ہیں آپریشنز کی ہیں لیکن حال ہی میں ہم نے پچھلے چند ماہ میں جب آرمی چیف ادھر گئے تو ہم نے وہاں پراپنی تھوڑی سےتعیناتی تبدیل کی ہے ہے پہلے اگر ہماری فورسز جو تھیں ان کے زیادہ تر ہیڈکوارٹر ز اور فورسز صرف کوئٹہ میں تھے تو ہم نے جیوگرافی کے لحاظ سے بلوچستان کو مختلف سیکٹرز میں تقسیم کرکے اپنی ری ایڈجسمنٹ کی لیکن ری ایڈجسٹمنٹ سے زیادہ جو سماجی اور معاشی منصوبے ہیں ، سی پیک ہے ، ہم نے اپنی تعیناتی ایسی کی ہے سیکورٹی علاقے کی وہ بھی مضبوط ہوئی ہے ۔دہشت گرد واقعات بلوچستان میں بھی بہت کمی آئی ہے لیکن اس میںجوزیادہ تر اغواء ہوتے تھے 2016ء میں اغواء کے 119واقعے ہوئے ، 2017ء میں یہ 82ہوئے جبکہ 2018ء میں یہ 46ہوگئے ، اس کے علاقے دہشت گرد واقعات ہیں ان کا گراف بھی تیزی سے نیچے آرہا ہے اور چونکہ آپ نے دیکھا ہے کہ کے پی اور فاٹا میں سیکورٹی کی صورتحال پہلے سے بہت بہتر ہے تو ہمارا جو افواج پاکستان کا فوکس ہے وہ بھی بلوچستان کی طرف ہے تاکہ وہاں پر حالات دن بدن بہتر ہوں اس کے علاوہ جو سب سے اچھی بات ہے فراری جو ہتھیار ڈال رہے ہیں اور 2016میں 403فراریوں نے سرینڈر کیا تھا2017ء میں 813اور اس سال بھی تک244تو پچھلے تین برسوں میں 2200سے زائد فراری واپس قومی دھارے میں شامل ہوگئے ہیں اور یہ ایک بہت اچھا قدم ہے اور میری درخواست ہوگی ان تمام سے جو ابھی بھی باہر پہاڑوں پر بیٹھے ہیں اور ان حضرات کے کہنے پر جو ملک سے باہر بیٹھے ہیں اپنے ملک میں امن کا مسئلہ بنانا چاہتے ہیں ، انہیں ملک واپس آنا چاہئے اور قومی دھارے میں شامل ہوں اور بلوچستان کی ترقی میں اپناکردار ادا کریں ۔ میجر جنرل آصف غفور نے کراچی کی صورتحال کا تذکرہ کرتےہوئے کہا کہ پچھلے چند برسوں میں لاء اینڈ آرڈر اور سیکورٹی کے صورتحال ہے بہت بہتر ہوئی ہے تاہم 2013ء میں کراچی میں مختلف قسم کے 4508؍ واقعات ہوئے جس میں دہشتگردی کے 330، ٹارگٹ کلنگ کے1762،بھتہ خوری کے 2ہزار سے زائد اور اغواء کے بعد واقعات ہوئے تاہم سندھ رینجرز نے بہت جانفشانی سے اپنی قربانی دے کر پچھلے سالوں میں کراچی کی روشنیاں لوٹائیں اور آج جب ہم کراچی کو دیکھتے ہیں تو 2017ء میں کوئی دہشت گرد واقعہ نہیں ہوا تھا جبکہ 2018میں یہ جو چینی قونصلیٹ پر ہوا اور ایک مائنر بلاسٹ ہوا برج کے نیچے الحمداللہ کراچی میں جو سیکورٹی کی صورتحال ہے یہ بہت اچھی ہے اور اس کا کریڈٹ پاکستان رینجرز سندھ کو جاتا ہے اور ساتھ ان کے جو دوسرے سیکورٹی کے ادارے ہیں پولیس لاء انفورسمنٹ ایجنسیز ہیں انہوں نے بھی بہت اچھا کام کیا ہے اگر کمی دیکھنا چاہیں تو کراچی میں دہشت گردی 99فیصد کم ہوئی ، ٹارگٹ کلنگ میں 97؍ فیصد ، بھتہ خوری میں 96؍ فیصد اور اغواء اور دیگر میں 93؍ فیصد کمی واقع ہوئی ہے ۔ اشاریے اس سکون کے جوکہ کراچی میں آچکا ہے جس سے ہماری تجارتی سرگرمی بحال ہوں گی اور انشاء اللہ آنے والے دنوں میں کراچی جس کو ہم کہتے ہیں،معاشی انجن ہے ہمارا تو بہتر کارکردگی کرسکے گا۔ کراچی ایک زمانے میں جو کرائم ریٹ کے حساب سے نمبر 6ہوتاتھا دنیا میں آج اللہ کے فضل و کرم سے کراچی 57ویں نمبر پر ہے، آپ دیکھ لیں بہت سارے شہر کرائم ریٹ میں کراچی سے بہت اوپر ہیں تو انشاء اللہ اس امن کو ہم آگے لے کر چلیں گے اور کراچی کے حالات مزید بہتر ہوں گے۔ آپریشن ردالفساد کا حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ ابھی تک پورے ملک میں 44 majorآپریشن ہوئے ہیں ردالفساد کے تحت اور اس کے علاوہ 42000سے زائد آئی بی اوز اینڈ کامبنگ آپریشن او ر پولیس نے بھی حصہ لیا۔ اس میں سے جوقانونی طریقے کے تحت releaseہونے تھے releaseجن کے اوپر casesتھے وہ کیسز چل رہے ہیں اور جو ہمارامقصد تھا کہ ہتھیاروں سے پاک کریں اس میں پیشرفت اتنی اچھی نہیں ہے جتنی ہونی چاہئے انشاء اللہ حکومت کے ساتھ ملک کر قانونی سازی کے ذریعے لائسنس عمل کو کو مزید بہتر کریں گے ابھی تک32؍ ہزار ہتھیار ملک بھر سے برآمد کئے اور 43لاکھ کے قریب امیونیشن برآمد ہوا ۔ جو ردالفساد کے کارڈنلز تھے الحمداللہ اس کے تحت بھی کارروائی چل رہی ہے ۔کوئی بھی جنگ صرف آپریشن کرنے سے ختم نہیں ہوتی جب آپ کے کائنیٹک آپریشن ختم ہوتے ہیں تو ساتھ آپ کو سوشو اکنامک ڈیویلپمنٹ کی بھی ضرورت پڑتی ہے اس سلسلے میں حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر افواج پاکستان نے جو اسٹرٹیجی اپنائی تھی کلیئر ہولڈ بل ٹرانسفر میں بلڈ فیز میں ہم نے تین ایریاز میں کام کیا ایک ڈیویلپمنٹ اینڈ پبلک سپورٹ دوسرا یوتھ کا روزگار اور اتنہا پسندی ختم کرنا ہے ۔ جو کام افواج پاکستان نے اپنے اداروں کے ذریعے اور سویلین اداروں کے ساتھ مل کر وہاں کئے ہیں جس قسم کی اقتصادی سرگرمی انشاء اللہ ابھی فاٹا اور بلوچستان میں ہورہی ہے اگر اسی طریقے سے یہ مزید تین چار سال جاری رہی۔ فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے بعد اور جو خوشحال بلوچستان پروگرام چل رہا ہے تو جو ہم کہتے ہیں کہ پائیدار امن سماجی اور معاشی ترقی ذریعے آئے گا ۔ پاکستان آرمی نے جو پولیو ٹیمز تھی ان کو سیکورٹی دے کر پورے ملک میں اس اینٹی پولیو ڈرائیو کا حصہ بنے اگر آپ دیکھیں کہ 2010ء میں 144کیسز تھے تو 2018ء میںکم ہوکر 8رہ گئے اور یہ بھی پاکستان کی ایک بڑی کامیابی ہے اور ہم خواہش کرتے ہیں کہ انشاء اللہ ایک وہ دن آئے کہ جب پاکستان بھی پولیو فری کنٹری بنے ۔ میجر جنرل آصف غفور نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم ) کے حوالے سے کہا کہ پشتون تحفظ موومنٹ والوں کے صرف 3 مطالبات تھے، چیک پوسٹوں میں کمی، مائنز کی کلیئرنس اور لاپتہ افراد کی بازیابی،تو جیسے جیسے حالات بہتر ہوئے افواج پاکستان نے اپنی چیک پوسٹوں میں کمی بھی کی اور ان کی آپریٹنگ procedureمیں بھی کمی کی کیونکہ جب آپ جنگ کررہے ہوتے ہیں تو مائنڈ سیٹ differentہوتا ہے جب اس کے بعد آپ rehablitaionکی طرف جاتے ہیں تو modeتھوڑا سا مختلف ہوجاتا ہے ۔ 2016میں جو مختلف قسم کی چیک پوسٹ تھیں فاٹا کے پی میں وہ تقریباً 469تھیںجو اب 331 رہ گئیں ہیں اگر ہم سمجھیں کہ آج سیکورٹی کی صورتحال وہ ہوگئی ہے جہاں ایک چیک پوسٹ کی ضرورت نہیں ہے تو ہم ایک بھی چیک پوسٹ نہیں رکھیں گے لیکن جو چیک پوسٹ وہاں لگی ہوئی ہے اس میں جو سپاہی کھڑا ہے وہ سولجر شاید تربت کا ہے ، شاید لانڈھی کا ہے، شاید لاہورکا ہے ، شاید گجرات کا ہے لیکن اپنے گھر سے میلوں دور وہ اس جگہ پر اس لیئے کھڑا ہے کہ وہاں کی جوآبادی ہے اس کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہ ہو۔انہوں نے مزید کہا کہ اس کو ہم افغانستان سے بھی لنک کرتے ہیں ہم نے اپنی طرف تو بہت بہتری کرلی ، دہشت گرد بھی ختم کردیئے ، روزگار بھی ادھر بحال ہونا شروع ہوگیا ہےتعیناتی بھی شروع ہوگئی ، اگر آج ہمیں یہ یقین ہوجائے کہ افغانستان کی طرف سے کیونکہ ابھی ان کی طرف ابھی خلاء ہے ا ن کا کنٹرول پورا نہیں ہے بارڈر پر بھی نہیں ہے بارڈر کے نزدیک علاقوں میں بھی نہیں ہے تو ہم آج 2لاکھ سے زائد اہلکار لگے ہیں ہم ان کے آج واپس لاسکتے ہیں لیکن وہ ہم اس لیئے نہیں لاسکتے کہ ابھی خطرہ جو بارڈر کے پار ہے وہ ختم نہیں ہوئی اس سلسلے میں ہم نے بارڈر فینسنگ بھی شروع کی ہوئی ہے 26011کلومیٹر کی لینتھ پر بارڈر لگ رہا ہے تقریباً 600کلومیٹر پلس آل الانگ پاک افغان بارڈر ہمار ی مکمل ہوگئی ہے فینسنگ کی اور انشاء اللہ جس دن یہ فینس مکمل ہوجائے گی، بارڈر ہمارے پر خطرہ ہے اس میں بہت حد تک کمی آئے گی اس میں ہم فورس اور پوسٹ بھی بنا رہے ہیں اس میں بھی ہماری60فیصد سے زائد مکمل ہوچکی ہے ۔ اس کے بعد ان کی ڈیمانڈز تھیں کہ جو مائنز ہیں اس علاقے میں وہ کلیئر کیا جائے مائنز کی کلیئرنس کے لیے اس وقت فاٹا میں 43 teams ہیں انجینئرز کی جو مختلف ڈسٹرکٹس میں اپنا کام کررہے ہیں اور ان ٹیمز نے ابھی تک44فیصد ایریاہے وہ کلیئر بھی کردیا ہے ،آپ یہ یاد رکھیں کہ اس علاقے میں جنگ ہوئی ہے پندرہ سال ابھی جنگ ہوئی ہے اور اس سے پہلے بھی وہاں پر حالات جو فرسٹ افغان وار کے تھے جو مائنز ہیں جوبم پھٹے نہیں تھے ان کے اوپر آکے جو ہمارےاہلکار بھی شہید ہوچکے ہیںاور آرمز انسٹیٹیوٹ جائیں اور دیکھیں گے کہ کتنی ہمارے فوجی بھائی وہاں پر اپنے جسم کے اعضاء کے زخمی ہونے کے بعد ان کے بغیر rehabilitation processمیں جارہے ہیں unityخواہ civilian کی ہوا یا فوجی کی ہو وہ ایک پاکستانی کی ہے اور ہم نے وہ علاقہ انشاء اللہ ایک دن تمام جومائنز ہیں انہیں صاف کرنا ہے تیسری ڈیمانڈ ان کی مسنگ پرنس تھی آج میں تھوڑا اس بارے میںآ پ کو تفصیل بتاناچاہوں گا ، پی ٹی ایم جب لسٹ دی تو کوئی 7,8,9ہزار قسم کی لسٹیں آئیں ، 2010-2011میں ایک کمیشن بن گیاجبری لاپتہ کے اوپر، جسٹس فضل اس وقت ہیڈ تھے اور آج جسٹس جاوید ہیں ایک طرف تو یہ تمام کیسز اس کمیشن میں چل رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ کچھ براہ راست شکایت کورٹس میں بھی چلے جاتی تھیں ، تو اس طریقے سے دو جگہ پر یہ کام ہورہا تھا جوکہ حال ہی میں سپریم کورٹ نے آرڈر دیا کہ آپ کمیشن کے ذریعے یہ کام کریں تقریباً 7000کے قریب یہ کیسز دونوں جگہ پر آئے اس کے بعد اس کا processشروع ہوا اور یہ روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرتے ہیں ایک ینچ اس کا اسلام آباد میں بیٹھتا ہے جو کہ دو ججز تھے ایک اور جج اس میں شامل ہوگئے ہیں اور ایک کراچی اور کوئٹہ میں ہے ان کا بنچ ، اگر میں آپ کو progressدوں تو ان میں سے 7000کیسز میں سے 4ہزار سے زائد کیسز حل ہوچکے اور تقریباً 3000+کیسز under processہیں ان 3000میں سے 2000کیسز کمیشن کے پاس ہیں اب سوال یہ ہے کہ جنگ لڑی ہے ہم نے پندرہ سال اس جنگ میں بہت سے دہشت گرد مارے بھی گئے اس وقت ٹی ٹی پی جو افغانستان میں بیٹھی ہوئی ہے اس کی فورس ادھر موجود ہے 2,3,4ہزار تو کیسے یہ ثابت ہوسکتا ہے کہ جو لوگ مسنگ ہیں وہ ٹی ٹی پی کے اس فورس کا حصہ نہیں ہیں ، یا کسی اور جگہ پر جہاں لڑائی ہورہی ہے کہیں اس میں نہیں ہوں یا جو مارے گئے ہیں اس میں نہیں ہوں جہاں تک جذبات اور احساسات کا تعلق ہے کوئی بھی پاکستانی جو کسی وجہ سے بھی مسنگ ہے وہ ہمیں بھی اتنا ہی عزیز ہے جتنا کہ ہونا چاہیےحقیقی نقصان تو فیملی کا ہوتاہے لیکن پھر آپ یہ دیکھیں کہ جو 70ہزار پاکستانی اس جنگ کو لڑتے ہوئے زخمی یا شہید ہوئے وہ بھی تو دنیا سے تو مسنگ ہیں اسی جنگ کو ختم کرنے کے لیے جنگ کا اختتام آپریشنز کے بعد بہتری کی طرف جانے کے لیے جنگ کے نقصانات کو بھولنا پڑتا ہے ہماری بڑی خواہش ہوگی کہ یہ processآگے چلے اور جو باقی مسنگ پرسن ہیں ان کا بھی ٹریس جس طریقے سے ہو وہ آگے چل سکے ، ان تین ڈیمانڈز کے علاوہ پی ٹی ایم کی کوئی ڈیمانڈز نہیں تھیں لیکن آپ نے دیکھا کہ پی ٹی ایم ان ڈیمانڈز سے beyondکیسے چلیں ، میں نے اپنی پریس کانفرنسزمیں آپ سے پہلے بھی بات کی کہ ہمارے visibilityہے کہ پی ٹی ایم کیسے چل رہی ہے وقت آیا تو بتائیں گے بھی، پھربہت سے لوگوں نے کہا کہ آپ نے پی ٹی ایم کے اوپر سخت ہاتھ نہیں رکھا، حکومت نے یا افواج پاکستان نے ، انہوں نے ایسے نعرے بھی لگائے کہ جن کو سن کر فوجی ہوتے ہوئے یا کسی شہید کی فیملی ہوتے ہوئے محسوس ہوتا ہے لیکن ہم نے جب کہتے ہیں کہ ریاست ماں ہوتی ہے ان کے ساتھ ابھی تک politely engageکیا بات چیت سے engageکیا اس کی دو وجوہات تھیں پہلی وجہ یہ کہ یہ جو پاکستانی بھائی ہیں ہمارے ان کے علاقے میں پچھلے پندرہ سال جنگ ہوئی، انہوں نے بہت دہشت گردی کا سامنا کیا اور پھر جب ملٹری آپریشن ہوئے تو بہت ساری انتظامی inconvinience بھی کی تو ہمارے لوگ ہیں دکھی بھی ہیں نقصان بھی ہوا ہے اور ابھی تک انہوں نے violenceنہیں کی زبان سے ضرور انہوں نے غلط باتیں کیں لیکن ابھی تک انہوں نے violenceنہیں کی ، تو میری ان سے درخواست یہ ہوگی کہ آپ کی جو genuine demandsتھیں وہ حکومت اور افواج پاکستان ان کے کہنے پر نہیں ان کے کہنے سے بہت پہلے ہی دور کرنا شروع ہوچکی تھی جتنی developmentمیں نے آپ سے ذکر کیا ہے سات کیڈٹ کالجز ہیں بہت سارے بچے اس میں پڑھتے ہیں سڑکیں ہیں، ذریعہ معاش ہے اور ہر آنے والے دن اس میں بہتری آنی ہے تو جہاں تک ان کی ان تین ڈیمانڈز کا تعلق تھا ریاست نے ان کے ساتھ بھر پور اپنا سمجھتے ہوئے تعاون کیا ہے لیکن جس طرف یہ جارہے ہیں ایک اسٹیج وہ پہنچ سکتی ہے کہ جہاں یہ وہ لائن کراس کرلیں جہاں ہمیں اپنی اتھارٹی استعمال کرنی پڑے ، تو میری ان سے درخواست ہوگی وہ اپنے آپ کو پر امن پاکستانی ہوتے ہوئے ہمیں ان کے دکھ کا احساس ہے ان کی تکالیف کا احساس ہے لیکن وہ لائنز نہ کراس کریں کہ جہاں پھر ریاست کو اپنا زور لگا کر اس صورتحال کو قابو کرنا پڑے ۔

تازہ ترین