• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”آپ کو اپنے بچوں کا واسطہ ہے، آپ غیر ملکی ڈراموں کا بائیکاٹ کردیں …آپ کو میری جان کی قسم ہے، آپ وہ ڈرامے مت دیکھیں …پلیز، آپ وعدہ کریں کہ اس وقت اپنا ٹی وی ہی آف کردیں گے جس وقت وہ ڈرامے آن ایئر ہوتے ہیں … اوہ میرے خدا ، آپ کو سمجھ کیوں نہیں آتی کہ یہ غیر ملکی ڈرامے ہمار ی ثقافت اور اقدار پر حملہ ہیں …آخر آپ کی عقلوں پر تالے کیوں پڑ گئے ہیں ؟“یہ وہ دہائی جو آج کل ہمارے ٹی وی کے اداکار اور پروڈیوسرز دے رہے ہیں۔ ان لبرل خواتین و حضرات کو ہماری مشرقی اقدار اور روایات کا غم کھائے جا رہا ہے ،انہیں ڈر ہے کہ اگر حکومت نے فوری طور پر اردو میں ڈب کئے گئے ترک ڈراموں پر پابندی عائد نہ کی تو نہ صرف ہماری ثقافت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا بلکہ ہماری ڈرامہ انڈسٹری ،جسے انہوں نے دوسروں کا خون پلا کرجوان کیا ہے ،بن کھلے ہی مرجھا جائے گی ۔
قصہ شروع ہوا ترکی کے سپر ہٹ ڈرامے”عشق ممنوع“ سے جسے ایک نجی ٹی وی چینل نے اردو میں ڈب کر کے نشر کیا اور مقبولیت کے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ دئیے ۔ سلام ہے اس شخص کی پرواز تخیل کو جس نے ہٹ غیر ملکی ڈراموں کویہاں ڈب کرکے چلانے کا رسک لیا اور میدان مار لیا ،باقی لوگ اب لکیر پیٹ رہے ہیں۔”عشق ممنوع“ کا اچھوتا پن ترک مسلم اشرافیہ کا رہن سہن اور mannerismتھا جو پاکستان کے ناظر کے لئے بالکل نئی چیز تھی۔ہمارے دماغوں میں ترکی کا جو ”اسلامی نقشہ“ بیٹھا ہے اس کے تحت ہم اب بھی ترکی کو سلطنت عثمانیہ کی نظر سے دیکھتے ہیں جہاں جلد یا بدیر خلافت قائم ہو جائے گی ۔ اس سوچ کو پروان چڑھانے میں ہماری دینی جماعتوں کا حصہ ہے جنہوں نے ہمیں یہ باور کروارکھا ہے کہ برادر اسلامی ملک ترکی اب نام کا ہی سیکولر ہے ،وہاں اسلام کی ایک جدید شکل رائج ہے ،نہیں یقین آتا تو طیب اردگان کی بیوی دیکھ لیں جو حجاب لیتی ہے !”عشق ممنوع“ نے اس تصور کی دھجیاں اڑا دیں،ترک اشرافیہ کا جو لائف سٹائل اس ڈرامے میں دکھایا گیا،اس نے پاکستانیوں کو مسمرائز کر دیا۔صرف آخری قسط میں ایک جنازے کے سین سے پتہ چلا کہ یہ سب لوگ مسلمان تھے ورنہ پوری سیریل ہی ”سیکولر“ تھی۔خوبصورت لوکیشن ،نئی کاسٹ ،لاجواب اداکاری ،حسین ترک چہرے ،کہانی کی ٹریٹمنٹ،گلیمر … اس ڈرامے میں ہٹ ہونے کے تمام لوازمات موجود تھے۔ اور پھر جیسا کہ پاکستان میں ہوتا ہے ،بھیڑ چال شروع ہو گئی۔ایک کے بعد ایک چینل نے لگ بھگ اسی کاسٹ کے ڈرامے ڈب کر کے دکھانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور یہ سلسلہ تب تک جاری رہے گا جب تک ہمارے لئے ان ڈراموں میں نیا پن برقرار رہے گا ۔
اس سارے قضیئے سے ہمارے ٹی وی اداکار اور پروڈکشن ہاؤسز کے مالکان بہت پریشان ہیں ۔”عشق ممنوع“ نے ان کی روزی پر ڈائریکٹ دولتی ماری ہے۔ انہیں اس بات کی فکر کھائے جا رہی ہے کہ اگر چینل کو ایک غیر ملکی ڈرامہ ڈب کرکے ایک لاکھ میں پڑتا ہے تو وہی چینل ان کا ڈرامہ پانچ لاکھ میں کیوں خریدے گا ؟ان کا تو کاروبار ٹھپ ہو جائے گا ۔ سو انہوں یہ واویلا شروع کر دیا ہے کہ غیر ملکی ڈرامے ہماری ثقافت اور اقدار کے خلاف ہیں لہٰذا عوام ان کا بائیکاٹ کریں۔ یہ اس صدی کا سب سے بڑا لطیفہ ہے ۔
اس وقت ہمارے ٹاپ کے ٹی وی چینلز پر تقریباً پینتیس کے قریب ڈرامے دکھائے جا رہے ہیں ،اگر آپ ان ڈراموں پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلے گا کہ ان میں سے زیادہ تر ڈرامے تین یا چار پروڈکشن ہاؤسز کے تیار کردہ ہوتے ہیں یعنی ٹی وی چینلز پر ان پروڈکشن ہاؤسز کی اجارہ داری قائم ہے اورچھوٹے موٹے ڈرامہ پروڈیوسر کے لئے چینل پر اپنا ڈرامہ بیچنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ان پروڈکشن ہاؤسز کی طاقت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے تمام بڑے اداکار اور مصنف وغیرہ کئی سالوں کے لئے ”بُک“ کر رکھے ہیں چنانچہ کوئی بھی عام پروڈیوسر انہیں سائن نہیں کر سکتا ۔ہولی وڈ میں 30ء اور 40ء کی دہائی میں یہ کام ہوا کرتا تھا مگر تب یونین نے اسے ختم کروا دیا اور اب دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا۔ اب جبکہ ان سے بڑا ”مافیا“ مارکیٹ میں آ گیا ہے تو ان پروڈکشن ہاؤسز کو تکلیف ہو رہی ہے جس وقت یہ پروڈکشن ہاؤسز دونوں ہاتھوں سے منافع سمیٹ رہے تھے اس وقت انہیں کبھی چھوٹے پروڈیوسرز ،رائٹرز یا ٹیکنیشنز کا درد نہیں اٹھا تھا۔رہی بات ڈرامہ انڈسٹری تباہ ہونے کی تو بات یہ ہے کہ اگر ٹی وی چینلز نے دو چار غیر ملکی ڈرامے چلانے شروع بھی کر دئیے ہیں تو کیا فرق پڑتا ہے ،مارکیٹ میں تیس ڈراموں کی کھپت تو اب بھی موجود ہے ۔یہ کیا دلیل ہوئی کہ چینلز صرف لوکل پروڈکشن ہاؤس کا ڈرامہ چلائے ورنہ ہماری ڈرامہ انڈسٹری تباہ ہو جائے گی؟یہ ایسے ہی جیسے کوئی شاعر کہے کہ اگر آپ نے میرا مجموعہ نہ خریدا تو میں بھوکا مر جاؤں گا ۔
دنیا میں جب بھی کوئی نئی چیز ایجاد ہوتی ہے اس پر اس وجہ سے پابندی نہیں لگا دی جاتی کہ اس سے ہزاروں لوگوں کا روزگار متاثر ہوگا ۔اگر یہ دلیل درست ہے تو پھر ہم سب کوپتھر کے دور میں واپس چلے جانا چاہئے۔ اور ہاں… ہمارا دعویٰ تو ٹیلنٹڈ ہونے کا بھی ہے …تو ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے ،ہمار ے یہ اداکار اور پروڈیوسر ز اپنا ڈرامہ ڈب کرکے دوسرے ملکوں میں چلوانے کی کوشش کریں ،لگ پتہ جائے گا کس بھاؤ بکتا ہے! ان میں سے کسی ملک کو ہمارا ڈرامہ چلانے پر اعتراض بھی نہیں ہوگا جیسے ہمیں ان کا ڈرامہ چلانے پر اعتراض ہے ۔
اوریہ دلیل تو نہایت بودی ہے کہ چونکہ ہم بولڈ ڈرامے نہیں دکھا سکتے لہٰذا لوگ غیر ملکی ڈراموں کی طرف زیادہ مائل ہو رہے ہیں ۔جن موضوعات پر ہمارے ٹی وی چینلز ڈرامے دکھار ہے ہیں اگر وہ بھی بولڈ نہیں تو پھر شاید اس لفظ کے ہجے ہی تبدیل کرنے پڑیں گے ۔آج کل ایک نجی چینل کے ڈرامے میں دکھایا جا رہا ہے کہ شوہر نے اپنی سالی سے ناجائز تعلقات قائم کر رکھے ہیں جبکہ ایک دوسرے ڈرامے میں باپ بیٹی سے پوچھتا پھر رہا ہے کہ وہ کب ماں بننے کی خوشخبری سنائے گی ؟ہمارے جو پروڈیوسرز مشرقی اقدار کا رونا رو رہے ہیں ، یہ وہی ہیں جنہوں نے پی ٹی وی پر اپنے ڈراموں کے وہ سین بھی چلوائے جن میں دو لڑکیا ں ”ڈرنک“ کر رہی ہیں اور نشے کی حالت میں اپنے معاشقوں پر روشنی ڈا ل رہی ہیں۔نجی ٹی چینلز کے ڈراموں میں تو اب یہ عام بات ہے ۔
اس ساری بحث کاسب سے دلچسپ پہلویہ ہے کہ وہ نام نہاد لبرل طبقہ جو کسی زمانے میں ان قدامت پسندوں کا مذاق اڑاتا تھا جو بھارتی ثقافتی یلغار کے خلاف تھے ، اب اس کے اپنی کاروباری مفادات پر ضرب پڑی تو انہیں پاکستانی اقدا ر یاد آگئیں! بھارتی فلم ہو یا ترکی ڈرامے، ہمیں ایک لحاظ سے شکر کرنا چاہئے کہ ان کی وجہ سے ہمارے ہاں سنیما اور ٹی وی کلچر زندہ ہوا،اب کوئی بھی پاکستانی فلم ساز یا ٹی وی پروڈیوسر اپنی اچھی چیز بنا کر یہاں چلا سکتا ہے۔ اگر بکواس پاکستانی فلموں کی وجہ سے سنیما ہی بند ہو جاتے تو”بول“ جیسی عمدہ فلم کہاں دکھائی جاتی ؟
آخر میں ایک مفت مشورہ چینلز کے لئے ۔ترکی کا پیچھا چھوڑیں اور باقی دنیا پر نظر دوڑائیں ۔ٹی وی کے ناظر کو نیا پن چاہئے تو اسے ہر دم نئی چیز دکھائیں۔ مصر ،سپین اورامریکہ کے سپر ہٹ ٹی وی سیرلز ڈب کر کے دکھائیں، مزید لُٹ پڑ جائے گی !
تازہ ترین